کئی حلقے اسے محض ایک شعبدہ بازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کا اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اس طرح کی کریم کو بازار میں فروخت کرنے سے بازرکھنا چاہیے۔
نئی دہلی: تیل، صابن سمیت روزمرہ کے استعمال کی متعددمصنوعات بنانے والی کمپنی ہندستان یونی لیور نے اپنے برانڈ فیئر اینڈ لولی سے فیئرلفظ ہٹانے کااعلان کیا ہے۔کمپنی نے نئے نام کے لیے عرضی بھی دی ہے، لیکن ابھی اس کومنظوری نہیں مل سکی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنی یونی لیور پی ایل سی کی ذیلی کمپنی یونی لیور نے حالانکہ اپنے برانڈ فیئر اینڈ لولی کے نئے نام کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن کمپنی نے 17 جون 2020 کو کنٹرولر جنرل آف پیٹنٹ ڈیزائن اینڈ ٹریڈ مارک کے پاس گلو اینڈ لولی نام کے رجسٹریشن کی درخواست دی ہے۔
اس سلسلے میں ہندستان یونی لیور لمٹیڈ(ایچ یوایل)سے ربطہ کیے جانے پر کمپنی کے ترجمان نے کہا، ‘کسی بھی برانڈ کے لیے ٹریڈ مارک کا تحفظ اہم ہوتا ہے اور اس معاملے میں کمپنی نے 2018 میں کئی ٹریڈ مارک کے لیے درخواست دی ہے۔’کمپنی کا یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے، جب دنیا بھر میں نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔حالانکہ کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے اس قدم کا مغربی ممالک میں چل رہے نسل پرستی مخالف تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 2000 کروڑ روپے کے برانڈ کو اور بہتر بنانے کے لیے کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں۔کمپنی کا کہنا ہے کہ جلد کی دیکھ بھال سے جڑے اس کے دوسرے پروڈکٹ کے معاملے میں بھی نیااور جامع نقطہ نظر اپنایا جائےگا، جس میں ہر رنگ روپ کا خیال رکھا جائےگا۔
ایچ یوایل کا کہنا ہے کہ کمپنی گزشتہ40 سالوں سے اپنے برانڈ کے لیے استعمال میں لائے جا رہے فیئرلفظ کا استعمال کرنا بند کر دےگی۔ہندستان یونی لیور نے بیان میں کہا، ‘کمپنی برانڈ کو خوبصورتی کےنظریے سے مزید جامع بنانے کے لیے قدم اٹھا رہی ہے۔اس کے تحت کمپنی اپنے برانڈفیئر اینڈ لولی سے فیئر لفظ کو ہٹائےگی۔ نئے نام کے لیے منظوری کا انتظار ہے۔ ہم اگلے کچھ مہینوں میں نام میں تبدیلی کی امید کر رہے ہیں۔’
ایچ یوایل کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر سنجیو مہتہ نے کہا، ‘فیئر اینڈ لولی میں تبدیلی کے علاوہ ایچ یوایل کے جلد کی دیکھ بھال سے متعلق دوسرے پروڈکٹ میں بھی مثبت طریقے سے خوبصورتی کو نئے نظریےسے سامنے رکھا جائےگا۔’یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کمپنی کے اس قدم کا نسل پرستی مخالف تحریک سے کوئی تعلق ہے؟ مہتہ نے کہا، ‘یہ ایسا فیصلہ نہیں ہے، جو ہم نے آج لیا ہو۔ اس کی کہانی کئی سالوں سے چل رہی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘ایک بڑا اور ایسا برانڈ جو 2000 کروڑ روپے کا ہو، ایسے میں کوئی بھی تبدیلی بنا جامع تحقیق کے نہیں کی جاتی۔ یہ کچھ ایسا ہے، جس کے بارے میں کئی سالوں سے سوچا جا رہا ہے اورتحقیق کے بعد جب ایک بار ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اس تبدیلی کے کیا اثرات ہوں گے اورصارفین کی بدلتی ضرورتیں کیا ہوں گی تبھی ہم نے اس بارے میں فیصلہ لیا ہے۔’
مہتہ نے کہا کہ کمپنی نے پچھلے سال ہی نام بدلنے کے لیے عرضی دائر کی تھی اور نقلی مصنوعات سے بچنے کے لیے ابھی تک اس کا انکشاف نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا، ‘2019 میں ہم نے فیئر اینڈ لولی سے دو چہروں والی تصویر ہٹاتے ہوئے دیگر تبدیلیاں کی تھیں۔ ساتھ ہی برانڈ کمیونی کیشن کے لیے فیئرنس کی جگہ گلو کا استعمال کیا جو صحت مند جلدکے کی تشخیص کے لحاظ سے زیادہ جامع ہے۔’
انہوں نے کہا کہ نئے نام کو لےکرمنظوری کا انتظار ہے۔ اگلے کچھ مہینوں میں بدلے ہوئے نام کے ساتھ پروڈکٹ بازار میں دستیاب ہوگا۔مہتہ نے بتایا،‘ابھی فیئر اینڈ لولی کی 70 فیصدی فروخت دیہی علاقوں میں ہوتی ہے، جبکہ باقی30 فیصدی شہری بازاروں میں ہوتی ہے۔’
ملک میں گورےپن کی کریم کا بڑا بازار ہے۔ پراکٹر اینڈ گیمبل، گارنیر(لاریل)، امامی اور ہمالیہ جیسی ایف ایم سی جی کمپنیاں اس سیکٹرمیں کئی مصنوعات کو بازار میں اتارتی ہیں۔ڈی ڈبلیو اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ کریم کافی مقبول ہے۔ عام طور پر لوگ گورا دکھنے کے لیے چہرے پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔
کمپنی کے اس فیصلے کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس سے معاشرے میں کافی فرق پڑے گا تاہم کئی حلقے اسے محض ایک شعبدہ بازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کا اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اس طرح کی کریم کو بازار میں فروخت کرنے سے بازرکھنا چاہیے۔
یونی لیور کمپنی میں بیوٹی اور پرسنل کیئر ڈویژن کے صدر سنی جین نے اس فیصلے سے متعلق کہا،ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ گورا چٹا، صباحت، اور درخشاں جیسے الفاظ حسن و جمال کے ایک خاص تصور کی ہی ترجمانی کرتے ہیں اور ہمارے خیال سے یہ صحیح نہیں ہے اور ہم اس کو درست کرنا چاہتے ہیں۔
ایشیائی ممالک میں گورے رنگ کی چاہت اور اس سے لگاؤ ایک عام بات ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیائی ممالک میں گورے پن کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ گوری رنگت کے لوگوں کو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے جیسے سماج میں انہیں کوئی خاص مقام حاصل ہو۔
ہندوستان میں اس کریم کا اشتہار عام طور پر بالی وڈ کے بڑے ستارے اور نوجوان ماڈلز کرتے ہیں۔ اس طرح کے ٹی وی اشتہارات میں چہرے کے ایسے دو رخ پیش کیے جاتے رہے ہیں جس میں ایک پر کریم کے استعمال سے گوری چمک ہے تو دوسرا ماند اور کھردرا ہے۔ ایسے اشتہارات میں نوجوان لڑکیوں کو کریم کے استعمال سے گوری رنگ حاصل کر کے سماج میں اچھا مقام حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ اس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گورا رنگ ہونے سے اچھی نوکری ملنے اور اچھا شوہر ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں موت کے خلاف حالیہ دنوں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور ‘بلیک لا ئیوز میٹر’کے تحت سیاہ فام افراد کے حق میں جو مہم چلائی گئی اس میں ایسی تمام کمپنیوں پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی ہے جو جلد کو گورا کرنے کی کریم فروخت کرنے کے لیے ایسے اشتہارات شائع و نشر کرتے ہیں جس سے نسل پرستی کو فروغ ملتا ہے۔
ہندوستان میں خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم آل انڈیا پروگریسیو وومن ایسو سی ایشن سے وابستہ کویتا کرشنن نے ان کمپنیوں کے اشتہارات اور مہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ،ان تمام کمپنیوں کو ایسے زہریلے کلچر کے فروغ کے لیے جواب دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض دکانداروں نے تو ان کے خود کے ملیح رنگ کو دیکھ کر ان سے ایسی کریم خریدنے کا مشورہ دیا۔ انہیں ایسی مصنوعات کو مکمل طور پر ترک کردینا چاہیے۔بتا دیں کہ کمپنی فیئر اینڈ لولی فاؤنڈیشن کے لیے بھی نئے نام کا اعلان کرےگی۔ اس فاؤنڈیشن کی تشکیل2003 میں خواتین کو ان کی تعلیم وتربیت پوری کرنے میں مدد کے لیےوظیفہ دینے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)