فصل بیمہ یوجنا کے 50 فیصد دعووں کی ادائیگی صرف 30-45 اضلاع میں کی جا رہی ہے

خصوصی رپورٹ : مرکزی وزارت زراعت نے اس کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئےریاستی حکومتوں کے ساتھ مل‌کر جانچ شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے، جبکہ دعوے کی ادائیگی کی معینہ مدت کافی پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔

 خصوصی رپورٹ : مرکزی وزارت زراعت نے اس کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئےریاستی حکومتوں کے ساتھ مل‌کر جانچ شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے، جبکہ دعوے کی ادائیگی کی معینہ مدت کافی پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔

خراب ہوئی فصل کو دیکھتا کسان (فوٹو : پی ٹی آئی)

خراب ہوئی فصل کو دیکھتا کسان (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکز کی مودی حکومت کی دیرینہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا(پی ایم ایف بی وائی)کے تحت دعوے کی ادائیگی میں کافی گڑبڑی  دیکھی جا رہی ہے اورکل دعووں کا تقریباً50 فیصد حصہ صرف 30-45 اضلاع میں ادائیگی کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کسانوں کے 5000 کروڑ روپے سےزیادہ کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے، جبکہ دعوے کی ادائیگی کی معینہ مدت کافی پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔ دی وائر کے ذریعے دائرآر ٹی آئی درخواست اور اسی سال جولائی مہینے میں ریاستوں کے وزرائے زراعت کے ساتھ ہوئی ایک کانفرنس میں دکھائے گئےپریزنٹیشن کے ذریعےیہ جانکاری سامنے آئی ہے۔

 موصولہ جانکاری کے مطابق دسمبر 2018 میں ختم ہوئے خریف کے موسم کےلئے کسانوں کے کل 14813 کروڑ روپے کے قیاسی دعوےتھے، جس میں سے جولائی 2019 تک صرف 9799 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ جبکہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی ہدایات کے مطابق فصل کٹنے کے دومہینے کے اندر دعووں کی ادائیگی کی جانی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ خریف 2018 کے دعووں کی ادائیگی زیادہ سے زیادہ فروری 2019 تک کر دی جانی چاہیے تھی۔ریاستوں کے وزرائے زراعت کے ساتھ کانفرنس میں اہم زراعتی اسکیموں جیسے کہ فصل بیمہ، کسان کریڈٹ کارڈ، کسان پنشن اسکیم، کانٹریکٹ فارمنگ، پی ایم کسان،نامیاتی کاشت کاری وغیرہ پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔ مرکزی وزیر زراعت نریندرسنگھ تومر نے اس کانفرنس کی صدارت کی تھی۔

دستاویز کے مطابق، ‘ریاستی حکومتوں اور بیمہ کمپنیوں کے ساتھ ہوئی بات چیت کے دوران اس بارے میں بتایا گیا کہ دعووں کی ادائیگی میں کافی عدم یکسانیت ہے اور کل تقریباً50 فیصد دعوے صرف 30-45 اضلاع میں جا رہے ہیں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز یا فریقین سے ایسے اضلاع کے بارےمیں پتہ لگانے کے بارے میں رائے مانگی گئی ہے جہاں پر زیادہ تر دعووں کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ ‘وزارت زراعت میں جوائنٹ سکریٹری اور پی ایم ایف بی وائی کے سی ای او آشیش بھوٹانی نے کہاکہ وہ ریاستوں کے ساتھ مل‌کر اس کی جانچ‌کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آخر کیوں انہی علاقوں میں اتنا زیادہ دعویٰ جا رہا ہے۔

 انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘ان علاقوں میں فصل کانقصان زیادہ ہو رہا ہے۔لیکن بار بار ایسا ہو رہا ہے، اس کی وجہ ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘اس فہرست میں مہاراشٹر کے ودربھ اور مراٹھ واڑا، راجستھان، مدھیہ پردیش، آندھر پردیش سمیت 10 ریاستوں کےاضلاع شامل ہیں۔ بھوٹانی نے دعویٰ ادائیگی میں بدانتظامی ہونے کے سوال پر کہا کہ ریاستی حکومت فصل کے نقصان کا اندازہ کرتی ہے، اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ بیمہ کمپنی کسی خاص علاقے کے ہی دعووں کی ادائیگی کرے اور دیگر کی نہ کرے۔اس سال جون میں دی وائر نے رپورٹ کرکے بتایا تھا کہ کس طرح کسانوں کےدعووں کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہے۔اس وقت بھی کسانوں کے تقریباً5000 کروڑ روپے سےزیادہ کے دعوے بقایہ تھے۔

فصل بیمہ کےمسائل اور ان کا حل

 ریاستوں کے وزرائے زراعت کے ساتھ ہوئے اجلاس میں وزارت زراعت نے فصل بیمہ کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے میں آ رہے مسائل کے لئے اسکیم کو رضاکارانہ بنانے،ریموٹ سینسنگ کے ذریعے پیداوار کا اندازہ لگانے، سی سی ای ایپ کا استعمال بہترکرنے، اعلیٰ پریمیم والی فصلوں کو ا س کے دائرے سے باہر کرنے جیسے کئی حل بتائےہیں۔وزارت زراعت کے ذریعے بتائی گئی فصل بیمہ کے مسائل  میں سے ایک یہ بھی تھا کہ لوگوں میں یہ نظریہ ان کے لئے بڑا مسئلہ بن گیا ہے کہ بیمہ کمپنیاں اس اسکیم کے ذریعے کمائی کر رہی ہیں۔

 وزارت نے یہ بھی کہا کہ کئی اضلاع میں اعلیٰ پریمیم والی فصلیں ہیں، جس کی وجہ سے پی ایم ایف بی وائی کی کل لاگت کافی بڑھ رہی ہے۔ ا س کے حل کے لئے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ خریف 2020 تک اعلیٰ پریمیم والی فصلوں کو فصل بیمہ کے دائرے سے ہٹا دیا جائے۔ حالانکہ ریاستوں کو ابھی اس پر اپنے جوابات بھیجنے ہیں۔ وزارت نے کہا کہ تھوڑے وقت کے لئے کانٹریکٹ کی وجہ سے بیمہ کمپنیاں اس اسکیم کے بارے میں جانکاری پہنچانے اور اس بارے میں لوگوں کے مسائل کے حل کے لئےبہت کم سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ بار بار ٹینڈرنگ کی وجہ سے ریاستوں میں فصل بیمہ کوپوری طرح سے نافذ کرنے میں کافی مشکل ہو رہی ہے۔

 مرکزی محکمہ زراعت نے کہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے حصے کی سبسیڈی ٹرانسفرکرنے میں دیر کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے دعووں کے حل میں کافی دیری ہوتی ہے۔ اس کےلئے کہا گیا کہ اس رقم کو مرکز کی طرف سے ریاستوں کو دئے جانے والے پیسے میں سےکاٹ لئے جائیں۔موصولہ دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شمال مشرقی علاقوں میں اس اسکیم کی پہنچ کافی کم ہے، کیونکہ اس اسکیم کے تحت عمومی ملکیت والی زمین پر زراعت کرنےوالے مستفید کی پہچان کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔

وہیں، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت لون لینے والے کسانوں کے لئےاس کورضاکارانہ کیا جا سکتا ہے۔ وزارت نے اپنے پریزنٹیشن میں کہا، ‘لون لینے والےکسانوں کے لئے فصل بیمہ لازمی کرنے کی وجہ سے ایسے کسانوں میں غصہ پیدا ہوتا جو یاتو بیمہ کرانا نہیں چاہتے ہیں یا جن کو بغیر ان کی رضامندی کے اس میں شامل کیا گیاہے۔ ‘واضح  ہو کہ اس سے پہلے ایسی کئی خبریں آئی ہیں جہاں کسانوں نے اس بات کولےکر کافی ناراضگی ظاہر کی ہے کہ ان کو زبردستی فصل بیمہ یوجنا میں شامل کیا جارہا ہے اور بغیر ان کی اجازت کے پریمیم ان کے کھاتے سے کاٹ لئے جا رہے ہیں۔ دی وائرنے بھی اس پر رپورٹ کی تھی۔

 فصل کے نقصان کے اندازے میں ہو رہی مشکل

وزارت زراعت کا کہنا ہے کہ فصل کےنقصان کے اندازے میں دیری کی وجہ سے کسانوں کے دعووں کی ادائیگی وقت پر نہیں ہو پا رہی ہے۔ اہم فصلوں جیسے کہ چاول، مکئی، باجرا، مونگ پھلی، گنا، کپاس، گیہوں، جو، تلہن وغیرہ کی پیداوار کا مناسب اور صحیح اندازہ حاصل کرنے کے لئے کراپ کٹنگ ایکسپیرمنٹ(سی سی ای) کرایا جاتا ہے۔وزارت زراعت نے کہا کہ تھوڑے وقت میں ہی ہرسال تقریباً70 لاکھ سی سی ای کرنا بہت مشکل ہے، اس کے لئے مین پاور کی کافی کمی ہے اور اس وجہ سے دعوے کی ادائیگی میں دیری ہورہی ہے۔

  وزارت زراعت کے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کا ایک حصہ۔

وزارت زراعت کے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کا ایک حصہ۔

انہوں نے کہا کہ اس کام کے لئے سی سی ای ایپ کا استعمال بہت کم ہو رہا ہے۔کل کرائی گئی سی سی ای میں سے 15 فیصد سے بھی کم اس ایپ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس کو لےکر نیشنل کراپ انشورنس پورٹل (این سی آئی پی)کو بہتر کرنے اوریونیفائڈ فارمر ڈیٹا بیس (جس میں زمین کے ریکارڈ ڈیجیٹل طور پر ہے)کو اس کے ساتھ جوڑنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سی سی ای ایپ کے طریقہ کار کو اور بہترکرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ریموٹ سینسنگ کا استعمال کرکے اہم فصلوں کی پیداوار کا اندازہ لگانے کوکہا گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت بھی اپنے یہاں اسی طرح کی ایک اسکیم پر کام کر رہی ہے۔اس کے ذریعے پتا لگایا جائے‌گا کہ کس علاقے میں کس سطح تک فصل کا نقصان ہواہے،تاکہ اس بنیادپر دعوے کا حل کیا جا سکے۔

 بھوٹانی نے کہا، ‘پہلے بیمہ اکائی تحصیل اور تعلقہ سطح پر تھی۔ اب یہ گاؤں سطح پر آ گئی ہے۔ اس طرح نقصان کا اندازہ یعنی کہ کراپ کٹنگ ایکسپیرمینٹ کی تعداد تقریباًپانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ کئی ریاستوں کے لئے یہ سب کر پانا ممکن نہیں ہوپا رہا ہے۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘اس کا حل تکنیک ہی ہے۔ سائنٹفک اسسمنٹ ہوگا توکوئی تنازعہ نہیں رہ جائے‌گا اور وقت بھی بچ جائے‌گا۔ ایک مہینے کے اندر پیمنٹ ہوجائے‌گا۔ ‘

فصل بیمہ یوجنا پر وقت وقت پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ کسانوں اور زرعی ماہرین نے اس کو صحیح طریقے سے نافذ نہ کرنے اور کسانوں کی شکایتوں کا حل نہ کرنےکو لےکر کئی بار فکر ظاہر کی ہے۔ گزشتہ سال دی وائر نے رپورٹ کیا تھا کہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کےنافذ ہونے کے بعد فصل بیمہ کے ذریعے جلد کسانوں کی تعداد میں صرف 0.42 فیصد کا اضافہ ہوا۔ وہیں دوسری طرف فصل بیمہ کے نام پر کمپنیوں کو چکائی گئی پریمیم رقم میں 350 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔