نوے کی دہائی میں دوردرشن پر نشر ہوئے سیریل‘شانتی’ سے چرچہ میں آئے اداکار راجیش جیس حال ہی میں‘اسکیم 92’،‘پاتال لوک ’اور ‘پنچایت’جیسی ویب سیریز میں نظر آ چکے ہیں۔ ان سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ ہوئے لاک ڈاؤن کے بعد سنیما ہال دھیرے دھیرے کھلنے لگے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے آپ فلم انڈسٹری پر کتنا اور کیسا اثر محسوس کرتے ہیں؟
ابھی تک نہ تو ایسا کوئی واقعہ رونماہوا تھا کبھی، نہ ہی کسی نے امید کی تھی۔ مطلب اسٹیٹسٹکلی، لاجسٹیکلی، کریٹولی سب کچھ بدل گیا ہے۔ اس سے اب یہ ہو گیا کہ سنیما ہال کوئی جائےگا نہیں۔اب جب سنیما ہال لوگ جا ئیں گے ہی نہیں تو نیچرلی سب کو جھٹکا لگا ہے۔ جو فلمیں پائپ لائن میں تھیں جو بن کر تیار تھیں، انہیں تو بہت بڑا جھٹکا لگا ہے۔اس بیچ ویب سیریز والوں نے جو پلیٹ فارم بنایا جانے انجانے اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی۔ ایسے ٹائم ان لوگوں نے دکان کھول لی تھی کہ سارا فائدہ بٹور لیا۔
ابھی آپ فلم بناکر بیٹھے ہو وہ ریلیز ہوتی ہے، تب سب کے پاس پیسہ پہنچتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سنیما ہال بند تھے۔ اب آپ نے 50 فیصدی صلاحیت کے ساتھ انہیں کھول دیا ہے تو کس کو پڑی ہے کہ وہ سنیما ہال آئےگا۔
پہلے جو بنیادی ضرورتیں ہیں وہ آدمی جٹا لے، فلم دیکھنا تو سب سے آخری ترجیح ہے۔ اس میں بھی کون اتنی ہمت دکھائےگا کہ سنیما ہال جائے۔ سب کو پتہ ہے کہ اچھی فلمیں ایک مہینے کے اندر اوٹی ٹی(آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارم)پر آ جاتی ہیں۔ یہ بہت بڑا خطرہ آیا، جس نے سب کچھ مٹیامیٹ کر دیا۔
لاک ڈاؤن تھا، آپ گھر میں بیٹھے تھے، انٹرنیٹ بھی سستاہو گیا ہے تو کل ملاکر ترجیحات لگ بھگ بدل گئیں۔ گھر میں بیٹھ کر کم پیسے میں چھ سات لوگ ایک ساتھ سنیما دیکھیں گے تو وہ ان کے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ اب جنہوں نے فلمیں بنا لی ہیں، تو وہ اس کا اچار تو ڈالیں گے نہیں، انہیں مجبوری میں اوٹی ٹی پر ریلیز کرنا پڑ رہا ہے۔
کل ملاکر گھاٹے کا سودا ہو رہا ہے۔ فی الحال تو بہت ہی ڈراؤنی تصویر ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران جب سب کچھ بند تھا، تب اس کا فائدہ اوٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ملا۔ اب تمام لوگ ویب سیریز کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈیلی سوپ اوپیرا سے لوگ تھک چکے تھے۔ اس کا مواد باسی ہو چکا تھا۔ اب سنیما اور سیریل کے بیچ کا راستہ نکلا ویب سیریز۔ ٹیلی ویژن کا ہی پراسیسڈ روپ ہے ویب سیریز۔اوٹی ٹی کے فائدے اور نقصان دونوں ہیں۔ ابھی یہاں سی بی ایف سی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ تو فریڈم آف اسپیچ کا جو نیریٹو ہے، اس کا بھر بھر کے استعمال کر رہے ہیں۔
چلو ٹھیک ہے، آپ سیاست اور سسٹم کے خلاف اس کا استعمال کر رہے ہو، اچھی بات ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر دوسرے سین میں گالیاں، سیکس سین، تشدد کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے ہیں۔
فلم راضی میں عالیہ بھٹ کے ساتھ راجیش جیس۔
فریڈم آف اسپیچ کے نام پر انہوں نے یہ لیا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ آپ فلم میکر ہو، اکثر لوگ ایک کمرے میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ اب اگر میں فیملی کے ساتھ اسے بیٹھ کر نہیں دیکھ پا رہا ہوں تو پھر کیا فائدہ ہے۔ میری ان لوگوں سے بات چیت بھی ہوئی تھی، تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری آڈینس الگ ہے۔
مجھے پتہ ہے آپ یوتھ کی بات کر رہے ہو، لیکن یہ سب یوتھ دیکھےگا تو اکیلے موبائل پر، ایسے میں آپ پوری فیملی سے محروم ہو گئے۔ یہ تو آپ کا نقصان ہے۔
ابھی آپ نے ویب سیریز کے فائدے اور نقصان کی بات کہی۔ اسے تھوڑا اور تفصیل سے بتائیں گے۔
ویب سیریز کا فائدہ ہے کہ آپ سسٹم سے سوال کرتے ہو، سینسر کی قینچی نہیں چلتی ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں ان کی بھی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہندوستانی گھر ہے، تہذیب اور روایت ہمارے یہاں آج بھی زندہ ہیں۔ نظروں کی شرم ابھی باقی ہے، یورپ نہیں ہو گئے ہیں کہ ہم کہ ہر دو منٹ پر اس طرح کے سین شروع ہو جائیں۔ یہ اس کامنفی پہلو ہے۔
میں قدامت پسند نہیں ہوں، لیکن ہر ملک کی ایک تہذیب ہوتی ہے، اس کی قیمت پر اپنے نظریات کونہیں ٹھونسنا چاہیے۔حالانکہ مثبت پہلو بھی اتنے ہی ہیں کہ مواد فریش نکل کر آ رہا ہے۔ ٹیلینٹ ایکسپلور ہو رہے ہیں۔ رائٹر، ہدایت کار، پروڈیوسر،آرٹسٹ، ایڈیٹرس سب کو کام کرنے اور تجربہ کرنے کی ایک بڑھیا جگہ ملی ہے۔
جیسے میں‘اسکیم 92’ویب سیریز کا حصہ رہا۔ اس میں کوئی گندگی نہیں ہے۔ بہت رییر کسی غیر مہذب لفظ کا استعمال ہوا اور وہ بھی بہت منصفانہ لگتا ہے۔میری باتوں کاخلاصہ یہی ہے کہ آپ ‘اسکیم 92’دیکھ لو۔اسٹاک مارکیٹ ایک پیچیدہ موضوع ہے، اس کو فلمساز ہنسل مہتہ نے آسان کرکے اس کے انسانی پہلو پر مبنی کہانی کو سنایا ہے، جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔
اس نے ایک اچھی مثال دی ہے کہ بھیا بنا گندگی، بنا فحش مودا ڈالے بھی آپ اچھا بنا سکتے ہو۔
پہلے رشی کیش مکھرجی، باسو چٹرجی فلمیں نہیں بناتے تھے کیا؟ اس میں پیار محبت کے سین نہیں ہوتے تھے کیا؟ آپ نے دو پھول لڑا دیا، اسے علامتی طور پر دکھا دیا، تو سمجھ گئے ہم۔ آپ کو وہ کرکے ہی پردے پر دکھانا ہے تو پھر آرٹ کہاں رہ گیا؟ ہم آرٹسٹ ہیں نہ؟ ہم اسی بات کو جمالیاتی شعور کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔
آپ یہ مت بھولیے کہ آپ فکشن بنا رہے ہیں اور یہ دیکھنے لائق ہو، ایسا ہونا چاہیے۔
کیا اوٹی ٹی پلیٹ فارم ملٹی پلیکس کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں؟ کیا ان کے آنے کے بعد سے سنیما ہال جاکر فلمیں دیکھنے کا چلن ختم ہو سکتا ہے؟
دیکھیے، سماج کی توسیع ہوتی رہتی ہے۔ کسی نئی چیز کی ایجادہو تی ہے تو وہ اس میں جڑ جاتی ہے۔ نسل در نسل ہم اس میں کچھ نہ کچھ بہتر جوڑتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم موبائل پر بات کر رہے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
رنبیر کپور کے ساتھ فلم راکیٹ سنگھ: سیلس مین آف دی ایئر میں راجیش جیس۔
انٹرٹین منٹ شعبہ کا بھی فروغ ہوا ہے۔ ناٹک سے شروعات ہوئی اور دھیرے دھیرے، کرتے کرتے کیمرے تک پہنچ گئے، اب معاملہ اوٹی ٹی تک آ گیا ہے۔ سنگل اسکرین کا اپنا مارکیٹ ہے، ملٹی پلیکس کا اپنا مارکیٹ ہے۔ آپ کومتبادل دیے جا رہے ہیں۔نئی چیزوں کے آنے کے بعد تھوڑاا ورتضاددکھتا ہے، لیکن کوئی کام نہیں رکتا۔
آپ نشانےباز بھی رہ چکے ہیں، نشانے بازی سے سنیما کی طرف کیسے مڑ گئے؟
میرے پتاجی ایئرفورس میں تھے تو اس کا اثر تھا۔ اس عمر میں کالج پہنچتے پہنچتے ہر لڑکا لڑکی اپنے آپ کو ٹٹول رہے ہوتے ہیں کہ کیا بننا ہے؟ ریلوے کا امتحان نکلا تو وہ دے دیتے تھے، بینک کا نکلا تو اسے کر لیا، آرمی کا نکلا تو وہ بھی دے دیا۔
اسکول اور کالج میں میں این سی سی میں کافی ایکٹو تھا اور اس میں ایئر ونگ لیا ہوا تھا۔ اس کے تحت شوٹنگ کے ساتھ جو جو ایونٹ ہوتے تھے، سب میں شامل ہوتا تھا۔ شوٹنگ میں میرااسپیشلائزیشن تھا۔
صحافت بھی کرتا تھا۔ رانچی ایکسپریس میں لکھتا بھی تھا۔ ناٹک کا رجحان زیادہ تھا۔ رانچی میں سات سال تک تھیٹر کیا۔ دہلی آکر آئی آئی ایم سی کا انٹریس دیا تھا اور اسی وقت این ایس ڈی(نیشنل اسکول آف ڈرامہ) میں بھی ہو گیا تھا تو اسی میں ایڈمشن لے لیا۔
آپ رانچی میں پلے بڑھے ہیں۔ رانچی سے دہلی اور پھر ممبئی تک کاسفر کتنا آسان اور کتنا مشکل رہا؟ ممبئی میں پہلا پروجیکٹ کیسے ملا؟
سال 1988 میں این ایس ڈی گیا تھا اور 1989 میں وہاں کی کچھ پریشانیوں کو لےکر ہم نے تاریخی ہڑتال بھی کی تھی۔پارلیامنٹ میں اسے لےکر سوال بھی اٹھا تھا۔ اس سے مجھے لگا تھا کہ این ایس ڈی کی فیلوشپ نہیں ملے گی۔
شری دیوی کے ساتھ ایک شو میں راجیش جیش۔
اس ڈر سے میں نے نیٹ کا اگزام بھی دے دیا اور پاس کر گیا۔ تب این ایس ڈی سے بھی فیلوشپ مل گئی تھی، لیکن میں نے ان کو منع کر دیا تھا۔ پھر ایک پروجیکٹ مل گیا تھا، جس میں تھیٹر پڑھانے بیرون ملک چلا گیا تھا۔ وہاں سے آیا تو دہلی میں ہی تھیٹر کرتا تھا۔
میں، سوربھ شکلا، منوج باجپائی جی، ہمارا پورا ایک گروپ تھا، جس میں نرمل پانڈے بھی تھے۔ ایک دن سوربھ شکلا دہلی میں میرے کمرے پر آئے اور بتایا کہ 2:20 بجے ممبئی ایک ٹرین جا رہی ہے اور اس میں راجیش جیش بھی جا رہا ہے۔
اس میں تگمانشو دھولیا، وجئے کرشناچاریہ، نرمل پانڈے، سب لوگ نکل رہے تھے۔ میں نے سوچا جب سب لوگ نکل رہے ہیں تو میں اکیلے کیا کروں گا، تو بوریا بستر باندھا اور ٹرین پکڑ لی۔ممبئی آنے کے بعد کب کام شروع ہوا پتہ بھی نہیں چلا۔ دوستوں کے ساتھ ممبئی آنے سے کافی مدد ملی۔ 10 لوگ الگ الگ جا رہے ہیں، کام مل رہا ہے۔ اسی بیچ کسی نے میرا نام سجھا دیا۔
کیتن مہتہ فلم او! ڈارلنگ یہ ہے انڈیا (1995)بنا رہے تھے، تو کسی نے میرا نام سجھا دیا تو وہ فلم کر لی۔ پھر زی ٹی وی پر ایک سیریل نشرہوا تھا میں بھی ڈٹیکیٹو(1995)،اسے منوج باجپائی کرنے والے تھے، لیکن نہیں کی تو میرا نام دے دیا۔ اسے کر لیا۔
وہیں پروڈیوسر شانتی(1994)سیریل بنا رہے تھے، تو ان لوگوں نے مجھے آفر دے دیا۔ وہاں سے گاڑی بڑھی تو پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہاں، لیکن2013 کے بعد سے ٹیلی ویژن چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد سے فلم، ویب سیریز اور ‘مغل اعظم’نام کا ایک ناٹک کرتا ہوں۔
تو یہ سفر بہت خوبصورت رہا۔ دوستوں اور اساتذہ کی وجہ سے کافی آسان رہا۔ ابھی ممبئی میں 25 سال ہو گئے رہتے ہوئے۔
آپ نے90کی دہائی میں دوردرشن پر نشر ہونے والےسیریل شانتی میں کام کیا ہے۔ اس دور کے سیریل کافی حقیقی ہوا کرتے تھے۔ اب جو سیریل بن رہے ہیں، ان سے آپ رابطہ نہیں کر پاتے ہو۔ کیا اسی وجہ سے آپ نےسیریل میں کام کرنا بند کر دیا؟
بالکل سہی پکڑا آپ نے۔ آج کل کے سیریلوں کو دیکھ کر مجھے غصہ آتا ہے۔ 400-500 کروڑ کی بات ایسے ہوتی ہے جیسے سو دو سو روپے ہوں۔ مر مر کے لوگ زندہ ہو رہے ہیں۔ ایکسٹرا میرٹل افیئر اور ہر چیز نقلی۔مطلب ٹی وی چلتے رہنا چاہیے، اس لیے کچھ بھی کرو۔ میں اس سے تھک چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 میں میں نے ٹی وی کے لیے کام کرنا بند کر دیا۔ حالانکہ میں جو بھی بنا ہوں، اس کی وجہ ٹی وی ہی ہے۔
لیکن اب جو ساس بہو والا چلن آیا ہے، اس نے پورا مٹیامیٹ کر دیا ہے۔ ہر دن ایک نیا ایپی سوڈ دینے کا دباؤ ہوتا ہے۔ ایسے میں کچھ سوچنے یا بڑھیا کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
فلم مسنگ میں تبو کے ساتھ راجیش جیس۔
پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے جو لوگ یہاں تک پہنچتے تھے، وہ کہیں نہ کہیں شدت سے جڑے ہوئے لوگ تھے۔ ان کی ٹی وی کے لیے ایک سپردگی ہوتی تھی، تبھی ‘مالگڑی ڈیز’، ‘ہم لوگ’، ‘بنیاد’،‘سوابھیمان’ جیسے سیریل آئے۔
اب زیادہ تعدادمیں کام ہوتا ہے، تو کوالٹی پر اثر پڑےگا ہی۔ پہلے یہ تھا کہ یہ کام اچھا کریں گے تبھی آگے کام ملےگا۔ ابھی یہ چلن ختم ہو گیا ہے۔
سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد بالی ووڈ میں نیپوٹزم پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی تھی۔ اسے لےکر آپ کا کیا ماننا ہے؟
نیپوٹزم(اقربا پروری)کو بہت صحیح معنوں میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ نیپوٹزم کا مطلب ہے کہ آپ اپنےعہدے کاغلط استعمال کر رہے ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نیپوٹزم سیاست میں ہے۔ انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے۔
ہم فلم انڈسٹری والے آسان ٹارگیٹ ہوتے ہیں۔ آپ ہمیں کچھ بھی کہو، ہم کچھ نہیں کہیں گے اور آپ کو پبلسٹی بھی مل جائےگی۔ اگر کوئی ڈائریکٹر اپنے بچہ کو لےکر فلم بنا رہا ہے اور اپنے پیسے لگا رہا ہے تو یہ اس کا رسک ہے۔ کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے۔
آپ کے پاس یہ متبادل ہے کہ آپ اسے دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ اگر بیٹا قابل ہوگا تو چل جائےگی فلم، قابل نہیں ہوگا تو نہیں چلےگی۔ بہت سے بڑے فلمساز اورآرٹسٹ ہیں، جن کے بیٹوں کوناظرین نے نکار دیا۔
ایسے میں سشانت سنگھ راجپوت پٹنہ سے یہاں آتے ہیں۔ سیریل میں لیڈ رول کرتے ہیں۔ پھر پریمیم ڈائریکٹرز کے ساتھ بطور ہیرو بڑی بڑی فلمیں آتی ہیں۔ یہ عام بات نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں ان کی اپنی صلاحیت تھی، جس کی وجہ سے وہ وہاں تک پہنچے۔
صرف نیپوٹزم ہوتا تو سشانت سنگھ راجپوت یہاں تک نہیں پہنچ پاتے۔ شاہ رخ خان، اکشے کمار بھی تو باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ ایسی بہت سی مثال ہیں۔آپ کے میڈیا ہاؤسز میں بھی تو بڑے صاحب اپنے چہیتوں کو اچھا عہدہ دے دیتے ہیں۔ یہ بھی تو نیپوٹزم ہے۔ میڈیا ہاؤس، کارپوریٹ، سرکار کے یہاں، این جی او، سبھی جگہ یہ ہے۔
میں اگر اپنا بزنس شروع کروں گا تو اسے اپنے بیٹے بیٹی کو ہی دےکر جاؤں گا، نہ کہ کسی اور کو بلاکر کہوں گا کہ لو بھیا میرا بزنس سنبھالو۔ یہ تو ریت ہے۔ اسے آپ نیپوٹزم بولوگے تو یہ غلط ہے نہ۔
آنے والے وقت میں ناظرین آپ کو کن فلموں یا ویب سیریز میں دیکھ پائیں گے؟
ابھی ایک فلم ‘چھوری’ کی شوٹنگ پوری کی ہے۔ یہ ایک پیور ہارر فلم ہے، لیکن اس کا پیغام ‘بیٹی بچاؤ’ کا ہے۔پیور ہارر فلم ہندستان میں بیسیوں سال سے نہیں بنی ہے، سب ہارر کامیڈی بناتے ہیں۔ اس میں نصرت برچا اور میتا وششٹ بھی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک فلم کی ہے ‘روح افزا’۔ اس میں جہانوی کپور کا فادربنا ہوں۔ یہ فلم بھی ریلیز ہونے والی ہے۔ حال ہی میں‘اندو کی جوانی’ ریلیز ہوئی ہے۔ اس میں کیارااڈوانی کا فادر بنا ہوا ہوں۔ ویب سیریز میں ‘انسائڈ ایز’ سیزن 3 اور ‘گورمنٹ’کی شوٹنگ کر چکا ہوں۔