سائنسدان، شاعر، اور سماجی کارکن گوہر رضا کوآئی آئی ٹی – بی ایچ یومیں ایک تقریب میں خطاب کرنا تھا، لیکن ‘ناگزیر حالات’ کا حوالہ دیتے ہوئے آخری وقت میں پروگرام کو رد کر دیا گیا۔ رضا نے کہا کہ یہ قدم ایک فیکلٹی ممبر کے اعتراض اور دباؤ کی وجہ سے اٹھایا گیا۔
گوہر رضا نے منسوخی کی وجہ پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں وہاں لیکچر دیتا تو شاید حکومت گر جاتی، اس ڈر کی وجہ سے پروگرام کو رد کردیا گیا۔ (فائل فوٹو: دی وائر)
نئی دہلی: ہندوستانی سائنسدان، شاعر اور سماجی کارکن گوہر رضا منگل (23 ستمبر، 2025) کو آئی آئی ٹی – بی ایچ یو (وارنسی) کے لِٹ کلب کے زیر اہتمام ایک تقریب میں خطاب کرنے والے تھے۔
اس تقریب کا عنوان تھا ‘ادب، سائنس اور شعور کا سنگم’، جس میں رضا طلبہ اور دیگر شرکاء (گوگل میٹ کے ذریعے)کے سامنے ادب، سائنس اور سماجی شعور کے باہمی ربط پر اظہار خیال کرنے والے تھے۔
یہ پروگرام شام 6 بجے شروع ہونا تھا، لیکن اس کی منسوخی کی اطلاع منگل کی صبح ہی گوہر رضا کو بھیج دی گئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے تقریب کے منتظمین میں سے ایک نے تصدیق کی کہ گوہر رضا کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے۔
تاہم جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا،’ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر پاؤں گا، میں بہت دباؤ میں ہوں اور راتوں رات پورا پروگرام کینسل ہوا ہے۔
پروگرام کی منسوخی کی وجہ
گوہر رضا نے تقریب کی منسوخی کا اعلان سوشل میڈیا پر کیا۔ رضا نے بتایا کہ صبح ای میل چیک کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ تقریب منسوخ کر دی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ منتظمین نے انہیں ای میل کیا،’سر، ناگزیر حالات کی وجہ سےپروگرام کومنسوخ کر دیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے ہوئی کسی بھی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں۔’
رضا نے یہ بھی کہا کہ ‘پروگرام کی منسوخی کی اصل وجہ وہی پرانا راگ ہے۔’
انہوں نے واضح کیا کہ ایک فیکلٹی ممبر نے ان کے نام پر اعتراض کیا جس کے بعد منتظمین پر دباؤ ڈالا گیا جس کی وجہ سے پروگرام کو منسوخ کرنا پڑا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے گوہر رضا نے کہا، ‘اگر منتظمین نے دباؤ کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک بیان ہے۔’
طنزیہ انداز میں منسوخی کی وجہ بتاتے ہوئے رضا کہتے ہیں، ‘اگر میں وہاں لیکچر دیتا تو شاید حکومت گر جاتی۔ اس خوف کی وجہ سےپروگرام کینسل کر دیا گیا۔ میرا لیکچر سننے کے لیے کتنے بچے آتے – شاید 25 یا 30۔ اس چھوٹے سے کلب کے کتنے ہی ممبر ہوں گے، آپ وہاں بھی بولنے نہیں دیں گے۔’
وہ مزید کہتے ہیں،’مجھے یقین ہے کہ وہ ایسی کوئی بات نہیں سننا چاہتے جس کا سائنس یا سائنسی مزاج سے تعلق ہو۔ ایک طرف وہ مسلم قدامت پسند ہیں جنہوں نے جاوید اختر کا پروگرام رد کروایا، اور دوسری طرف یہ لوگ ہیں۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔’
گوہر رضا نے کہا کہ اس طرح کا ہنگامہ کھڑا کرنا اور کسی کو بولنے کی اجازت نہ دینا بھی سستی شہرت حاصل کرنے کی بات بھی ہے۔
‘جو لوگ مسلسل اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ اپنے اعلیٰ افسران کو بتاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیا ہے۔ یہ ان کےسی وی میں شامل ہو جاتا ہے۔ ملک کے ماحول کو دیکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو انعام دیا جاتا ہے۔ جس ٹیچر نے یہ شروع کیا تھا کہ اینٹی نیشنل کو کیسے بلا رہے ہیں ، وہ ظاہر ہے اپنے سے واپر والے کو پیغام دے رہا تھا۔’
ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند کا ردعمل
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے بھی سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کیا۔
انہوں نے
لکھا ، ‘گوہر رضا کو آئی آئی ٹی-بی ایچ یومیں بولنے سے روکا گیا۔ کون نہیں چاہتا کہ طلبہ گوہر صاحب کو سنیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ آج کے ‘ناگزیر حالات’ کیا ہیں؟” انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اتنے اہم مقرر کو طلباء تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔
پروگرام میں کیا ہونا تھا؟
اس تقریب کا مقصد ادب، سائنس اور سماجی شعور کے باہمی ربط پر گفتگو کرنا تھا۔ گوہر رضا کی تقریب کی منسوخی نے طلباء اور ماہرین تعلیم میں بڑے پیمانے پر بحث چھیڑ دی ہے۔ اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں ان حالات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں جن میں ایسی اہم شخصیات کو بولنے سے روکا جا رہا ہے۔