سپریم کورٹ نے ہاتھرس گینگ ریپ معاملے کو غیرمعمولی اور چونکانے والا بتاتے ہوئے اتر پردیش سرکار سے کہا ہے کہ معاملے میں گواہوں کو کس طرح کا تحفظ دیا جا رہا ہے، اس بارے میں وہ حلف نامہ دائر کرکے بتائے۔ ساتھ ہی عدالت نے متاثرہ فیملی تک وکیل کی پہنچ کو لےکر بھی ریاستی حکومت سے جواب مانگا ہے۔
ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے ہاتھرس میں 19 سالہ دلت لڑکی کے گینگ ریپ اور قتل معاملے کی سی بی آئی یاایس آئی ٹی سے جانچ کرنے کی مانگ والی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے اس واقعہ کو غیر معمولی اور چونکانے والا بتایا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے اتر پردیش سرکار سے کہا ہے کہ وہ حلف نامہ دائر کرکےیہ بتائیں کہ معاملے میں گواہوں کو کس طرح کا تحفظ دیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے سبکدوش یا موجودہ جج کی قیادت میں سی بی آئی یا ایس آئی ٹی سے جانچ کرانے کی مانگ والی عرضی پرشنوائی کرتےہو ئے جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا، ‘یہ واقعہ بہت ہی غیر معمولی اور چونکانے والا ہے۔ ہم اس پر حلف نامہ چاہتے ہیں کہ کس طرح ہاتھرس معاملے کے گواہوں کو محفوظ رکھا جا رہا ہے۔ ہم آپ سے (سالیسیٹر جنرل)چاہتے ہیں کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا متاثرہ فیملی نے وکیل کاانتخاب کیا ہے۔’
اس معاملے میں اتر پردیش سرکار کی جانب سے پیروی کر رہے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ اس معاملے کو کئی طرح کے نیریٹو دیے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اپنی نگرانی میں اس کی جانچ کے حکم دینے چاہیے۔مہتہ نے کہا، ‘یہاں صرف نیریٹو اور نیریٹو ہی ہیں لیکن افسوس ناک سچائی ہے کہ ایک لڑکی کی زندگی چلی گئی ہے۔ اس کی جانچ ہونی چاہیے اور یہ جانچ عدالت کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔’
سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے گواہوں کو تحفظ دیے جانے اور معاملے کی شنوائی اتر پردیش سے باہر ٹرانسفر کیے جانے کی مانگ کی ہے۔
جئے سنگھ نے کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی وکیل اس معاملے کی پیروی نہ کرے۔’اس پر سالیسیٹر جنرل مہتہ نے کہا، ‘گواہوں کو پہلے ہی تحفظ دیا جا چکا ہے۔ آپ کو گواہوں کے تحفظ کے لیے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی حفاظت کی جائےگی۔’
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی قیادت میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رام سبرامنیم کی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے کارروائی کے بارے میں اور اس کا دائرہ بڑھانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے، اس سلسلے میں تمام فریقوں سے مشورہ مانگا ہے۔
سپریم کورٹ نے اتر پردیش سرکار سے گواہوں کی تحفظی کو لےکر ان کےمنصوبے اور متاثرہ فیملی تک وکیل کی پہنچ کو لےکر بدھ تک جواب مانگا ہے
سپریم کورٹ نے معاملے میں اتر پردیش سرکار کی پیروی کر رہے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ اس معاملے کے گواہوں کو کس طرح کاتحفظ دیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں وہ عدالت کو جانکاری دیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ کورٹ میں متاثرہ فیملی کی نمائندگی کون کرےگا؟
ایک سماجی کارکن ستیم دوبے اور وکیل وشال ٹھاکرے اور رودرپرتاپ یادو نے معاملے کی شنوائی یوپی سے دہلی شفٹ کئے جانے کو لےکرعرضی دائر کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ یوپی سرکار اور ریاستی انتظامیہ ملزمین کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس معاملے پر اب اگلے ہفتے شنوائی ہوگی۔ اس سے پہلے اتر پردیش سرکار نے ہاتھرس معاملے کو لےکر سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔ سرکار نے حلف نامے میں کہا کہ اس معاملے کی سی بی آئی جانچ ہونی چاہیے۔
ہندستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش سرکار نے سپریم کورٹ سے عدالت کی نگرانی میں ہاتھرس معاملے کی سی بی آئی جانچ کرائے جانے کے حکم دینے کو کہا۔ریاستی سرکار نے عدالت کے سامنے دائر کئے گئے حلف نامے میں کہا کہ لاء اینڈ آرڈرکو بنائے رکھنے کے لیے متاثرہ کی لاش کا رات میں ‘انتم سنسکار’ کیا گیا۔
ریاستی سرکار نے حلف نامے میں کہا کہ انہیں
خفیہ ایجنسیوں سے جانکاری ملی تھی کہ اس معاملے کو لےکر صبح بڑے پیمانے پر دنگا کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اگر صبح تک انتظار کرتے تو حالات بے قابو ہو سکتے تھے۔
ریاستی سرکار نے مانگ کی ہے کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی کی جانچ ہو کیونکہ جھوٹے نیریٹو کے توسط سے جانچ کومتاثر کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ریاستی سرکار نے سیاسی پارٹیوں اورسول سوسائٹی کی تنظیموں پر نسلی امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔
سرکار نے حلف نامے میں کہا، ‘ضلع انتظامیہ نے یہ فیصلہ صبح بڑے پیمانے پر تشدد سے بچنے کے لیے رات میں ہی متاثرہ کاتمام مذہبی رسم ورواج سے آخری رسومات کرانے کے لیےمتاثرہ فیملی کو سمجھا بجھا کر لیا۔ دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں پہلے ہی متاثرہ کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا اس لیے آخری رسومات کو لےکر کسی کی بھی کسی طرح کی غلط منشا نہیں تھی سوائے اس کے کہ کچھ مفاد پرست اپنے مقاصد کو پورانہ کر پائیں۔’
سرکار نے حلف نامے میں سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کرنے، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے کچھ منتخب طبقوں کے ذریعے اور کچھ سیاسی پارٹیوں کے ذریعےجان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے اور ریاست میں نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کاالزام لگایا۔
ریاستی سرکار نے ہاتھرس گینگ ریپ کے علاوہ ریاست میں نسلی تشدد پھیلانے کے لیے مبینہ طور پر مجرمانہ سازش کرنے، تشدد بھڑ کانے اور کچھ میڈیاکمیونٹی اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعےپروپیگنڈہ کرنے کی بھی سی بی آئی جانچ کی مانگ کی۔
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو
گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس کے واقعہ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم بنائی تھی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد لاپرواہی اورلاپرواہی کے الزام میں دو اکتوبر کوایس پی وکرانت ویر، سرکل آفیسررام شبدٹ، انسپکٹر دنیش مینا، سب انسپکٹر جگ ویر سنگھ، ہیڈ کانسٹبل مہیش پال کوسسپنڈ کر دیا گیا تھا۔معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کو دے دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ریاستی پولیس نے کم سے کم 19 شکایتیں درج کی ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش سرکار کو بدنام کرنے اور ذات پات کی بنیاد پرکشیدگی کو بڑھانے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کی گئی ہے۔