سابق ہیلتھ سکریٹری کےسجاتا راؤ نے کہا کہ کووڈ 19 کی تیسری لہر کب آئےگی یہ ہم ابھی واضح طور پرنہیں کہہ سکتے ہیں۔ دوسری لہر کا اثر کم ہونے کے دوران ہمارے پاس ایک مختصرمدت ہوگی اور اسی مدت میں ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم اپنی 70 فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری کر دیں۔
(علامتی تصویر فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: کورونا وائرس کی دوسری لہر سے ملک کا ایک بڑا حصہ شدید طور پر متاثر ہے اور یہ اب تیزی سے دیہی علاقوں میں بھی پاؤں پھیلا رہا ہے۔ کچھ ماہرین اس وبا کی تیسری لہر کو لےکر بھی آگاہ کر رہے ہیں۔
سابق ہیلتھ سکریٹری سجاتا راؤ کا کہنا ہے کہ تیسری لہر کب آئےگی، اس کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وائرس کی تیسری لہراور بچوں پر اس کے اثرات کے خدشات اورتحفظ کے لیےپالیسی پر ہو رہی بحث کی بیچ کے سجاتا راؤ نےخبررساں ایجنسی بھاشا سے بات چیت کی۔
کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ کووڈ 19 کی تیسری لہر آئےگی اور اس سے بچےزیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ایسی کوئی بھی رپورٹ نہیں آئی ہے، جس میں سائنسی شواہد کی بنیاد پر یہ بات کہی گئی ہو کہ کووڈ 19 کی نئی قسم بچوں کے لیےزیادہ مضرہے۔
یہ واضح ہو رہا ہے کہ وائرس کا بی۔1.617ویرینٹ زیادہ خطرناک ہے۔ نگرانی،کنٹرول، علاج اور جانچ سے متعلق بتائے گئے گائیڈ لائن پر عمل کرنے سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہیلتھ سسٹم کو تیار رکھنے کی ضرورت ہے ۔
کووڈ 19 کی تیسری لہر کی شکل کیسی ہوگی اور یہ کتنی سنگین ہو سکتی ہے؟
کووڈ19کی تیسری لہر کے خدشے کا اظہار کیاگیا ہے، لیکن ہم یہ واضح طورپر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کب آئےگی اور کتنی سنگین ہوگی۔ اگر لوگ کووڈ کے لحاظ سے سلوک کریں اور ہم بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹیکہ لگا سکیں تو تیسری لہر کم خطرناک ہو سکتی ہے۔
کو رونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسے ہرانے کی کنجی کافی حد تک ٹیکہ کاری کی تیزرفتاری پر منحصر کرتی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جہاں سرکار ہدف سے پیچھے ہے۔کفایتی ٹیکہ کاری کے لیے سرکار کو ہندوستانی اور غیرملکی دوا سازوں سے ٹیکوں کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ مرکزی حکومت کو ٹیکے کی خریداری کرنی چاہیے اور صوبوں کوتقسیم کرنا چاہیے۔
کو رونا وائرس کے بدلتے پیٹرن کے بیچ ٹیکہ کاری کی حکمت عملی کیسی ہونی چاہیے؟
ہم ابھی کووڈ 19 کی دوسری لہر کے بیچ میں ہیں، ایسی حالت میں یہاں سے ٹیکہ کاری مہم کو صیقل کرنا اہم ہے۔ دوسری لہر کا اثر کم ہونے کے دوران ہمارے پاس ایک مختصر مدت ہوگی اور اسی مدت میں ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم اپنی 70 فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری کر دیں۔
تیسری لہر سے پہلے ہمیں ایسا کرنا ہی ہوگا۔ اس کے لیے ڈی سینٹرلائزیشن اہم ذرائع ہیں۔ ہمیں ضلعی سطح پر مائیکرو پلان تیار کرنا ہوگا اور اس مہم میں شہری سماج، گرام پنچایتوں اوردیگر فریقوں کو شامل کرنا ہوگا۔
ٹیکہ کاری میں اساتذہ، ڈرائیوروں، گھروں میں سامان پہنچانے والوں، صنعتی شعبہ کے ملازمین اور کام کاج میں مستقل رابطہ میں رہنے والوں کو جلد ازجلد ٹیکہ لگانا ہوگا۔ تبھی ہم آنے والےوقت میں وائرس کامؤثر ڈھنگ سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
کورونا وائرس میں ہو رہا یا ہونے والا بدلاؤ کتنا مضر ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو ایسے میں کیا احتیاط کرنا چاہیے؟
ہر وائرس جسم میں اپنی کاپی بنانے کے دوران بدلاؤ کرتا ہے، لیکن اس کی کاپیوں میں خامیاں ہوتی ہیں اور وائرس کی ہر کاپی اس کی عین کاپی نہیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی بھی بدلاؤ ‘میوٹیشن’ کہلاتا ہے اور وائرس کے پیٹرن میں چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہے۔
ایک وائرس میں ایسی تبدیلیاں بڑی تعدادمیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں جب تک بڑی آبادی کی ٹیکہ کاری نہیں ہو جاتی ہے، ہمیں کووڈ 19 پروٹوکال کے موافق سلوک کرنا چاہیے۔
وائرس کا ہر بدلاؤباعث تشویش نہیں ہوتا ہے اور وائرس کاجینوم تسلسل اس لیے کیا جاتا ہے، تاکہ وائرس میں آئے ان تغیرات پر نظر رکھی جا سکے، جو اسے زیادہ خطرناک بنا سکتے ہیں۔ ایسے میں سائنسداں وائرس میں ہو رہے یا ہونے والی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔
کیا ہم کو رونا وائرس کے ممکنہ پیٹرن سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور اس کا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟
آنے والے وقت میں کورونا وائرس کا کوئی بھی پیٹرن آئے، اس کے مضر اثرات کو کم کرنے کےدو ہی راستے ہے۔ پہلا، ٹیکہ کاری اور دوسرا ماسک پہننا اور سماجی دوری بنائے رکھنا۔
اس سے مؤثر ڈھنگ سے نمٹنے کے لیےحکومت ہند کو ٹیکے کے پروڈکشن کو بڑھانے پر زور دینا چاہیے اور آدھے درجن سےزیادہ کمپنیوں کو ٹیکہ بنانے کے کام سے جوڑنا چاہیے۔ہندوستان میں اس کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر اورصلاحیت ہے۔