فیس بک پوسٹ کے سلسلے میں قتل: گجرات میں ہندو تنظیموں کا احتجاجی مظاہرہ، ایک اور مولوی گرفتار

03:33 PM Feb 01, 2022 | دی وائر اسٹاف

گجرات کےاحمد آباد شہر کے دھندھکا قصبے میں مبینہ طور پر  ایک فیس بک پوسٹ کے سلسلے میں  25 جنوری کو ایک نوجوان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے ان کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔ گجرات اے ٹی ایس نے قتل کے سلسلے میں اب تک دو مولویوں سمیت چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:کئی ہندو تنظیموں نے احمد آباد کے دھندکا قصبے میں 25 جنوری کوایک نوجوان کے قتل کے خلاف سوموار کو پورے گجرات میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ نوجوان کو 6 جنوری کو مبینہ طور پر فیس بک پوسٹ شیئر کرنے کی وجہ سےقتل کر دیا گیا تھا۔ اس پوسٹ کے بارے میں کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔

پوسٹ کو لے کرکشن بولیا کو دو موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس معاملے میں دو مولوی  سمیت چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس معاملے کی جانچ اے ٹی ایس نے 29 جنوری کو مقامی پولیس سے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

احتجاجی مظاہرہ کے دوران، وشو ہندو پریشد، ہندو جاگرن منچ اور بجرنگ دل کے عہدیداروں نے کئی شہروں میں ریلیاں نکالیں اور پیدل مارچ کا اہتمام کیا، راج کوٹ میں پولیس کو ہلکے لاٹھی چارج کا سہارا لینا پڑا۔

راج کوٹ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس منوہر سنگھ جڈیجہ نے کہا کہ ریس کورس روڈ پر مقامی لوگوں  کا احتجاجی مظاہرہ  بے قابو ہو گیا، جن میں زیادہ تر مالدھاری (مویشی پالنے والے) برادری کے لوگ تھے۔

ڈی سی پی نے نامہ نگاروں کو بتایا،مارچ کا اختتام کلکٹر کے دفتر پر ہونا تھا، لیکن راستے میں کچھ مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور ایک پولیس پی سی آر وین کو نقصان پہنچایا۔ حالات پر قابو پانے کے لیے ہلکے لاٹھی چارج کا آرڈر  دیا گیا۔ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ لاٹھی چارج میں زخمی ہوا ہے،  لیکن ہم اس دعوے کو قبول نہیں کرتے کیونکہ طاقت کا استعمال کم سے کم تھا۔

ان تنظیموں کی طرف سےسورت، گاندھی نگراور پوربندر وغیرہ میں مارچ، بند اور پرارتھنا سبھاجیسے احتجاجی پروگرام منعقد کیے گئے۔

ان تنظیموں کے عہدیداروں نے بتایا کہ سورت میں راندیر اور مورا بھاگل میں احتجاجی مارچ نکالے گئے، جہاں لوگوں نے ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا، جبکہ وساودر، مہووا، پلیتانہ اور تھان گڑھ میں بند کا اہتمام کیا گیا۔

گجرات وی ایچ پی کے ترجمان ہتیندر سنگھ راجپوت نے دعویٰ کیاکہ ، عام ہندو شہریوں نے کشن بولیا کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ریاست بھر میں ریلیاں نکالیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ پولیس اس پوری سازش کی گہرائی میں جائے، جس کی وجہ سے کشن کی موت ہوئی۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایک اور شخص ان کے نشانے پر تھا اور اس طرح کے جرائم کے لیے ذمہ دار نظریے کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سے پہلے اس معاملے میں گزشتہ 28 جنوری کو دھندکا کے شبیر چوپڑہ (25 سال)، امتیاز پٹھان (27 سال) اور جمال پور کےمولوی محمد ایوب جاوراوالا (51 سال) کو گرفتار کیا گیا تھا۔

گزشتہ 30 جنوری کو اے ٹی ایس حکام نے کہا کہ مولوی قمرغنی عثمانی کو دہلی سے گرفتار کیا گیا ہے اور وہ اس معاملے میں گرفتار ہونے والے دوسرے مولانا ہیں۔

اے ٹی ایس کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز شیخ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کشن بولیا کو مبینہ طور پرگولی مار کر ہلاک کرنے والاشبیر چوپڑہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘انسٹاگرام’ کے ذریعے عثمانی سے رابطے میں تھا۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار مولانا ایک سماجی تنظیم چلاتے ہیں اور مبینہ طور پر برادری کے لوگوں کو پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے اکساتے ہیں۔

گزشتہ 28 جنوری کو سریندر نگر ضلع میں بولیا کےآبائی گاؤں چچنا کا دورہ کرنے والے سنگھوی نے نامہ نگاروں کو بتایا تھاکہ ،دھندکا میں ہوئےقتل معاملے کی جانچ  گجرات اے ٹی ایس کو سونپ دی گئی ہے۔

اس کے بعد گجرات اے ٹی ایس نے 29 جنوری سے معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔

معلوم ہو کہ فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئےکشن بولیا کے خلاف ایک شکایت درج کرائی تھی۔ اس ماہ کے شروع میں بولیا کے خلاف شکایت کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ضمانت پر باہر تھے، اسی دوران انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

بولیا دھندکا میں فوٹو کاپی کی دکان چلاتے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ اس ماہ کے شروع میں اس کی بیوی نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔

گجرات میں مذہب سے متعلق فیس بک پوسٹ پر نوجوانوں کی پٹائی کے معاملے میں سات گرفتار

اسی واقعہ سےمتعلق ایک اور معاملے میں گجرات کے چھوٹا ادے پور ضلع میں فیس بک پوسٹ کو لے کر دو کمیونٹی کے درمیان ہوئی جھڑپ  کے سلسلے میں پولیس نے سوموار کوسات لوگوں کو گرفتار کیا۔یہ پوسٹ اس نوجوان کے پوسٹ کی طرح ہے، جسے 25 جنوری کو احمد آباد میں محض ایک  پوسٹ کے لیے قتل کر دیا گیا۔

تازہ ترین واقعہ گزشتہ 30 جنوری کی شام کو رام جی مندر کے قریب پیش آیا۔ دن میں ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں کچھ لوگ ایک نوجوان کو مارتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

چھوٹا ادے پور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ دھرمیندر شرما نے کہا، نوجوان نے ایک فیس بک پوسٹ اپ لوڈ کیا تھا، جسے دوسرے فریق نے قابل اعتراض پایا اور کچھ دن پہلے اس سلسلے میں شکایت درج کرائی تھی۔

شرما نے کہا، ہم نے نوجوان پر دباؤ ڈال کراس ویڈیوپوسٹ کو ڈیلیٹ کروا دیا تھا۔

شرما نے کہا کہ ویڈیو ڈیلیٹ کیے جانے کے باوجود  30 جنوری کو اقلیتی برادری کے 30  لوگوں نے نوجوان پر اس کے گھر کے قریب حملہ کیا۔ ان  میں سے 20 کے خلاف معاملہ درج کر کے 7 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ مبینہ طور پر قابل اعتراض ویڈیو پوسٹ کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ یہ ویڈیو اسی طرح کا ہے، جسے کشن بولیا نے دھندکا میں شیئر کیا ہے۔

اسی طرح گجرات کے کھیڑا ضلع کے کٹھ لال قصبے میں سوشل میڈیا پوسٹ کو لے کر دو برادریوں کے لوگوں میں 30 جنوری کوجھگڑا ہوگیا تھا۔ دونوں فریق نے دعویٰ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پوسٹ سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے بعد 30 جنوری کو اس سلسلے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی۔

پولیس نے کہا، ایک ایف آئی آر جیوتیندرا بھاوسار کی شکایت پر درج کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ  29 جنوری کی رات اپنے پڑوس میں دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے نکلا تھا۔ اس دوران  20 لوگوں نے ان پر تلواروں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا، ان پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے پوسٹ اپ لوڈ کرنے کا الزام لگایا، اس واقعے میں دو افراد زخمی ہوگئے۔

ایک افسر نے بتایا کہ دوسری ایف آئی آر اس وقت درج کی گئی جب آصف بورانے شکایت کی کہ اس پر اور دوسرے لوگوں پر 29 جنوری کی رات تقریباً 20  لوگوں نے حملہ کیا، جس سے وہ زخمی ہو گیا اور اس کوہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)