جموں و کشمیر: پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو واپس لانے کے عدالتی حکم کے خلاف وزارت داخلہ کی اپیل

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ خاتون کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔خاتون کو  پہلگام حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ خاتون کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا۔خاتون کو  پہلگام حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ: ایکس / کشمیر پولیس

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں 62 سالہ رخشندہ راشد کی واپسی کا حکم دیا گیا تھا ۔ رخشندہ کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان بھیج دیا گیا تھا، جبکہ وہ تقریباً چار دہائیوں سے لانگ-ٹرم ویزا(ایم ٹی وی)پر ہندوستان میں رہ رہی تھیں۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، وزارت داخلہ نے جسٹس راہل بھارتی کے 6 جون کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ بنچ کے سامنے لیٹرز پیٹنٹ اپیل دائر کی، جس میں مرکزی ہوم سکریٹری کو راشد کو دس دنوں کے اندر ہندوستان  واپس لانے کی ہدایت کی گئی  تھی۔

منگل کو جج نے وزارت داخلہ سے تعمیلی رپورٹ  طلب کی اور وزارت کو اس معاملے پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے دس دن کا اضافی وقت دیا۔

خاتون کے وکیل انکور شرما نے اخبار کو بتایا کہ جج نے وزارت داخلہ سے تعمیل پر اصرار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اپیل دائر ہونے کے باوجود ابھی تک حکم پر کوئی روک نہیں ہے۔ اپیل کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کرے گا۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ 29 اپریل کو ملک بدری کے وقت ایل ٹی وی موجود نہیں تھا۔دوسری جانب راشد نے اپنی درخواست میں کہا تھاکہ انہوں نے جنوری میں ایل ٹی وی کی تجدید کے لیے درخواست دی تھی اور درخواست کبھی مسترد نہیں کی گئی۔

لانگ-ٹرم ویزا ہولڈر

گزشتہ 22اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد – جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے، وزارت داخلہ نے تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے رد کر دیے اور انہیں 29 اپریل تک ملک چھوڑنے کو کہا۔

اس فیصلےمیں طویل مدتی ویزا رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں سے شادی شدہ پاکستانی خواتین کو بھی استثنیٰ دیا گیا تھا ۔

راشد دونوں زمروں میں آتی ہیں، پاکستانی شہری ہونے کے ناطے، ایک ہندوستانی سے شادی شدہ، لانگ-ٹرم ویزا پر جموں میں گزشتہ 38 سالوں سے مقیم ہیں، جس کی ہر سال تجدید کی جاتی ہے۔

انہوں نے 1996 میں ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اس درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا

راشد کی بیٹی فاطمہ شیخ نے کہا کہ ان کی والدہ کو 29 اپریل کو پولیس نے حقائق کو توڑ مروڑ کرہندوستان سے باہر نکال دیا۔

شیخ نے کہا، ‘ہمیں پہلگام دہشت گردانہ حملے سے دکھ ہوا ہے، لیکن میری والدہ کو کس بنیاد پر ہندوستان سے ڈی پورٹ کیا گیا؟ ہم نے جنوری میں طویل مدتی ویزا میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی، پھر بھی پولیس کی جانب سے ‘ہندوستان چھوڑو’ نوٹس میں کہا گیا کہ ہم نے 8 مارچ کو درخواست دی تھی۔ 26 اپریل کو مجھے ایف آر آر او سے ای میل موصول ہوا کہ درخواست پر کارروائی کی جا رہی ہے،پھر بھی انہیں  29 اپریل کو ڈی پورٹ کیا گیا۔’

انہوں نےبتایا، ‘پھر 9 مئی کو مجھے دوبارہ ایک ای میل موصول ہوا کہ درخواست کو منظوری کے لیے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔’

جلدبازی میں کارروائی

ان کی بیٹی نے بتایا کہ پولیس اہلکار صبح 7 بجے ان کے گھر کے باہر آئے اور راشد کو پنجاب کے اٹاری سرحدی چوکی پر لے گئے، جہاں سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ہمیں اپنے وکیلوں سے بات بھی نہیں کرنے دی۔ وہ انہیں ملک بدر کرنے کی اتنی جلدی میں تھے۔ وہ ساری زندگی جموں میں رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں کیسے زندہ رہے گی؟ وہاں مہنگائی بہت ہے، وہاں اس کا کوئی نہیں ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی والدہ کا پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اکیلی رہ رہی ہے اور ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 6 جون کو جسٹس راہل بھارتی نے مرکزی ہوم سکریٹری کو کیس کے حقائق اور حالات کی غیر معمولی نوعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کو پاکستان سے واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس حصہ ہیں اور اس لیے ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب آئینی عدالت کو کسی کیس کی میرٹ سے قطع نظر ایس او ایس جیسی رعایت دینا پڑتی ہے، جس پر وقت رہتے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔’