آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی آئی آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے انتخاب میں صدارتی عہدے کے امیدوار ہیں۔ سراج الدین قریشی، جو گزشتہ چار انتخابات سے اس عہدے پر ہیں، ڈاکٹر ماجد کی حمایت کررہے ہیں۔
(تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز/فیس بک)
نئی دہلی: اسلامی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی) میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) داخلے کی تیاری میں ہے۔ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے ق
ومی کنوینر ڈاکٹر ماجد احمد تالیکوٹی آئی آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے انتخاب میں صدارتی عہدے کے امیدوار ہیں۔
ڈاکٹر ماجد کی امیدواری سے کئی ارکان میں عدم اطمینان ہے۔ ان کے مخالفین ان کے انتخاب لڑنے کو آئی آئی سی سی میں سنگھ کے داخلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اسے آئی آئی سی سی کے نظریات پر خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس الیکشن کو آئی آئی سی سی کو بچانے کا الیکشن کہا جا رہا ہے۔
دہلی میں واقع آئی آئی سی سی ایک بڑا اسلامی مرکز ہے۔ اس کی گورننگ باڈی کا انتخاب ہر پانچ سال میں ہوتا ہے۔ اس بار صدر اور نائب صدر کے علاوہ سات بورڈ آف ٹرسٹیز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چار ممبران کا انتخاب ہونا ہے۔ ووٹنگ 11 اگست کو ہے۔ نتائج 14 اگست کو آئیں گے۔
غورطلب ہے کہ صنعتکار سراج الدین قریشی، جو گزشتہ چار انتخابات سے صدر کے عہدے پر کامیاب ہوتے آ رہے ہیں، ڈاکٹر ماجد کی حمایت کر رہے ہیں۔ صدارتی عہدے کے بجائے وہ ڈاکٹر ماجد کے پینل میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے عہدے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2019 کے آخری انتخابات میں قریشی نے کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کو شکست دی تھی۔ قریشی کی حمایت کے بعد ڈاکٹر ماجد کی پوزیشن مضبوط نظر آرہی ہے۔
آئی سی سی انتخابات
صدارتی عہدے کے لیے سات ارکان میدان میں ہیں۔ مقابلہ کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید، ایم آر ایم کے قومی کنوینر اور معروف کینسر سرجن ڈاکٹر ماجد، ریٹائرڈ آئی آر ایس افسر ابرار احمد اور کاروباری شخصیت آصف حبیب کے درمیان بتایا جا رہا ہے۔
آئی آئی سی سی کے میمورنڈم آف آرٹیکلز (ایم او اے) کے مطابق، 75 سال کی عمر کے بعد کوئی عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔ اس لیے سلمان خورشید کا الیکشن کمزور ہوگیا ہے۔ سلمان خورشید تین سال میں75 سال کے ہو جائیں گے۔ ایسی صورت حال میں وسط مدتی انتخابات کرانے پڑیں گے، جس سے ارکان گریز کرنا چاہتے ہیں۔
اس الیکشن میں سابق مرکزی وزیر محسنہ قدوائی، کانگریس لیڈر کرن سنگھ، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد، رکن پارلیامنٹ طارق انور، کالم نگار شاہد صدیقی کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح کی مختلف شخصیات، بیوروکریٹس، دانشوروں اور صنعتکاروں سمیت 2054 ممبران (اگرچہ ممبران کی تعداد 4000 سے زیادہ ہے لیکن کئی ممبران بشمول کئی سینئر لائف ممبرز کو سالانہ ممبر شپ فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا ہے) ووٹ ڈالیں گے۔ چونکہ کئی آین آر آئی بھی آئی آئی سی سی کے ممبر ہیں، کل 461 ممبران ای ووٹنگ کا استعمال کرنے جا رہے ہیں۔
مسلم راشٹریہ منچ اور ڈاکٹر ماجد
مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کا قیام 2002 میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن کے تعاون سے عمل میں آیا تھا۔ آر ایس ایس کے لوگ ایم آر ایم کی سرگرمیوں میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ آر ایس ایس کے سینئر پرچارک اندریش کمار ایم آر ایم کے سرپرست ہیں۔
ایم آر ایم سنگھ کےنظریے کو وسعت دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ حال ہی میں جب اتر پردیش کی یوگی حکومت نے کانوڑ یاترا کے دوران دکانداروں کو نام کی تختیاں لگانے کا فرمان جاری کیا تھا، تو ایم آر ایم نے اس کی حمایت کی تھی۔
مسلم راشٹریہ منچ کے بارے میں دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر رہے شمس الاسلام کہتے ہیں، ‘ سنگھ نے جو 43 تنظیمیں بنائی ہیں ، اس کا ذکر انھوں نے 1999 میں چھپی اپنی کتاب ‘پرم ویبھو پتھ پر’میں کیا تھا۔ بعد میں سنگھ نے یہ کتاب واپس لے لی تھی ۔ ان تنظیموں میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، ہندو جاگرن منچ جیسی تنظیمیں بھی ہیں، جو مسلمانوں کو (ملک سے) باہر کرنے اور ہندو راشٹربنانے کی بات کرتی ہیں۔ اس فہرست میں مسلم راشٹریہ منچ کا نام بھی تھا۔‘
پروفیسر اسلام مزید کہتے ہیں،’اندریش کمار نے جن 10-12 مسلم دانشوروں کو اس تنظیم کے توسط سے شامل کیا، وہ سب کہیں نہ کہیں پروفیسر، وائس چانسلر، چانسلر، گورنر بن گئے۔ یہ مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو استعمال کرتا ہے۔‘
ڈاکٹر ماجد کے آئی آئی سی سی الیکشن لڑنے پر پروفیسر اسلام کہتے ہیں، ‘یہ لوگ آر ایس ایس کے ساتھ ہیں کیونکہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں میں کئی بزنس مین ہیں… وہ (آئی آئی سی سی) پہلے سے ہی آر ایس ایس کے قبضے میں ہیں۔ وہ لوگ اجیت ڈوبھال اور اندریش کمار کو وہاں بلاتے رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ دہلی کے لودھی روڈ پر آپ ‘ آر ایس ایس کے سائے میں رہ کر ہی کام کر سکتے ہیں، ورنہ آئی آئی سی سی کی حالت بھی وقف بورڈ جیسی ہو جائے گی۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماجد نے سلمان خورشید پر حملہ کیا اور سینٹر میں ریڈیکل تبدیلی اپنا کوایجنڈہ بتایا۔
ڈاکٹر ماجد کرناٹک کے رہنے والے ہیں۔ ‘مسلم راشٹریہ منچ تلنگانہ’ نامی فیس بل پیج پر 25 جولائی 2022 کو منچ کے ایک پروگرام ‘آؤ جڑوں سے جڑیں، بھارت کو کریں ترنگامئی’ کا
ویڈیو پوسٹ کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں اسٹیج پر اندریش کمار کے ساتھ ڈاکٹر ماجد بیٹھے ہیں۔ ویڈیو کے کیپشن میں ماجد کو ایم آر ایم کا قومی کنوینر بتایا گیا ہے۔
(تصویربہ شکریہ : فیس بک/مسلم راشٹریہ منچ)
لوک سبھا انتخابات 2024 کے دوران مسلم منچ نے ماجد کو بی جے پی کے لیے ووٹ اکٹھا کرنے کا کام بھی سونپا تھا۔ 22 جولائی 2024 کو خبر رساں ایجنسی
اے این آئی پر شائع ہونے والی خبر میں لکھا ہے، ‘پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہو چکی ہے اور مسلم راشٹریہ منچ نے باقی چھ مرحلوں کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ نے 100 سے زیادہ مسلم اکثریتی نشستوں کے لیے خصوصی حکمت عملی بنائی ہے۔ ان نشستوں پر منچ کے قومی کنوینر، علاقائی اور صوبائی کنوینر اور شریک کنوینر اور ضلعی کنوینر اور کارکنان سمیت 40 ٹیمیں خوشحال اور ثروت مند ہندوستان کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی شکل میں ایک مضبوط حکومت بنانے کے لیے انتخابات میں مصروف ہیں۔ ‘
خبر میں مزید لکھا ہے، ‘مسلم راشٹریہ منچ کے قومی میڈیا انچارج شاہد سعید نے بتایا کہ 14 قومی رابطہ کاروں کی نگرانی میں مختلف ریاستوں سے کل 40 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ … ماجد تالیکوٹی اور محمد الیاس کو کرناٹک، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ …تمام ٹیمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں اور ہر ہفتے آن لائن میٹنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ حکمت عملی اور کام کرنے کے انداز کا جائزہ بھی لے رہی ہیں۔‘ اس خبر کو آر ایس ایس سے وابستہ میگزین
آرگنائزر کی ویب سائٹ نے بھی شائع کیا تھا ۔
ارکان کے خدشات
آئی آئی سی سی میں آر ایس ایس کے ممکنہ داخلے پر آصف کہتے ہیں، ‘کچھ لوگ ہیں، جو محسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ یہیں پر سینٹر کا رول بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی دوسرے مذہب کے شخص کے پاس اسلام کے بارے میں غلط معلومات ہیں، تو اسے بات چیت اور بحث و مباحثہ کے ذریعے دور کیا جائے۔‘
آصف حبیب کے پینل میں انجینئر، سابق نوکر شاہ، ڈاکٹرز، ماہر تعلیم، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، وکیل، سینئر صحافی اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں۔ آصف کی ٹیم نے اپیل کی ہے کہ آئی آئی سی سی کو سیاست کا اڈہ نہیں بننے دینا چاہیے۔
آصف کے پینل سے بورڈ آف ٹرسٹیز کے لیے الیکشن لڑ رہے سابق بیوروکریٹ خواجہ ایم شاہد آئی آئی سی سی میں سنگھ کے داخلے کو خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ‘آئی آئی سی سی کا وجود خطرے میں ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اور مخصوص نظریات کے لوگ ادارے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر
دہلی میں واقع انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر ایک ثقافتی ادارہ ہے، جس کا مقصد اسلام کی تعلیم اور ثقافت کی تشہیر کے ساتھ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کا قیام جسٹس ہدایت اللہ انصاری اور بدرالدین طیب جی جیسی ممتاز شخصیات کی مدد سے عمل میں آیا تھا۔
اندرا گاندھی نے 24 اگست 1984 کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ 24 سال بعد (12 جون 2006) جنوبی دہلی کے لودھی روڈ پر واقع 16 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے گئے اس مرکز کا افتتاح اس وقت کی کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کیا تھا۔
ایم آر ایم سے وابستہ رہے ڈاکٹر گلریز شیخ نے دی وائر کو بتایا، ‘مسلم راشٹریہ منچ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے لیے الیکشن لڑنا فطری ہے… یہ سچ ہے کہ ایم آر ایم سنگھ کے نظریات سے وابستہ ہے۔ سنگھ مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کا حمایتی رہا ہے۔ اگر ایم آر ایم ایسا کر رہا ہے (مسلمانوں کو مین اسٹریم سے جوڑنے کا کام) تو انہیں مبارکباد دی جانی چاہیے۔‘
اس وقت الحال مدھیہ پردیش بی جے پی کے ترجمان شیخ مزید کہتے ہیں، ‘ایم آر ایم ایک سماجی تنظیم ہے لیکن اس کے کئی کیڈر سیاسی طور پر بھی سرگرم ہیں۔ یہ ملک اور مسلم معاشرے کے لیے اچھا ہے۔‘