فورینسک سائنس لیب کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سیمن یا اسپرم سیمپل،پھریری اسٹک اور کپڑوں میں سے کسی پر بھی نہیں پائے گئے۔اسی رپورٹ کی بنیاد پراتر پردیش کےایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس(لاءاینڈ آرڈر)پرشانت کمار نے دعویٰ کیا تھا کہ متاثرہ کے ساتھ ریپ نہیں ہوا۔
ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آگرہ کی فورینسک سائنس لیبارٹری(ایف ایس ایل)کو ہاتھرس کی 19سالہ متاثرہ کے کپڑے، ناخون کی کترن، بال، وجائنل اور انل پھریری اسٹک سمیت 13 سیمپل اس کے گینگ ریپ کے 11دن بعد 25 ستمبر کو ملے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایف ایس ایل کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ ٹیم کے سامنے 13 سیمپل پیش کئے گئے جس میں ناخون کی کترن، بال، وجائنل، انٹرنل بلیڈنگ، پیری نل، انل، بلڈ سیمپل، کنٹرول پھریری ا سٹک، دو سلوار، ایک پھٹا کرتا، دوپٹہ اور انڈر ویئر شامل تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سیمن یا اسپرم سیمپل، پھریری اسٹک اور کپڑوں میں سے کسی پر بھی نہیں پائے گئے۔بتا دیں کہ اسی رپورٹ کی بنیاد پر اتر پردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس(لاء اینڈ آرڈر)پرشانت کمار نے کہا تھا کہ فارینسک سائنس لیب کی رپورٹ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ریپ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا تھا کہ دہلی کے ایک اسپتال کے مطابق، دلت لڑکی کی موت گلے میں چوٹ لگنے اور صدمے کی وجہ سے ہوئی تھی۔حالانکہ، 29 ستمبر کو دہلی کے ایک اسپتال میں دم توڑنے سے پہلے متاثرہ نے 22 ستمبر کو بیان دیا تھا کہ چار نوجوانوں نے اس کے ساتھ ریپ کیا تھا۔
وہیں لائیولاء نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ریپ کو ثابت کرنے کے لیےمتاثرہ کے جسم پر اسپرم کا ملنا ضروری نہیں ہے۔آئی پی سی کی دفعہ375 کے تحت عورت کے پرائیویٹ پارٹ میں مردکے پرائیویٹ پارٹ کا دخول ریپ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ہی الگ الگ وقت پر سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس نے اس سلسلے میں فیصلے بھی دیے ہیں۔
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو
گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔