تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں 4 مئی کی رات ایک 25 سالہ دلت نوجوان پر اس کی مسلم بیوی کے بھائی اور ایک دوسرے شخص نے لوہے کی راڈ اور چاقو سے حملہ کیاتھا، جس سے موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔ پولیس نے بتایا کہ دونوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ سید مبین احمد اپنی بہن کے نوجوان کے ساتھ تعلقات کے خلاف تھا اور اسےوارننگ بھی دی تھی۔
نئی دہلی: تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں آنر کلنگ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک 25 سالہ دلت شخص کو اس کی مسلم بیوی کے بھائی اور ایک دوسرے شخص نے بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس واقعے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ بدھ (4 مئی) کی رات حیدرآباد کے سرور نگر میں پیش آیا، جب متاثرہ دلت شخص بی ناگاراجو (25 سال) اپنی بیوی اشرین سلطانہ (23 سال) کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ اسکوٹر پر سوار حملہ آور سید مبین احمد اور محمد مسعود احمد نے ان دونوں کو سڑک پر روکا اور ناگاراجو پر پہلے لوہے کی راڈ اور پھر چاقو سے حملہ کیا، جس سے موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی ۔ پولیس نے بتایا کہ دونوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس کی جانب سے جاری کردہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں سلطانہ حملہ آوروں سے لڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو پہچان لیا، جس نے ان کے شوہر کو چاقو مارا تھا۔ اس نے مدد کے لیے پکارا لیکن کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آیا۔
ویڈیو میں سلطانہ کو نیلی شرٹ پہنے ایک شخص سے لڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کی شناخت اس نے اپنے بھائی کے طور پر کی ہے۔ کچھ راہ گیر مدد کے لیے دوڑے، جس کے بعد دونوں حملہ آور فرار ہوگئے۔ حملے میں زخمی ہونے والی سلطانہ کو راہ گیروں نے ہسپتال پہنچایا جہاں اس کی حالت مستحکم بتائی جارہی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ناگاراجو اور سلطانہ تلنگانہ کے وقارآباد ضلع کے مارپلی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور ان کے درمیان کئی سالوں سے محبت تھی۔
سلطانہ نے پولیس کو بتایا کہ ان کا خاندان نہ صرف اس وجہ سے شادی کی مخالفت کر رہا تھا کہ ناگاراجو ہندو تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ دلت مالا برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے اس سال 30 جنوری کو اپنا گھر چھوڑدیاتھاا اور اگلے دن ایک آریہ سماج کے مندر میں ناگاراجو سے شادی کی تھی۔ یکم فروری کو سلطانہ کے اہل خانہ نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔
پولیس نے کہا کہ سید مبین احمد اپنی بہن کے ناگاراجو کے ساتھ شادی کے خلاف تھا اور اسے اس کے خلاف وارننگ بھی دی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ متاثرہ شوہر اور بیوی کو روکنے کے بعد دونوں ملزمین نے ناگاراجو کو زمین پر دھکیل دیا اور ڈنڈے سے کئی بار وار کیا اور پھر چاقو مار دیا۔
پولیس نے بتایا کہ دونوں نے تصدیق کی کہ وہ مر گیا ہے اور پھر وہاں سے فرار ہو گئے۔ پولیس نے بتایا کہ دونوں ملزمین کو جمعرات (5 مئی) کو گرفتار کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ایل بی نگر زون) سن پریت سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آئی پی سی اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ 2015 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ڈی سی پی نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت اسپیڈی ٹرائل کورٹ میں کی جائے گی۔
ناگاراجو کی اہلیہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اسے گزشتہ 11 سالوں سے جانتی تھی اور دعویٰ کیا کہ ان پر پانچ افراد نے حملہ کیا تھا۔
دونوں اسکول اور کالج میں ہم جماعت تھے اور پانچ سال سے زیادہ عرصے سے رشتہ میں تھے، جبکہ ان کا خاندان اس رشتے کے خلاف تھا۔
پولیس نے بتایا کہ دونوں نے اس سال جنوری میں لڑکی کے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ مبین احمد نے اپنی بہن کو پہلے بھی خبردار کیا تھا، بعد میں وہ ناگاراجو سے شادی کرنے کے لیے گھر سے نکل گئی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ تب سے ہی مبین احمد کو ناگاراجو کے خلاف غصہ تھا۔ پولیس نے کہا کہ وہ ناگاراجو کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا اور اس نے اپنے رشتہ دار کے ساتھ مل کر ایک سازش رچی اور بدھ کو اسے انجام دیا۔ ناگاراجو کے والد نے یہ بھی الزام لگایا کہ مبین احمد بین مذہبی شادی کے خلاف تھا۔
رپورٹ کے مطابق، ناگاراجو نے سلطانہ سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد دونوں نے رواں سال جنوری میں آریہ سماج کی ایک تقریب میں شادی کرلی اور حیدرآباد کے سرور نگر میں رہنے لگے۔
انہیں شک تھا کہ سلطانہ کے گھر والے اس کا تعاقب کر رہے ہیں اس لیے وہ کچھ عرصے کے لیے وشاکھاپٹنم چلے گئے، پانچ دن پہلے ہی شہر لوٹے تھے۔
بی جے پی نے واقعہ کی مذمت کی
اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تلنگانہ یونٹ کے صدر اور لوک سبھا کے رکن بی سنجے کمار نے کہا کہ ناگاراجو کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس نے ایک مسلم خاتون سے شادی کی تھی۔ انہوں نے اسے ‘مذہبی قتل’ قرار دیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجرموں کی نشاندہی کی جائے اور اس کے پیچھے کارفرما قوتوں اور تنظیموں کو سامنے لایا جائے۔
انہوں نےایک بیان میں سوال کیا کہ نام نہاد سیکولر جماعتیں اور سیکولر دانشور اس طرح کے بھیانک قتل پر رد عمل کیوں نہیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کو فرقہ پرست کہا جاتا ہے، جب یہ کچھ مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کا حوالہ دیتی ہے جو مبینہ طور پر ‘لو جہاد’ میں ملوث ہیں۔
معلوم ہو کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح بی جے پی اور دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سےغیر مسلم خواتین، بالخصوص مسلم مردوں کے ذریعے محبت کی آڑ میں ہندو لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کا دعویٰ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘سیڈو سیکولرسٹ’ لوگوں کوبتانا چاہیے کہ موجودہ قتل کس طرح کا واقعہ ہے۔ کمار نے یہ سوال بھی کیا کہ ترقی پسند لوگ اور ترقی پسند میڈیا، جو پہلے میریالا گوڈا میں ‘آنر کلنگ’ کے واقعہ کے بارے میں آواز اٹھاتے تھے، اب خاموش کیوں ہیں۔
بی جے پی لیڈر نے یہ بھی کہا کہ ہندو سماج کو ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے اور فرقہ پرست طاقتوں اور تنظیموں اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے سوال کرنا چاہیے۔ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کچھ تنظیموں نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)