وزارت داخلہ نے منگل کو کہا کہ 9 اگست کو سرینگر کے باہر ’ شر پسند عناصر ‘نے وسیع پیمانے پر بدامنی پھیلانےکے لئے سکیورٹی اہلکاروں پر بلاوجہ پتھراؤ کیا لیکن مظاہرین پر گولیاں نہیں چلائی گئیں۔
نئی دہلی: وزارت داخلہ نے منگل کو کہا کہ 9 اگست کو سرینگر کے باہر ‘ شرپسند عناصر ‘ نے وسیع پیمانے پر بدامنی پھیلانے کے لئے سکیورٹی اہلکاروں پر بلاوجہ پتھراؤ کیا لیکن مظاہرین پر گولیاں نہیں چلائی گئیں۔جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت ملی خصوصی ریاست کا درجہ ہٹائے جانے کے بعد لوگوں کی سرگرمیوں اور کمیونیکیشن سروس پر حکومت کے ذریعے پابندی لگائے جانے کے درمیان سرینگر کے سورا میں یہ واقعہ ہوا تھا۔
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ٹوئٹ کیا، ‘ سرینگر کے سورا علاقے میں ایک مذکورہ واقعہ پر میڈیا میں خبریں دکھائی گئیں۔ شرپسند عناصر ایک مقامی مسجد سے نماز پڑھکر گھر لوٹ رہے لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر بدامنی پھیلانے کے لئے بنا کسی اکساوے کے لاء انفورسمنٹ فورسیز پر پتھراؤ کیا۔ ‘
Law enforcement authorities showed restraint and tried to maintain law & order situation. It is reiterated that no bullets have been fired in #JammuAndKashmir since the development related to #Article370@diprjk @JmuKmrPolice
— Spokesperson, Ministry of Home Affairs (@PIBHomeAffairs) August 13, 2019
انہوں نے کہا کہ لاء انفورسمنٹ اتھارٹی نے صبروتحمل سے کام لیا اور لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کی کوشش کی۔ ترجمان نے کہا، ‘ یہ دوہرایا جاتا ہے کہ آرٹیکل 370 سے متعلق واقعے کے بعد سے جموں و کشمیر میں کوئی گولی باری نہیں کی گئی۔ ‘مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ملے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹا دیا اور اس کو جموں و کشمیر اور لداخ دویونین ٹریٹری میں بانٹ دیا۔
غور طلب ہے کہ رائٹرس، بی بی سی، دی واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا ہاؤس نے سخت سکیورٹی کے بیچ جمعہ 9 اگست کو دوپہر میں کشمیر میں ہو رہےمظاہرہ پر رپورٹ کی تھی۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فوٹیج اس نے وہاں پر بنایا ہے۔حالانکہ، مرکزی وزارت داخلہ نے نیوز ایجنسیوں کے اس دعویٰ کو خارج کر دیا تھا کہ سرینگر میں کم سے کم 10 ہزار مظاہر ین سڑکوں پر اتر آئے۔
وزارت نے 10 اگست کو کہا تھا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیر وادی میں مظاہرے کے چھٹ پٹ واقعات ہوئے تھے اور کسی میں بھی 20 سے زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔اس بیچ، ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے منگل کو بتایا کہ پابندی ترتیب وار طریقے سے ہٹائی جا رہی ہے۔ افسر نے یہ بھی بتایا کہ مقامی اتھارٹیوں کی طرف سے تجزیہ کیے جانے کے بعد ہی پابندی ہٹائی جائے گی۔