اتر پردیش کے غازی آباد میں گل دھر ریلوے اسٹیشن کے قریب کوی نگر علاقے میں ہندو رکشا دل کے کارکنوں نے مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے حملہ کر دیا، جبکہ پولیس کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے ہندوستان کے شہری ہیں۔
غازی آباد: ہندو رکشا دل (ایچ آر ڈی) کے کارکنوں کے ایک ہجوم نے اپنے رہنما بھوپیندر تومر عرف پنکی چودھری کی قیادت میں غازی آباد کے گل دھر ریلوے اسٹیشن کے قریب کوی نگر علاقے میں جھگیوں پر حملہ کر دیا، ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں رہنے والے مسلمان غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا پناہ گزین ہیں جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
حملے کے دو ویڈیو میں- جو پہلے تنظیم کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نشر ہوئے – حملہ آوروں کے ایک ہجوم کو جھگیوں کو تباہ کرتے ہوئے،مکینوں کے سامان کو آگ لگاتے ہوئے اور مذہب کو نشانہ بناکر گالیاں دیتے ہوئے مسلمانوں پر لاٹھیوں سے حملہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ رواں ہفتے میں اس تنظیم کی جانب سے کیا جانے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔
ان شرپسندوں نے صرف جھگیاں ہی نہیں جلا ئیں بلکہ مسلمانوں کی شناخت کرنےکے بعد ان کے کپڑے اور سامان بھی جلا دیے۔ یہ حملے اس وقت ہوئے ہیں، جب سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر جاری حملوں کا انتقام لینے کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ مانگ کرنے والوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے نتیش رانے اور منڈی سے بی جے پی ایم پی کنگنا رناوت کا نام قابل ذکر ہے۔
رانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ‘اگر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور مارا جاتا ہے، تو ہم یہاں ایک بھی بنگلہ دیشی کو سانس لینے کی اجازت کیوں دیں؟ ہم بھی انہیں نشانہ بنا کر ماریں گے۔‘
کنگنا رناوت نے ہندوستان کا اسرائیل سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا، ‘ہندوستان انتہا پسندوں سے گھرا ہوا ہے۔ اپنی تلواریں اٹھاؤ اور انہیں تیز رکھو، ہر روز کچھ جنگ کی مشق کرو۔ اگر زیادہ نہیں تو ہر روز 10 منٹ اپنے دفاع کے لیے دو۔‘
اس حملے سے ایک دن پہلےایچ آر ڈی کے ایک اورمعاون دکش چودھری نے دہلی کے شاستری نگر میں ایک جھگی بستی پر حملہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہاں کے رہائشی غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں۔
چوہدری کی نفرت انگیز تقاریر اور حملوں کی تاریخ رہی ہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک ہیں، جنہوں نے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس لیڈر اور شمال مشرقی دہلی کے امیدوار کنہیا کمار پر ان کی مہم کے دوران حملہ کیا تھا ۔ انتخابات کے بعد ان کے خلاف ایودھیا میں بی جے پی کی شکست کے بعد ایودھیا کے باشندوں کو گالی دینےاور انہیں غدار کہنے کے لیے معاملہ درج کیا گیا تھا ۔
پنکی چودھری نے سوشل میڈیا پر حملوں کی حمایت کرتے ہوئے ایک ویڈیو اپلوڈ کیا ہے اور دہلی پولیس کو وارننگ دی کہ وہ حملہ آوروں کے خلاف کڑی کارروائی نہ کرے اور صرف آسانی سے قابل ضمانت الزامات کے تحت ہی مقدمات درج کرے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے ردعمل میں ہوئے ہیں۔
سات اگست کو جاری ایک اور ویڈیو میں پنکی نے کہا، ‘بنگلہ دیش میں جس طرح ہندوؤں کو مارا جا رہا ہے، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، مندروں کو توڑا جا رہا ہے اس پر پوری دنیا خاموش ہے۔ کوئی کچھ کہنے کو تیار نہیں۔ اگر مظالم بند نہ ہوئے توہندوستان میں رہنے والے بنگلہ دیشی ہمارے رڈار پر ہیں۔ میں ان تمام جگہوں کو جانتا ہوں جہاں وہ رہتے ہیں، میں انہیں نہیں چھوڑوں گا… میں آخر تک لڑوں گا۔‘
بنگلہ دیش میں 5 اگست کو شیخ حسینہ کے ڈھاکہ چھوڑنے کے بعد سے ہندوؤں کے خلاف ہجوم کے حملوں کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے ہندوستان کے رائٹ ونگ سوشل میڈیا پر ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے پروپیگنڈہ اور ہیٹ اسپیچ کا سیلاب آ گیا ہے۔ چودھری اور دیگر نے اس موقع کو ہندوستانی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
غازی آباد پولیس نے مذکورہ جھگی میں بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاؤں کے بارے میں پنکی کے جھوٹے دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ جن لوگوں پر حملہ کیا گیا وہ غیر ملکی نہیں بلکہ ہندوستانی شہری ہیں اور اتر پردیش کے شاہجہاں پور کے رہنے والے ہیں۔
مقامی تھانے میں متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
जांच में उक्त झुग्गी बस्ती में बांग्लादेशियों का निवासरत होना नहीं पाया गया है। निवासरत व्यक्ति उत्तर प्रदेश के शाहजहांपुर के रहने वाले हैं,अतः झुग्गी बस्ती में तोड़फोड़ और आगजनी करने वाले व्यक्तियों के विरुद्ध स्थानीय थाने पर सुसंगत धाराओं में अभियोग पंजीकृत किया गया है।1/2 pic.twitter.com/FkVgc39B56
— DCP CITY COMMISSIONERATE GHAZIABAD (@DCPCityGZB) August 10, 2024
کون ہے پنکی چوہدری؟
پنکی چودھری پہلی بار 2014 میں عام آدمی پارٹی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد سرخیوں میں آیا تھا، لیکن جنوری 2020 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر ایک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے اس نے اپنی جانب توجہ مبذول کرائی۔
اپریل 2021 میں دی وائر نے اپنی رپورٹ میں پنکی کے ایک ویڈیو کے بارے میں بتایا تھا جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ ‘ہم قرآن کو پھاڑ دیں گے اوراسے پڑھنے والوں کو ختم کر دیں گے۔’
اسی طرح 8 اپریل 2021 کو جاری ایک اور وائرل ویڈیو میں، چودھری نے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کا سر قلم کرنے پر 51 لاکھ روپے کے انعام کی پیشکش کی تھی۔
اگست 2021 میں اسےدہلی کے جنتر منتر پر نفرت انگیز ریلی کے سلسلے میں کچھ وقت کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس ریلی میں ‘ملے کاٹے جائیں گے تو رام رام چلائیں گے’ جیسے نفرت انگیز نعرے لگائے گئے تھے۔
دائیں بازو کے یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا تھا، ‘ہم اپنے نوجوانوں کو بیدار کرنے کے عمل میں ہیں۔ ہم ملاؤں کو ان کی قبروں سے نکال کر جڑسے ختم کر دیں گے۔ 2 اپریل کا انتظار کریں، آپ دیکھیں گے کہ ہم ایسے حالات پیدا کر دیں گے جہاں مسلمانوں کو یا تو ہندو مذہب اختیار کرنا پڑے گا یا انہیں پاکستان بھیج دیاجائے گا۔ ‘
دائیں بازو کے حملہ آوروں کے ذریعے اسدالدین اویسی کی جان لینے کی کوشش کرنے سے چند ہفتے قبل پنکی نے اپنے حامیوں سے لوک سبھا ایم پی اویسی کا سر قلم کرنے کی عوامی اپیل کی تھی۔
سال 2023 میں ان کے خلاف پولیس کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد غنڈہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔