
انج چودھری نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے- کچھ کو رنگ سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو رنگ پسند نہیں ہو سکتا۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد کیوں؟

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
ہولی آ چلی ہے۔ اس کا پتہ تب چلا ، جب ہر طرف سے پولیس افسران اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے نفرت کا کیچڑ اور پتھر پھینکنا شروع کر دیا۔ بچپن سے میں دیکھتا آیا ہوں کہ ہولی بازوں کو رنگ لگانے یا ڈالنے سے خوشی نہیں ملتی۔کیچڑ اور پتھروں سے دوسروں کو زخمی کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ہولی میں جبر کا عنصر اسے دوسرے ہندو تہواروں سے الگ کرتا ہے۔
ہولی کے نام پرہڑدنگ کو جائزسمجھا جاتا ہے۔ ‘برا نہ مانوہولی ہے’ کہہ کر فحاشی اور تشدد کے لیے رعایتیں مانگی جاتی ہیں۔ دوسروں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہولی کو ایسا موقع سمجھا جاتا رہا ہےجب اپنی جنسی کج روی کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور بدتمیزی اور تشدد کو برداشت کرنے میں نرمی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
ہولی کے اس مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور ان کے حامی اپنی جانی پہچانی مسلم مخالف نفرت کا کیچڑ پھینک رہے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے انہیں ہولی کے بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سال بھر، ہر روز کسی نہ کسی بہانے سے اپنی نفرت کے ساتھ حملے کرتے رہتے ہیں۔ یہ حملہ اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب کوئی بھی ہندو تہوار قریب آتا ہے۔ رام نومی ہو یا درگا پوجا، شیو راتری ہو یا دیوالی، مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے لسانی اور جسمانی طور پر حملہ کیا جاتا ہے۔
اب اس معاملے میں ان کے اور سرکاری افسران کے درمیان مقابلہ آرائی ہے۔ سنبھل کے سرکل آفیسر انج چودھری نے کہا ، ‘جمعہ سال میں 52 بار آتا ہے، لیکن ہولی صرف ایک بار آتی ہے۔ جن لوگوں کو ہولی کے رنگوں سے دقت ہے، انہیں گھر کے اندر ہی رہنا چاہیے اور وہیں نماز ادا کرنی چاہیے۔’
یہ بات بغیر کسی تناظر کے کہی گئی۔ ہولی جمعہ کو پڑ رہی ہے۔ اس دن جمعہ کی بڑی نماز دوپہر کو ہوتی ہے۔ کیا سنبھل کے مسلمانوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ نماز کے دوران ہولی بند کر دی جائے؟ کیا انتظامیہ سے ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا تھا؟
اس کا جواب ہےنہیں۔ پھر ایک سرکاری اہلکار نے بغیر کسی سیاق و سباق کے ایسا بیان کیوں دیا؟
یہ افسرپچھلے دنوں سرکاری افسر سے زیادہ بی جے پی کارکن کی طرح کام کرتے نظر آئے ہیں۔ ہم نے چودھری کو ہی ایک جلوس میں گدا لے کر چلتے دیکھا تھا۔ پولیس افسران کانوڑیوں کے پاؤں دھوتے اور ان پر پھول نچھاور کرتے ہوئے تصویر کھنچواتے ہیں۔ سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس چیف نے گزشتہ دنوں مندروں کی دریافت اور تزئین و آرائش کو اپنا اہم کام بنالیا تھا۔
عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکام ایسے مواقع پر امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گے۔ اگر یہ عام وقت ہوتا تو انتظامی یا پولیس افسران ہولی سے پہلے عوامی اپیل کرتے کہ ہولی منانے والے دوسروں کا خیال رکھیں۔ انہیں ان لوگوں پر رنگ نہیں ڈالنا چاہیے، جن کو اس سے مسئلہ ہے۔ جمعہ کی نماز بھی پرامن طریقے سے ہونے دیں۔
اس کے بجائے اب کہا جا رہا ہے کہ ہڑدنگ تو ہو گی۔ جس کو پریشانی ہو وہ گھر میں رہے ۔ لیکن یہ بھی نہیں کہا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان گھرمیں رہیں۔ چودھری نے جمعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے ٹھیک کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کو رنگوں سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو وہ پسند نہیں ہو سکتے۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ یہ بھی پوچھا کہ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد ہی کیوں؟ لیکن اب ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے؛ ہولی منانے والوں کو کچھ بھی کرنے کا حق ہے، جنہیں اعتراض ہے، وہ گھر میں رہیں۔
چودھری کے بیان کے بعد قاعدے سے وزیر اعلیٰ کو ان کی تنبیہ کرنی چاہیے تھی۔ وہ نہیں ہونا تھا کیونکہ وزیر اعلیٰ بی جے پی کے ہیں۔ ہم بی جے پی سے ہم آہنگی اور تہذیب و شائستگی کی توقع نہیں کر سکتے۔ تو آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘ہولی سال میں ایک بار آتی ہے، لیکن جمعہ کی نماز ہر جمعہ کو پڑھی جاتی ہے۔ اس لیے جمعہ کی نماز ملتوی کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ نماز پڑھنا چاہے تو گھر پر پڑھ سکتا ہے۔ ان کے لیے مسجد جانا ضروری نہیں ہے۔ یا اگر وہ مسجد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں رنگوں سے دقت نہیں ہونی چاہیے۔’
وزیر اعلیٰ سے تحریک لےکریا اپنی ہی فرقہ پرستی سے مشتعل ہو کر ایک وزیر نے کہا کہ جو لوگ سفید ٹوپی پہنتے ہیں، انہیں ہولی کے دن ترپال اوڑھ کر جمعہ کی نماز کے لیے گھروں سے باہر نکلنا چاہیے۔ جو لوگ اس دن نماز پڑھنا چاہتے ہیں وہ ایسا کرکے ہی رنگوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہولی کھیلنے والے نہیں جانتے کہ ان کا رنگ کہاں تک جائے گا۔ ترپال اوڑھ کر مسلمان اپنے آپ کو ہولی کے رنگوں سے بچا سکتے ہیں۔
آپ ان بیانات کو غور سے پڑھیے اور سنیے۔ ان کا انداز دیکھیے۔ ان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ٹپک رہی ہے۔ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ کام کوئی سڑک چلتا آدمی نہیں کر رہا ۔ سرکار کے لوگ کر رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کے لوگ کر رہے ہیں۔ وہ کر رہے ہیں، جنہیں آئین کے حلف کے مطابق تمام شہریوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگر آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو گھر کے اندر رہنا چاہیے۔
مسلم مخالف گھنونے پن میں مقابلہ کرتے ہوئے بلیا کی بی جے پی ایم ایل اے نے کہا کہ وہاں جو میڈیکل کالج بن رہا ہے اس میں مسلمانوں کے لیے الگ وارڈ بنایا جانا چاہیے۔ ہندو ان کے تھوک سے بچ جائیں گے۔
کیا نفرت کے اس پروپیگنڈے کو برداشت کیا جانا چاہیے؟ کیا یہ صرف باتیں ہیں اور کسی کو ان کے بارے میں برا نہیں لگنا چاہئے جیسا کہ ہولی کے دوران گالیوں کا برا نہیں مانتے ہیں؟ نفرت کے اس پرنالے کو بہنے دینے، بلکہ یا اس کی غلاظت میں نہانے کا ہمیں مزہ آ رہا ہے۔
آدتیہ ناتھ نے ‘انڈیا ٹوڈے’ کے پروگرام میں اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا۔ وہاں بیٹھے اشرافیہ نے دانت دکھانے کے علاوہ کیا کیا؟ اس دوران ہم نے کتنے اداریے دیکھے۔ ہم سب نے ان تمام نفرت انگیز بیانات کو جائز تصورات کے طور پر قبول کیا۔ کسی نے نہیں کہا کہ یہ ناقابل برداشت ہے۔
مسلم دشمنی کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر نے دھمکی دی ہے کہ ان کی باری آئی تو تمام مسلم ایم ایل اے کو باہر پھینک دیا جائے گا۔ کیا یہ اداریوں کا موضوع نہیں ہونا چاہیے؟
ہمیں خاموشی سے اس نفرت کو پنپنے نہیں دینا چاہیے۔ نفرت، جس کا اظہار زبان سے ہوتا ہے، اپنے آپ میں تشدد ہے، لیکن اس کے ساتھ اور اس کے بعد براہ راست تشدد ہوتا ہے۔ اس نفرت انگیز پروپیگنڈے کی وجہ سے مسلمان آہستہ آہستہ عوامی مقامات سے دوری اختیار کرنے لگتے ہیں۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ کون سا ہندو اس نفرت پر یقین رکھتا ہے اور کون نہیں۔ تمام جگہیں ان کے لیے غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔
ان کا سمٹنا ہم سب کے لیے باعث شرم ہے۔ لیکن اگر ہم شرمناک چیز کو زیوربنالیں تو ہمیں کون بچا سکتا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)