کانپور پولیس کے ایک مبینہ’انکاؤنٹر’میں دو افراد کے پیروں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا کہ جو ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ پولیس کے مال خانے سےہی لیا گیا تھا۔ عدالت نے پولیس کی گواہی میں کئی تضادات پائے، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش نہیں کیا گیا۔

نئی دہلی: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے آنے کے بعد سے ‘پولیس انکاؤنٹر’ کے معاملے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔
سال 2020 کی ایک رات پولیس کی گشتی ٹیم ایک موٹر سائیکل کو روکتی ہے۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار ہیں۔ پولیس انہیں رکنے کا اشارہ دینے کے لیے ٹارچ کا استعمال کرتی ہے۔ لیکن موٹر سائیکل نہیں رکتی اور تیزی سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پولیس ان کا پیچھا کرتی ہے۔ جب وہ خودکو گھراہوا پاتے ہیں تو وہ بائیک چھوڑ کر پیدل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پولیس نے انہیں سریندر کرنے کو کہتی ہے، لیکن وہ دیسی کٹوں سے پولیس پر گولی چلا دیتے ہیں۔ پولیس بال بال بچ جاتی ہے اور اپنے دفاع میں دونوں کو ان کی ٹانگوں میں گولی مار دیتی ہے۔ پولیس نے ان سے دیسی کٹے اور چوری کا سامان برآمد کرتی ہے۔ ملزمان کے خلاف پولیس پر جان لیوا حملے کا مقدمہ درج کر کے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
لیکن اس بار کہانی ٹک نہیں پائی ۔ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔
کانپور پولیس کے مبینہ’انکاؤنٹر’ میں دو افراد کو ٹانگوں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا ہے کہ جو غیر قانونی ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ دراصل پولیس مال خانے (شواہد کو رکھنے کی جگہ) سے نکالا گیا تھا۔ یہ ہتھیار 2007 کے ایک معاملے کا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی ہتھیار کو 13 سال کے وقفے سے دو الگ الگ معاملوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔
گزشتہ یکم اپریل کو عدالت نے کانپور کے کندن سنگھ اور امت سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پولیس نے ان سے اسلحہ برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ امت کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی، لیکن کندن 2020 سے جیل میں تھے۔
ایڈیشنل سیشن جج ونئے سنگھ نے کہا کہ جس طریقے سے 2007 کے ایک کیس سے منسلک ایک غیر قانونی پستول (جس کا حل 2018 میں ہوا تھا) کو کندن اور امت نے کے پاس سے برآمد دکھایا گیا، اس نے پورے معاملے کو ‘مشکوک’ بنا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے انہیں جھوٹا پھنسایا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث پولیس انسپکٹر اور پوری پولیس ٹیم کے خلاف ‘تفصیلی اور اعلیٰ سطحی تفتیش’ ضروری ہے۔
جسٹس سنگھ نے کانپور پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ خود یا کسی اہل افسر کے ذریعے پورے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرائیں اور تین ماہ کے اندر رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے انکاؤنٹر کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے مال خانے سے غیر قانونی طور پر اسلحہ نکالا تھا تو متعلقہ افسر اور ان کی ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
پولیس کہانی: انکاؤنٹر کیسے ہوا؟
قابل ذکر ہے کہ 21 اکتوبر 2020 کی رات کو پولیس انسپکٹر گیان سنگھ کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم گشت پر تھی۔ وہ مریم پور تراہے پر گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کاکادیو علاقہ سے آنے والی ایک بائیک کو روکا۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار تھے۔ پولیس نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ موٹر سائیکل لے کر مریم پور ہسپتال کی طرف بڑھ گئے۔
مشکوک سرگرمی دیکھ کر پولیس نے فوری طور پر اپنی جیپ میں ان کا پیچھا کیا۔ وہ دونوں کاکادیو کی طرف بھاگے۔ پولیس نے انہیں لاؤڈ اسپیکر پر رکنے کو کہا، لیکن وہ آگے بڑھتے رہے اور ارما پور کی طرف مڑ گئے۔ پولیس نے ارما پور پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی۔ وہیں انسپکٹر اجیت کمار ورما کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم نے بائیک سواروں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ارما پور اسٹیٹ کی طرف بھاگ گئے۔
تقریباً 500 میٹر تک دوڑنے کے بعد، جب وہ کیندریہ ودیالیہ کراسنگ کے قریب گھر گئے، تو انہوں نے موٹر سائیکل چھوڑ دی ۔ پولیس نے انہیں سرینڈر کرنے کو کہا۔ لیکن انہوں نے اپنی پستول نکالی اور پولیس پر دو گولیاں چلائیں۔ اتفاق سے پولیس والے بچ گئے۔
پولیس نے انہیں دوبارہ سرینڈر کرنے کو کہا، لیکن انہوں نے اپنی پستول دوبارہ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ مجبوری میں انسپکٹر سنگھ نے اپنی سروس پستول سے دو گولیاں ان کے پاؤں پر چلائیں۔ وہ گر پڑے اور درد سے کراہنے لگا۔ ان کی دائیں ٹانگ پر گھٹنے کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ پولیس نے گاڑی سے کپڑا نکال کر ان کے زخموں پر پٹی باندھ دی۔
ان کی شناخت کندن اور امت کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس نے امت کی جیب سے سونے کی دو چین اور 1000 روپے (100 روپے کے دس نوٹ) برآمد کیے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا جس میں ایک زندہ کارتوس اور ایک خالی کارتوس پاس ہی پڑا تھا۔ کندن کے قریب سے سونے کی ایک چین اور چین کا ایک حصہ ملا۔ اس کے ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا، جس میں ایک زندہ کارتوس تھا۔
غیر قانونی اسلحہ اور دیگر اشیاء کو سیل بند پلاسٹک باکس میں رکھا گیا۔ کندن اور امت کو 11:20 بجے حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ اس گرفتاری میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی گئی۔
دونوں کے خلاف اقدام قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے تین مقدمات درج کیے گئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس سے برآمد ہونے والی سونے کی چین چوری اور چھیننے کی واردات کا حصہ تھی۔ یہ معاملہ 2022 میں ٹرائل پر گیا، جس میں استغاثہ نے 10 گواہ پیش کیے۔ سب پولیس والے تھے۔ کوئی آزاد گواہ نہیں تھا۔
پولیس کی کہانی میں خامیاں
عدالت نے پولیس کی کہانی میں بہت سی خامیاں پائیں۔
پہلی، پولیس نے اپنی گواہی میں یہ نہیں بتایا کہ وہ متعلقہ تھانے سے کب اور کہاں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ریکوری میمو میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ سات پولیس اہلکاروں کی گواہی کی جانچ کرنے کے بعد، عدالت نے کہا کہ ان میں سے کسی نے بھی رات کی ڈیوٹی کے دوران اپنی روانگی کا وقت یا ڈسپیچ رپورٹ نمبر نہیں بتایا۔
دوسری ، عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس نے آزاد گواہوں کو شامل کرنے کے لیے ‘معقول کوشش’ نہیں کی۔ جبکہ کیندریہ ودیالیہ کے سیکورٹی گارڈ موقع کے قریب ہی تھے اور اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی قریب ہی تھیں۔ پولیس نے ان عوامی گواہوں کے نام اور پتے بھی ظاہر نہیں کیے جنہوں نے مبینہ طور پر گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تیسری، ملزمان کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پولیس کے مطابق دو افراد نے انہیں قتل کرنے کی نیت سے فائرنگ کی، لیکن کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی گاڑیوں کو کوئی نقصان پہنچا۔
کیس میں شکایت کنندہ انسپکٹر سنگھ نے گواہی دی کہ کندن اور امت نے پولیس پر فائرنگ کی تھی۔ سنگھ کے مطابق، ان میں سے ایک نے ان پر اور دوسرے نے انسپکٹر ورما کی پیٹھ پر گولی چلائی۔ عدالت نے اس بیان کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ بیان ‘عام اور فطری صورتحال’ کے خلاف ہے جو کہ اگر پولیس ملزمان کو چاروں طرف سے گھیر لیتی تو پیدا ہوتی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب پولیس نے مشتبہ افراد کو گھیرے میں لیا تو پولیس کا سامنا مجرموں سے ہونا چاہیے تھا نہ کہ پیٹھ ان کی طرف ہونی چاہیے تھی۔ استغاثہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ انسپکٹر ورما اپنی پیٹھ ملزم کی طرف کیوں کرکے کھڑے تھے۔
جج سنگھ نے کہا، ‘اگر وہ اپنی پیٹھ ملزمین کی طرف کرکے کھڑے تھے، تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس والوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔’
چوتھی، عدالت نے دو پولیس انسپکٹروں کے بیانات میں بھی تضاد پایا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ملزمان کو پستول استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
پانچویں، عدالت نے یہ بھی پایا کہ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے، لیکن استغاثہ نے ریکارڈ پر کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس فوٹیج سے صاف ظاہر ہو سکتا تھا کہ پولیس ٹیم ملزم کا پیچھا کر رہی تھی یا نہیں۔
چھٹی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ پولیس نے 21 اکتوبر 2020 کو ملزمین سے جس پستول کو برآمد کرنے کا دعویٰ کیا، وہ پہلے ہی ‘1 سی ایم ایم کے این آر 13.05.2014’ کے طور پر نشان زد کی جا چکی تھی۔ یہ پستول 2007 کے آرمس ایکٹ کیس میں ضبط کی گئی تھی جس میں ملزم رشبھ سریواستو کو 25 ستمبر 2018 کو مقامی عدالت نے بری کر دیا تھا۔
قواعد کے مطابق، جب کوئی غیر قانونی اسلحہ برآمد ہو تا ہے اور اس پر مقدمہ ختم ہو جاتا ہے تو اسے تلف کر دیا جانا چاہیے۔ جسٹس سنگھ نے کہا، ‘کسی بھی حالت میں 2020 میں ملزم سے یہ غیر قانونی ہتھیار برآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔’
جج نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس انسپکٹر سنگھ نے یہ پستول مال خانے سے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیا تھا اور ملزم کو جھوٹا پھنسانے کے لیے اسے ریکوری کے طور پر دکھایا تھا۔ پولیس اس بات کی بھی وضاحت نہیں کر سکی کہ پہلے سے پولیس کے قبضے میں موجود پستول ملزمان تک کیسے پہنچی۔
عدالت نے کہا، ‘ایسے میں استغاثہ کی یہ کہانی کہ ملزمان نے پولیس پر جان سے مارنے کے ارادے سے حملہ کیا تھا، پوری طرح سے جھوٹی ثابت ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں استغاثہ کی کہانی قابل اعتبار نہیں ہے اور استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ گواہوں کی گواہی بھی سے بھی کوئی بھروسہ پیدا نہیں ہوتا۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )