ہماچل پردیش: شہری غریب خاندانوں کو گارنٹی روزگار کے لیے لمبا راستہ طے کرنا ہے

ہماچل پردیش کے شہری غریب خاندانوں کو روزگار فراہم کرنے کے مقصد سے مکھیہ منتری شہری آجیویکا گارنٹی یوجنا شروع کی گئی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں اس اسکیم کے تحت کام کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اوسطاً ہر مزدور کو ملنے والے کام کے دنوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہی نہیں ریاست کی نئی کانگریس حکومت نے 2023-24 کے بجٹ میں اس اسکیم کو نظر انداز کیا ہے۔

ہماچل پردیش کے شہری غریب خاندانوں کو روزگار فراہم کرنے کے مقصد سے مکھیہ منتری  شہری آجیویکا گارنٹی یوجنا  شروع کی گئی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں اس اسکیم کے تحت کام کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اوسطاً ہر مزدور کو ملنے والے کام کے دنوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہی نہیں ریاست کی نئی کانگریس حکومت نے 2023-24 کے بجٹ میں اس اسکیم کو نظر انداز کیا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

سال 2020 میں ہماچل پردیش حکومت نے شہری غریب خاندانوں کو مزدوری پر  روزگار فراہم کرنے کے مقصد سے مکھیہ منتری شہری آجیویکا  گارنٹی یوجنا (ایم ایم ایس اے جی وائی )شروع کی تھی۔

ریاست میں نوٹیفائیڈ کم سے کم مزدوری کے مطابق،  مزدوری  کی شرح 300 روپے یومیہ مقرر کی گئی تھی۔ کورونا کی مدت کے بعد ملک میں اس طرح کی شہری روزگارگارنٹی اسکیم  چلا نے والی چھ ریاستوں میں سے ہماچل پردیش ایک تھا ۔

ایم ایم ایس اے جی وائی نے اپنے آپریشن کے تین سالوں میں ریاست بھر میں 4 لاکھ سے زیادہ  دن کا روزگار پیدا کیا، لیکن اس دوران اسکیم کے لیے بجٹ مختص 2020-21 میں 9 کروڑ روپے سے 2021-22 اور 2022-23 میں 5 کروڑ روپے تک کم کر دیا گیا ہے۔

اسکیم میں کام کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور مانگ کے باوجود ہماچل کے شہری غریب خاندانوں کو گارنٹی روزگار  حاصل کرنے کے لیے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔

نیچے دی گئی تصویر کے مطابق، تمام رجسٹرڈ مزدوروں میں سے 75 فیصد نے 2022-23 میں ایم ایم ایس اے جی وائی کے کام کو قبول کیا تھا۔ پچھلے تین سالوں میں رجسٹرڈ مزدوروں  میں  سے کام کرنے والوں کے فیصد میں مسلسل اضافہ(تصویر میں بلیک لائن) دیکھا گیا ہے۔

اس کے برعکس ڈاٹیڈ لائن لگاتار گرتی  رہی ہے، جو ہر مزدور کو اوسطاً ملنے والے کام کے دنوں کا فیصد بتاتی ہے۔ 2022-23  میں جنوری تک کام کے صرف 19 فیصد گارنٹی شدہ دنوں یعنی 120 میں سے 23 دن  کے ہی کام اوسطاً فراہم کیے گئے۔

تصویر کی دو لائنوں میں انحراف سے پتہ چلتا ہے کہ کام کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ایم ایم ایس اے جی وائی  میں روزگار پیدا کرنے کی  رفتار برقرار نہیں رکھی۔

یہ ڈیٹا ڈائریکٹوریٹ آف اربن ڈیولپمنٹ، ہماچل پردیش حکومت  سے لیا گیا ہے۔

یہ ڈیٹا ڈائریکٹوریٹ آف اربن ڈیولپمنٹ، ہماچل پردیش حکومت  سے لیا گیا ہے۔

اسکیم کے غیر مؤثر نفاذ کے باوجوداس پر توجہ دی جانی چاہیے کہ شہری روزگار کی گارنٹی کا خیال ہماچل پردیش کے لوگوں یا اس کی حکومت کے لیے پوری طرح سے نیا نہیں ہے۔

ریاست نے 2016 میں ایک لکشیہ پروگرام (لال بہادر شاستری کامگار ایوم شہری اجویکا یوجنا) متعارف کرایا تھا، جس کا مقصد شہری گھروں کومنریگا جیسے روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔

ریاست میں شہر کاری (اربنائزیشن) کے عمل کی نوعیت ایسی ہے کہ متعدد دیہی علاقوں کی شہری  علاقوں کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کی گئی ہے، اس کے باوجود کہ  ان کی پیشہ ورانہ اور معاشی طرز زندگی دیہی ہی رہی ہے۔

اس دوبارہ درجہ بندی کی وجہ سے بہت سے ضرورت مند غریب خاندان منریگا کے فوائد سے محروم  ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ‘لکشیہ’ اسکیم کو علاقے کی میونسپلٹیوں اور نئے ضم شدہ وارڈاور ریاست میں نئے بنائے گئے نگر پنچایتوں کونشانہ بنایا گیا تھا۔

‘لکشہ’ اورایم ایم ایس اے جی وائی  جیسی اسکیمیں ریاستی حکومت کی طرف سے اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ایسے پروگراموں کی ضرورت ہے۔

درحقیقت، 2021 میں کیے گئے ایک تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ایم ایم ایس اے جی وائی  کے ذریعے مشترکہ املاک کے وسائل کی تخلیق اور دیکھ بھال کےتوسط سے  مقامی برادریوں  کو ٹھوس فائدے ہوئے  ہیں۔

کانگڑا ضلع میں، جہاں رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد اور بجٹ میں مختص کی رقم تمام اضلاع میں سب سے زیادہ رہی ہے، کل (واٹر چینل) کی تعمیر اور تحفظ  جیسے اعلیٰ  اور  مفید پروجیکٹ مکمل کیے گئے ہیں۔

سڑکوں اور ندی نالوں کی دیکھ بھال، لیولنگ اور عوامی علاقوں میں جھاڑیوں اور گھاس کی  کٹائی  وغیرہ ایم ایم ایس اے جی وائی کے تحت کیے گئے کام ہیں۔

اس اسکیم میں سب سے زیادہ خواتین کی شرکت بھی دیکھی گئی، جو خاص طور پر اہم ہے، کیونکہ شہری خواتین کارکنوں میں بے روزگاری ریاست میں دیگر زمروں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔

ہماچل پردیش اقتصادی سروے  2022-23 کے مطابق، سال 2021-22 میں شہری خواتین کی بے روزگاری کی شرح 17.3 فیصد تھی، جو کہ شہری مردوں کی 4.9 فیصد، دیہی مردوں کی 4.5 فیصد اور دیہی خواتین کی 2.6 فیصد کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔

ہریانہ، پنجاب اور اتراکھنڈ کے پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں بھی ہماچل میں شہری خواتین کی بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ رہی ہے۔

یہ حیرت کی بات ہے کہ 2023-24 کے بجٹ میں ریاست کی نئی کانگریس حکومت نےاس اسکیم کو نظر انداز کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ راجستھان میں کانگریس کی ہی حکومت نہ صرف اسی طرح کی اسکیم کو جوش و خروش سے نافذ کررہی ہے، بلکہ اس سال کے بجٹ میں کام کے یقینی دنوں میں اضافہ کرکے اسے فروغ دے رہی ہے۔

اس سال ہماچل کے بجٹ میں  بغیر کوئی دوسرا آپشن دیے ایم ایم ایس اے جی وائی اسکیم کی عدم موجودگی  ریاست میں شہری روزگار گارنٹی قانون لانے کے وعدے سےنہ صرف  پیچھے ہٹنا ہے ، بلکہ ہماچل کی خواتین کارکنوں کو بااختیار بنانے اورریاست کے  سماجی تحفظ کے ڈھانچے مضبوط بنانے کا کھویا ہوا موقع ہے۔

(  کرشنا پریہ  چورگڑی آئی  آئی ٹی  دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)