نسل در نسل ہم یہ مانتے رہے ہیں کہ ہندو کا متضاد لفظ مسلمان ہے۔ میں نے بچپن میں سنا تھا کہ مسلمان ہر کام ہندوؤں کے برعکس کرتے ہیں۔ یہی بات میری بیٹی کو اس کی ٹیچر نے بتایا۔ ہندو سمجھتے ہیں کہ مسلمان شدت پسند اور تنگ نظر ہوتے ہیں، ظالم ہوتے ہیں اور انہیں بچپن سے ہی تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی مسجدوں میں اسلحے رکھے جاتے ہیں۔
ہندو مسلم علامات۔ (تصویر بہ شکریہ: Pixabay)
کرستوف جعفرلو نے دی وائر میں
ایک سروے کی تفصیلات پیش کی ہے، جس میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ‘مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کا رویہ کیا ہے۔’ اس عنوان سے الجھن پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہندوستان اتنا ہی مسلمان ہے جتنا کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی۔ اس کا عنوان یہ ہو سکتا تھا: ‘ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا رویہ کیا ہے؟’ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت اور بغض ہے۔ اگر اتنے سخت لفظ پر کوئی اعتراض ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں شکوک و شبہات ہیں۔
اس سروے کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ایک سروے یہ کرایا جائے کہ ہندو اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم اس مضمون میں اس پر غور کریں گے، ابھی کرستوف جعفرلو کے جس سروے کا ذکر کیا گیا، اس پر غور کر لیتے ہیں۔ جن سوالات کے ذریعے مسلمانوں کے تئیں ہندوؤں کے نظریے کی چھان پھٹک کی گئی ہے وہ یہ ہیں:
کیا مسلمانوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا مسلمان اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے ہندو؟ کیا ضرورت سے زیادہ مسلمانوں کا اپیزمنٹ کیا جا رہا ہے؟ کیا ان میں پڑھے لکھے، قابل لیڈروں کی کمی ہے؟ کیا آج ہندوستان میں مسلمان محفوظ ہیں؟ کیا ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے ملک میں ہم آہنگی بڑھی ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کی ترقی کے لیے زیادہ ریاستی امداد دی جانی چاہیے؟
ان سوالات کے جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ہندو مسلمانوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ انہیں ان کی حب الوطنی پر شک ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کا اپیزمنٹ کیا جاتا رہاہے۔ مسلمانوں میں اچھی قیادت کا فقدان ہے۔ وہ ہندوستان میں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ رام مندر کی وجہ سے ملک میں ہم آہنگی بڑھی ہے۔ سروے کرنے والوں کو ان کے سوالات کے یہ جواب ملے۔ایسا ماننے والے شمالی ہندوستان میں زیادہ ہیں، جنوب میں نسبتاً کم۔ لیکن یہ جوابات کاسٹ نیوٹرل ہیں۔ ‘پسماندہ’ اور دلت ذاتوں کے لوگوں کے خیالات نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ الگ سے نوٹ کیا گیا ہے۔ چند جگہوں پر کہا گیا ہے کہ ان کاسٹ گروپوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب ‘اونچی’ ذاتوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ کچھ لوگوں نے بجا طور پر تبصرہ کیا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں نے شائستہ زبان میں اپنے تعصبات کو چھپا لیا ہو۔’
اس معاملے میں بظاہر پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ ‘اونچی’ ذات کے ہندوؤں کی ذہنیت کیا ہے، یہ ان کی میٹنگوں، کھانے کی میزوں اور وہاٹس ایپ گروپس میں ان کے تبصروں سے پتہ چلتا ہے۔ حال ہی میں ایک دوست نے فیس بک پر اپنے رشتہ دار کے گھر پر ہونے والی بے تکلف بات چیت کا ذکر کیا۔ وہ کسی تہوارمیں شرکت کے لیے اپنے رشتہ دار کے گھر گئے ہوئے تھے۔ وہ بہار کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور جئے پرکاش نارائن، راجندر پرساد وغیرہ کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ وہ تعلیم میں سب سے پہلے آئے اور سرکاری نوکریوں میں بھی۔
میرے دوست نے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کے کچھ ٹکڑوں کا حوالہ دیا:-
‘اگر آج بال ٹھاکرے زندہ ہوتے تو اپنے بیٹے ادھو کو گولی مار دیتے… پتہ نہیں کیسا ہندو ہے۔’
‘آج کل تو ہم سبزی باغ جیسے محلوں سے گزرتے بھی نہیں اور بعض اوقات جب ہم راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایسے محلوں میں بھٹک ہو جاتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے نہ جانے کہاں سے بم پھینک دیا جائے ہم پر۔’ (سبزی باغ پٹنہ کا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔)
‘مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے انتخابات میں پتہ نہیں کیا ہو… کم از کم ایک میں کیسے بھی اپنی حکومت بننی ہی چاہیے، ورنہ پھر وہی اپیزمنٹ والی سیاست کا دور شروع ہو جائے گا…’
-‘مودی نے بہت سی چیزوں کو درست کرنے کی کوشش کی ہے، اور اگر تھوڑا سا موقع دیا گیا تو وہ محلے کے محلے جو عیسائی بنائے جا رہے ہیں، اس کو بھی ٹھیک کر دیں گے… بتائیے نا،کیا حال بنا دیا ہے ملک میں…’
اس گپ شپ سے ہندوؤں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ادھو ٹھاکرے سے ناراضگی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے مسلم مخالف موقف کو چھوڑ کر ہم آہنگی کی سیاست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہو سکتی ہے۔ سبزی باغ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ وہاں غیر مسلموں پر بلا وجہ تشدد کیا جاسکتا ہے، کوئی کہیں سے بم پھینک سکتا ہے، یہ ان لوگوں کی سوچ ہے جو خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایسے علاقوں میں آتے جاتے نہیں۔ سبزی باغ پٹنہ کے مرکز میں ہے اور پٹنہ کی مرکزی سڑک اشوک راج پتھ کے کنارے ہے،اور ہمیشہ گلزار رہتا ہے۔ پھر بھی اس کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے!
مہاراشٹرا یا جھارکھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کیوں بننی چاہیے؟ چاہے وہ ہندوؤں کے لیے کچھ کرے یا نہ کرے، اپیزمنٹ کی سیاست تو نہیں ہوگی! ہرمحلے میں لوگوں کو عیسائی بنایا جا رہا ہے اور ملک کی حالت ابتر ہو چکی ہے۔ مودی جی کو اس لیے بنے رہنا چاہیے کیونکہ وہ یہ سب ٹھیک کر دیں گے۔
یہ ایک متشدد، مسلم مخالف اور عیسائی مخالف ذہن ہے۔ ڈگری کا فرق ہو سکتا ہے لیکن آج ایک اوسط تعلیم یافتہ ہندو ایساہی ہے۔ وہ عموماً ‘اعلیٰ ذات’ کا ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں!
رادھیکا برمن نے اپنے ایک رشتہ دار سے ملاقات کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھا ہے: ‘آج میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر گئی جو بائیں بازو سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ چند ہی منٹوں میں کمرہ ‘مسلم ہجوم، آبادی، ہمایوں کبیر، سعودی عرب، بنگلہ دیش، ٹی ایم سی کی اسلامائزیشن’ جیسے الفاظ سے بھر گیا۔’ وہ اور ان کی ماں صدمے میں تھے۔ بعد میں ماں نے کہا کہ سیکولر پارٹیوں کے لوگ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔
جیسا کہ سروے اور دوستانہ گپ شپ کی یہ دو مثالیں ظاہر کرتی ہیں، پڑھے لکھے ہندوؤں میں ، جو عام طور پر ‘اعلیٰ ذات’ سے ہی ہوں گے، مسلمانوں کے تئیں بیگانگی اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ہندو مسلمانوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ زیادہ تر ہندو مسلمانوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ وہ سماجی یا خاندانی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کے رہن سہن ، ان کے تہواروں اور مذہب کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ لیکن اس سب کے بارے میں ان کی ایک مضبوط رائے ہے۔ اور یہ رائے اچھی نہیں ہے۔ وہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان کے پاس اس رائے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
سروے ہمیں اعداد و شمار اور ڈیٹا کی مدد سے وہ بتاتا ہے جوہم اپنے روزمرہ کے تجربات سے جانتے ہیں۔ ہماری تہذیبی تربیت ایسی ہے کہ نسل در نسل ہم مانتے رہے ہیں کہ ہندو کامتضاد لفظ مسلمان ہے۔ میں نے بچپن میں سنا تھا کہ مسلمان ہر کام ہندوؤں کے برعکس کرتے ہیں۔ یہی بات میری بیٹی کو اس کی ٹیچر نے بتایا۔ یعنی نسل در نسل یہ بات منتقل ہو رہی ہے۔
ہندوؤں میں یہ سمجھ ہے کہ مسلمان پسماندہ،شدت پسند اور تنگ نظر ہوتے ہیں، وہ عادتاً ظالم ہوتے ہیں اور انہیں بچپن سے ہی تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ 2015 میں دہلی کے ترلوک پوری میں تشدد کے بعد وہاں کے ہندوؤں کے ساتھ بات چیت کے دوران ایک نے بتایا کہ ان کے بچوں کو بھی پتھر پھینکنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہندوؤں کے مطابق مسجدوں میں تو اسلحے رکھے ہی جاتے ہیں، مسلمانوں کے گھروں میں بھی اسلحے ہوتے ہیں!
شخصی طور پر کوئی مسلمان بھلا ہو سکتا لیکن اجتماعی طور پر وہ ہمیشہ متشدد ہوتے ہیں۔ یہ گوشت کھانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مسلمان مردوں میں جنسی کشش اور جارحیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی عورتوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔ زیادہ تر مسلمان لازمی طور پر مذہبی لحاظ سے شدت پسند ہوتے ہیں۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ مسلمان اس لیے بھی شدت پسند ہوتے ہیں کہ ان کا قرآن بذات خود ایک متشدد صحیفہ ہے۔
مسلمانوں کے بارے میں ہندوؤں کی یہ عام سمجھ ہے۔ لیکن اپنے بارے میں ان خیال ہے کہ وہ فطری طور پر بردبار اور فیاض ہوتے ہیں۔ وہ سائنسی طور پر باشعور اور ترقی پسند ہیں۔ وہ ماڈرن بھی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنی روایات پر بھی عمل پیرا ہیں۔ ان کے لیے اپنی ذات یا ذیلی ذات کے اندر رشتہ کرنا تنگ نظری نہیں ہے۔ وہ جہیز لینے کو برائی نہیں سمجھتے۔ جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہندو (‘اعلی’ ذات) ہے، وہ اتنا ہی زیادہ جہیز چاہتا ہے۔ اسے پسماندگی نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان میں روزانہ تقریباً 20 خواتین کو جہیز نہ لانے کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ لیکن ہندو اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ ان کے خاندانوں میں تشدد عام ہے۔ آج بھی ورنداون میں اپنے بچوں اور خاندانوں کےذریعے چھوڑی گئیں خواتین کو لاوارث گھومتے ہوئے پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ان کا خاندان اور والدین کے احترام کا احساس کسی دوسرے مذہبی گروہ سے زیادہ ہے۔
ہندوؤں کے درمیان امتیازی سلوک کئی سطحوں پر موجود ہے۔ دہلی یونیورسٹی جیسے ادارے میں بھی ذات پات کی بنیاد پر گروہ بندی ہے۔ اپنی ذات کے لوگوں سے غیر معقول محبت اور پیار ہندوؤں کے تقریباً تمام گروہوں کی خصوصیت ہے۔ ایک ‘اونچی’ ذات کا ہندو مشکل سے اپنا گھر کسی دلت کو کرایہ پر دے گا، مسلمان کی بات تو دور رہی۔ لیکن ہندو یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ وہ صفائی اور کھانے پینے کی عادات کے فرق کی بنیاد پر ایسے فیصلوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کی طرف تجسس اور ان کے ساتھ گھل مل جانے کا رجحان بھی ہندوؤں میں کم پایا جاتا ہے۔
جس سروے کی بات کی جا رہی ہے، اس میں ہندوؤں سے مسلمانوں کی قیادت کے معیار کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اچھے، ذہین لیڈر نہیں ہوتے۔ لیکن ہندو خود کس کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں، ذات کے علاوہ اس کی بنیاد کیا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹر، جو ہندو ہیں، ایسے لیڈروں کا انتخاب کرتے ہیں جو ذات کے ہوں یا نہ ہوں، لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں ضرور سرفہرست ہوں۔ ہندو خوشی سے گری راج سنگھ، پرگیہ سنگھ یا ہمنتا بسوا شرما کو ووٹ دیتے ہیں اور نریندر مودی یا آدتیہ ناتھ کواپنا آئیڈیل مانتے ہیں، جن کی واحد قابلیت یہ ہے کہ وہ بے شرمی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا پرچار کر سکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ان لیڈروں کی تقریروں کا تجزیہ کریں، بی جے پی کے تقریباً تمام بڑے لیڈروں کی تقاریر بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف علیحدگی اور نفرت کو ہوا دیتی ہیں۔ ہندو انہیں اسی وجہ سے چنتے ہیں۔ پھر اس کو چھپانے کے لیے وہ ان لیڈروں میں دوسری خوبیاں تلاش کرتے ہیں، جیسے وہ ترقی کر سکتے ہیں، مؤثر منتظم ہیں۔
سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ہندوؤں کے روحانی پیشوا کون ہیں؟ ہندوؤں میں بابا باگیشورناتھ، جگی واسودیو جیسے فضول باباؤں کی بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہندو خود کو نفیس اور ترقی پسند سمجھتے ہیں۔
انصاف کے بارے میں ہندوؤں کی سمجھ کیا ہے؟ ان میں سے کتنے پولیس انکاؤنٹر اور بلڈوزر ‘انصاف’ کے حامی ہیں؟ کتنے لوگ انفرادی آزادی، مساوات اور انصاف کی اقدار پر یقین رکھتے ہیں؟ کتنے لوگ بھائی چارے کو معاشرے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں؟
ہندوؤں میں بیہودگی، فحاشی اور تشدد بڑھ رہا ہے یا کم ہو رہا ہے؟ اس کا اندازہ ان کے مذہبی مواقع پر چلائے جانے والے فحش اور پرتشدد گانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں کو دوسرے مذاہب اور معاشروں کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ لیکن اپنے مذہب اور اپنی روایات کے بارے میں ان کا علم بہت سطحی ہے۔ ہندومت کا صرف آر ایس ایس ورژن ہی ہندوؤں میں مقبول ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہندوؤں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ اس کے لیے کسی نئے سروے کی ضرورت نہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ماہرینِ عمرانیات ہندوؤں سے ان کے اپنے بارے میں پوچھیں۔ ہندوؤں کی نگاہ باہر کی طرف ہے۔ ضرورت ہے کہ اب ہندو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ کون اور کیا ہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)