ایک رپورٹ کے مطابق، نومبر میں آئی آئی ٹی – بی ایچ یو کیمپس میں ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے کنال پانڈے، سکشم پٹیل اور ابھیشیک چوہان نے پوچھ گچھ کے دوران پولیس کو بتایا ہے کہ وہ باقاعدگی سے رات 11 بجے سے 1 بجے کے درمیان یونیورسٹی کیمپس جایا کرتے تھے اور ‘مواقع’ کی تلاش میں رہتے تھے۔
آئی آئی ٹی – بی ایچ یو معاملے کے ملزم (تصویر: کینوا)
نئی دہلی: آئی آئی ٹی – بی ایچ یو جنسی ہراسانی کیس میں گرفتار تین نوجوانوں نے کیمپس میں چھیڑ چھاڑ کے تین دیگر واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، کنال پانڈے (28)، سکشم پٹیل (20)، اور ابھیشیک چوہان (22) نے پوچھ گچھ کے دوران پولیس کے سامنے انکشاف کیا کہ وہ باقاعدگی سے رات 11 بجے سے 1 بجے کے درمیان یونیورسٹی کیمپس جایا کرتے تھے اور ‘موقع کی’ تلاش میں رہتے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ان کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کے تجزیے سے بھی ان گھنٹوں کے دوران کیمپس میں ان کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
ایک نومبر کا واقعہ، جس کی وجہ سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی، ایسا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے دو دن پہلے،
ایک اور طالبہ کو بھی ایسی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس نے پراکٹر کے دفتر کو اس کی اطلاع دی تھی۔ تاہم، پولیس نے اشارہ کیا کہ انہیں 1 نومبر کے حملے سے متعلق صرف ایک رسمی شکایت موصول ہوئی ہے۔
ملزمین پر ریپ سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔ ممکنہ شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ان کے فون کو بھی فرانزک سائنس لیب بھیجا گیا تھا، حالانکہ کوئی ویڈیو یا تصویر ایسی نہیں ملی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہو کہ فون سے مواد کو حذف کر دیا گیا ہے۔
تینوں نے کیمپس میں تین دیگر طالبات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا
اعتراف کیا ہے ، جس میں 30 اکتوبر کا واقعہ بھی شامل ہے۔ ادارے کے ڈین کے مطابق، پراکٹر آفس کو 30 اکتوبر کے واقعے سے متعلق شکایت موصول ہوئی تھی اور مناسب کارروائی کی جا رہی ہے۔
آئی آئی ٹی-بی ایچ یو معاملے کے ملزم اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@zoo_bear)
ملزمین کے پڑوسیوں نے بھی ان پر مقامی لوگوں کو دھمکیاں دینے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ ان کی وابستگی نے انہیں بچایا۔ پانڈے اور پٹیل دونوں نے اپنے فیس بک پروفائل پر خود کو بی جے پی سے وابستہ بتایا تھا،
پانڈے پارٹی کے وارانسی (مہانگر) آئی ٹی سیل کوآرڈینیٹر اور پٹیل کو—کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کررہے تھے ۔ پانڈے کی شادی بھی ایک مقامی بی جے پی کونسلر کی بیٹی سے ہوئی ہے۔
تاہم، بی جے پی وارانسی (مہانگر) کے صدر ودیا ساگر نے واضح کیا کہ ملزمین اب بی جے پی آئی ٹی سیل کے رکن نہیں ہیں، کیونکہ یہ سیل نومبر میں تحلیل کردیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ہے۔
خبروں کے مطابق، پوچھ گچھ کے دوران ملزمین نے انکشاف کیا کہ وہ واقعہ کے بعد شروع میں ایک ہفتہ تک وارانسی میں رہے لیکن طلبا کے احتجاج میں شدت آنے پر وہ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ تقریباً 15 دن پہلے اس یقین کے ساتھ واپس آئے کہ اب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ ملزمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے سے قبل شہر کے مختلف مقامات پر روپوش ہو کر پکڑے جانے سے بچتے رہے۔
پولیس دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم کی گرفتاری کے دوران مبینہ طور پر جرم میں استعمال ہونے والی ایک موٹر سائیکل، تین فون، کچھ نقدی اور زیورات قبضے میں لیے گئے تھے۔ وارانسی کے کمشنر ایم اشوک جین نے کیس یا تحقیقات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے
کہا ،’معاملہ ہمارے لیے ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔’
واضح ہوکہ یہ واقعہ وارانسی کے آئی آئی ٹی – بی ایچ یو کیمپس میں یکم نومبر کی رات کو پیش آیا تھا، جہاں ایک طالبہ نے
الزام لگایا تھا کہ موٹر سائیکل پر آئے تین نامعلوم افراد نے اسے جنسی طور پر ہراساں کیا اور اسے برہنہ کرکے اس کا ویڈیو ریکارڈ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق، بعد میں ملزمان کے خلاف گینگ ریپ کے الزامات بھی جوڑے گئے تھے۔
اس واقعہ کے اگلے دن کیمپس میں بہتر سیکورٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی آئی ٹی – بی ایچ یو کے سینکڑوں طلباء نے ادارے کے ڈائریکٹر کے دفتر پر
احتجاجی مظاہرہ کیا تھا ۔