ہندو معاشرہ یا یوں کہیں کہ پورا ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سب کو اپنا جائزہ لینے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ اقتدارمیں بیٹھے لوگ اسے امرت کال کہیں، لیکن یہ سنکرمن کال یعنی متعدی مرض کا زمانہ ہے۔ حماقت اور نفرت کا متعدی مرض، جہاں قدرومنزلت اور وقار کے ہر پیمانے کو مجروح / پامال کیا جا رہا ہے۔
ایودھیا میں شرنگار ہاٹ سے ہنومان گڑھی کے راستے رام مندر کو جانے والا بھکتی پتھ۔ (تصویر: شروتی سونکر)
ایودھیا کے رام جنم بھومی مندر کی پران -پرتشٹھا کے مذہبی رسومات شروع ہوچکےہیں۔ ابھی تک جہاں جمہوریہ ہند کے وزیر اعظم کا شہرہ مہمان خصوصی (یجمان) کے طور پرتھا اس کو مسترد کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ وہ اب صرف آخری رسومات میں شامل ہوں گے۔
اس کے پس پردہ وجوہات شانکر روایت کے آچاریوں؛ مطلب چاروں شنکرآچاریہ کی مخالفت سمجھی جا رہی ہے۔ لیکن، دوارکا اور شرنگیری کے شنکرآچاریوں نے پوری اور بدریکاشرم کے آچاریوں کی طرح کھل کر احتجاج نہ کرتے ہوئے؛ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح کا سافٹ کارنر رکھا، اور عمومی پندونصیحت کرتے ہوئے اپنی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
پوری شنکرآچاریہ نشچلانند سرسوتی اور بدریکا آشرم شنکرآچاریہ اوی مکتیشورانند کی مخالفت کو حکومت کی حمایت کرنے والے لوگوں نے آئینہ دکھانا شروع کیا اور ان کے ہندوپن وغیرہ پر بھی سوشل میڈیا پر سوال کیے گئے۔ایک مزار میں سجدہ یا سلام کی تصویر کو بھی ٹرول کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جا رہاہے۔ اس کی تردید بھی اوی مکتیشورانند نے کی کہ یہ راجستھان کے مشہور لوک دیوتا رام دیو پیر کی علامتی سمادھی کی تصویر ہے، جو دہلی میں واقع ہے۔
شکھا-سوتر (چوٹی اور جینو)اور سندھیا وغیرہ کے بغیر فرضی یا جن کا ہندوتوا روحانیت پر نہیں بلکہ نفرت پر مبنی ہے وہ کسی شنکرآچاریہ سے ان کی روحانی زندگی پر سوال نہیں بلکہ کٹہرے میں کھڑے کریں، کسی پارٹی کا ایجنٹ بتائیں۔ تو اسے سنکرمن کال (متعدی مرض کا زمانہ)سمجھا جائے یا امرت کال؟
اسمرتیوں (دھرم شاستر) وغیرہ کے تئیں شنکر آچاریوں کی شدت پسندی یا وابستگی سے اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ان کے شاسترکے علم پر فرضی یا سیاسی ہندو انھیں گالیاں دیں یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفرت کی آگ، جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے لگائی گئی ہے، وہ ہندوؤں کو بھی بھسم کر دے گی۔ ہم ایک بیماری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ہندوؤں کو اپنا جائزہ لینے اور اپنے بارے میں غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے، صرف یہی علاج کارگر ہو سکتا ہے۔
جس رام کے بال روپ (بچہ) کی پرتشٹھا ہو رہی ہے، وہی رام جب لنکا فتح کرنے کے بعد ایودھیا تشریف لاتے ہیں اور اپنے دوست، بندر- بھالو سے’کل گرو’ کا تعارف کراتے ہوئے ؛ سارے راکشس کو مارنے کا کریڈٹ اپنے کل گرو کو دیتے ہیں کہ-
پنی رگھوپتی نے سب سکھا بولائے۔ منی پد لاگہو سکل سکھائے
گرو بسشٹھ کل پوجیہ ہمارے۔ انہی کی کرپا دنج رن مارے
(مفہوم؛ رگھوناتھ نے تمام دوستوں کو بلایا اور سب کو کہا کہ منی قدموں میں سر جھکاؤ۔ یہ گرو وششٹھ جی ہمارے کل گرو ہیں اور قابل پرستش ہیں۔ انہی کی مہربانی سے راکشس مارے گئے۔)
کیا آپ نے فرضی ہندوؤں کے امرت کال کے ہرفن مولا لیڈر میں ایسی کوئی علامت اب تک دیکھی؟ شری رام اپنی تمام مہمات کی کامیابی کا سہرا اپنی ٹیم اور بزرگوں کو دیتے ہیں۔ وہیں رام کے سیاسی پرستاروں کے حالیہ برسوں کی سرگرمیوں کو اگر آپ یاد کریں تو یہ خود بخود واضح ہو جائےگا۔
شنکرآچاریہ کے ویڈیو شیئر کرکے کئی اپوزیشن پارٹیاں مودی اور آر ایس ایس وغیرہ کو آئینہ دکھا رہی ہیں۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو اس پر اپنا موقف واضح رکھنا چاہیے، کیونکہ دونوں شنکرآچاریہ پچھلے کئی سالوں سے ہندو راشٹر کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں ورن یعنی ذات پات کا نظام نافذ کیا جائے گا، وغیرہ۔ اگر اس بارے میں خصوصی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو گووردھن پیٹھ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ پوری شنکرآچاریہ نے برہمنوں کی ذاتوں پر نازیبا تبصرہ تک کیا ہے، حتیٰ کہ انہیں پانچویں ورن کا بھی کہا ہے۔ ان چیزوں کا تعلق بدریکاشرم کے آچاریہ سے نہیں ہے، لیکن وہ مذہب کی بنیاد پر دو قومیت کے حامی رہے ہیں۔
ایسے میں جو عام ہندو ہیں، وہ بے یقینی اور کشمکش کے شکار ہیں۔ جہاں بی جے پی، آر ایس ایس وغیرہ رام کی مریادا (وقار) کی پاسداری نہ کرتے ہوئے آچاریوں کی توہین کر رہے ہیں۔ جبکہ رام کی مریادا ہے کہ –
گرو شروتی سمت دھرم پھلو پائیا بنھن کلیس۔
ہٹھ بس سب سنکٹ سہے گالو نہش نریس
(مفہوم ؛ (میرے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گھر میں رہنے سے) گرو اور وید کے مطابق مذہب کی پیروی کا ثمر تمہیں بغیر کسی پریشانی کے مل جاتا ہے، لیکن ضد کی وجہ سے گالو منی اور راجا نہوش وغیرہ سب نے مصیبتیں برداشت کیں۔)
وہیں آچاریوں کو بھی آدی شنکر کے وحدت الوجود کو ذہن میں رکھتے ہوئے قومی ایکتا اور سماجی و مذہبی ہم آہنگی برقرار رہے ، اس پر کام کرنا چاہیے۔ ہندو معاشرہ یا یوں کہہ لیں کہ پورا ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سب کو اپنا جائزہ لینے اور غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔خواہ اقتدار میں بیٹھے لوگ اسے امرت کال کہیں، لیکن یہ سنکرمن کال یعنی متعدی مرض کا زمانہ ہے۔ حماقت اور نفرت کا سنکرمن کال، جہاں قدرومنزلت اور وقار کے ہر پیمانے کو مجروح/ پامال کیا جا رہا ہے۔
(سوامی راگھویندر ستیہ دھرم سمواد کے کنوینر ہیں۔)