سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں کیرالہ کے ایک صحافی نے مہاراشٹر پولیس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مانگ کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ عدالت کی ہدایت کے باوجود کچھ ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے منعقدریلیوں میں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ہیٹ اسپیچ اس لیےجا ری ہےکہ حکومت کمزوراور ناکارہ ہے۔ یہ وقت پر کارروائی نہیں کرتی اور یہ اس وقت بند ہوجائے گا جب سیاست اور مذہب الگ کر دیے جائیں گے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،جسٹس کے ایم جوزف نے یہ بھی کہا، ‘جب یہ سب ہو رہا ہے تو پھر ہمارے پاس حکومت ہے ہی کیوں؟’ جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی والی اس بنچ میں جسٹس بی وی ناگ رتنا بھی شامل ہیں۔
انہوں نے یہ تبصرہ کیرالہ کے ایک ملٹی میڈیا صحافی شاہین عبداللہ کی درخواست پر سماعت کے دوران کیا، جس میں عدالت کی ہدایت کے باوجود کچھ ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے منعقدہ ریلیوں میں اشتعال انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے کارروائی نہ کرنے پر مہاراشٹرا پولیس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لائیو لاء کے مطابق، جسٹس کے ایم جوزف نے سماعت کے دوران کہا، ‘ریاست کمزور اور ناکارہ ہے۔ یہ وقت پر کارروائی نہیں کرتی۔ ہمارے پاس سرکارہی کیوں ہےاگروہ خاموش ہے؟
اس سے پہلے بنچ نے سکل ہندو سماج کی طرف سے نکالے گئے جلوسوں کے بارے میں کئی
ہدایات جاری کی تھیں۔
درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو بتایا کہ توہین عدالت کی درخواست انڈین ایکسپریس میں شائع ایک خبر کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ مہاراشٹر میں گزشتہ 4 ماہ میں 50 نفرت انگیز ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
تاہم، بنچ کے تبصرے پر سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا،انہوں نے کہا کہ مرکز خاموش نہیں ہے، کیرالہ جیسی ریاستیں خاموش تھیں، جب مئی 2022 میں پی ایف آئی (کالعدم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا) کی ایک ریلی میں ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ جب عدالت کو اس کا علم تھا تو اس نے از خود نوٹس کیوں نہیں لیا۔
مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے مہتہ نے عدالت کو بتایا کہ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ‘جو بھی پیریار کہتے تھے وہ کیا جانا چاہیے… اگر آپ آزادی چاہتے ہیں، تو آپ کو تمام برہمنوں کو مارنا پڑے گا۔’
جسٹس جوزف جیسے ہی اس پر ہنسے، مہتہ نے کہا، ‘یہ ہنسی کی بات نہیں ہے۔ میں اسے ہنسی میں نہیں اڑاؤں گا۔ اس شخص کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہوئی ہے۔ یہی نہیں وہ ایک تسلیم شدہ سیاسی جماعت کے ترجمان بھی ہیں۔
جسٹس جوزف نے پوچھا کہ کیا سالیسٹر جنرل جانتے ہیں کہ پیریار کون ہیں؟
مہتہ نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ پیریار کون تھے اور اس نفرت انگیز تقریر کو محض اس لیے جائز قرار نہیں دیا جا سکتاکہ یہ کسی عظیم شخصیت کا قول ہے۔
انہوں نے عدالت سے کیرالہ کی ایک کلپ چلانے کی اجازت طلب کی، جہاں مئی 2022 میں ایک بچے نے پی ایف آئی کی ریلی کے دوران مبینہ طور پر ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف نسل کشی کے نعرے لگائے تھے، لیکن بنچ نے ایسا نہیں کیا۔
درخواست گزار کو نشانہ بناتے ہوئے مہتہ نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ کلپ کیرالا سے ہیں اور عرضی گزار بھی کیرالا سے ہیں، لیکن یہ بات عدالت کے علم میں نہیں لار ہے ہیں۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ انہیں اس واقعہ کا علم ہے، جس پر مہتہ نے کہا کہ اگر آپ کو معلوم ہے تو از خود نوٹس لیا جائے۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ ‘بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سیاستدان اقتدار کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔’
مہتہ نے کہا کہ کیرالہ کے کلپ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ‘خالص اور سادہ مذہبی نفرت انگیز تقریر’ تھی۔
اس پر اعتراض کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا، ‘اس کا سیاست سے سب کچھ لینا دینا ہے۔ نفرت ایک شیطانی دائرہ ہے۔ ریاست کو کارروائی شروع کرنی ہوگی۔ جس وقت سیاست اور مذہب الگ ہو جائیں گے یہ سب بند ہو جائے گا۔ ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ آپ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں یا نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم ہندوستان کو کہاں لے جا رہے ہیں۔ پہلے جواہر لعل نہرو اور اٹل بہاری واجپائی جیسے مقررین تھے، جنہیں سننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے۔ بدقسمتی سے جن لوگوں کے پاس کچھ نہیں وہ ایسی تقریریں کر رہے ہیں۔ فرنج عناصر ہر جگہ موجود ہیں، وہ نفرت انگیز تقریر کرنے میں ملوث ہیں۔
اس طرح کے معاملے میں توہین عدالت کی درخواستوں کے سیلاب کی توقع کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اب کیا ہم ہندوستان میں ہر ایک کے خلاف ‘توہین کے بعد توہین’ کرنے جا رہے ہیں؟ کیا ہندوستان میں لوگوں کی تقریروں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہیے؟ ہم دنیا میں نمبر ون بننا چاہتے ہیں اور یہ ہمارے معاشرے میں اندرونی طور پر یہ ہو رہا ہے۔ اگر فکری سطح میں کمی آئی ہے تو آپ اس ملک کو کبھی بھی دنیا میں نمبر ون پر نہیں لے جا سکتے۔ فکری کمی تب ہوتی ہے جب عدم برداشت ہو، علم کی کمی ہو، تعلیم کی کمی ہو…ہمیں سب سے پہلے کہاں توجہ دینی چاہیے؟ سپریم کورٹ ایک درخواست پر اس طرح وقت کیسے ضائع کر سکتی ہے؟
اس وقت ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو نوٹ کرتے ہوئے جج نے کہا، اس ملک کے شہری ہمارے معاشرے میں کسی اور کو ناراض نہ کرنے کا عہد کیوں نہیں لے سکتے؟ کسی اور کی تذلیل کرکے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟
جسٹس جوزف نے مہاراشٹرا میں ریلیاں منعقد کرنے والے سکل ہندو سماج کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سے کہا، ہم یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئی پی سی میں دفعات ہیں۔ انہیں استعمال کیا جانا چاہیے۔ طاقت ہوتی ہے۔ طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ورنہ اس مخصوص کمیونٹی کے افراد کے ساتھ کیا ہوگا جو اقلیت ہیں؟ ان کے بھی حقوق ہیں، جن کی آئین کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے رواداری کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا کہ رواداری کا مطلب صرف کسی کو برداشت کرنا نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنا ہم وطن تسلیم کرنا ہے۔
جسٹس جوزف نے آبادی کی اکثریت کو روادار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طبقہ ہے جو روادار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘انسان کے لیے سب سے اہم چیز پیسہ، صحت نہیں بلکہ اس کی عزت ہے۔ ‘پاکستان جاؤ’ جیسے بیان دے کر آپ کے وقار کو مستقل مجروح یا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کا انتخاب کیا، یہاں رہے۔ وہ آپ بھائی بہنوں کی طرح ہیں۔ ہم جوکہہ رہے ہیں کہ وہ یہ ہے کہ چیزوں کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے۔
لائیو لاء کے مطابق، سکل ہندو سماج کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے مرکزی رٹ پٹیشن کو برقرار رکھنے پر اعتراض کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ ان کے موکل پر الزامات لگائے گئے ہیں، لیکن انہیں کارروائی میں فریق نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے رٹ پٹیشن کو خارج کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ سماج کو اپنے عقیدے کے مطابق جلوس نکالنے کا حق ہے جسے کوئی دوسرا مذہبی عقیدہ رکھنے والا شخص چیلنج نہیں کر سکتا۔
اس سلسلے میں انہوں نے سبری ملا آرڈر کا حوالہ دیا، لیکن جسٹس جوزف نے ان کی دلیل کو قبول نہیں کیا، کیونکہ اس کا نفرت انگیز تقریر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مہاراشٹر حکومت کی طرف سے پیش ہوئے راجو نے بنچ کو یقین دلایا کہ ریاست کسی قابل دست اندازی جرم کی حمایت نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنا ریاست کا فرض ہے۔
اس پر جسٹس جوزف نے واضح کیا کہ ‘ایف آئی آر درج نہیں کرنی ہے، آگے کی کارروائی کرنی ہوگی۔’
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ مہاراشٹر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کی جائے۔ انہوں نے بنچ سے درخواست کی کہ توہین عدالت کی درخواست کو اس حقیقت کے پیش نظر بند کر دیا جائے کہ ریاست نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقہ کار لے کر آئے گی۔ تاہم بنچ مطمئن نہیں ہوئی۔
بنچ نے توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر سماعت کے لیے 20 اپریل کی تاریخ مقرر کی۔
قبل ازیں
منگل کو بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ نفرت انگیز تقریر کو ترک کرنا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیادی ضرورت ہے۔
واضح ہو کہ اکتوبر 2022 میں عدالت عظمیٰ نے ے دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو
ہدایت دی تھی کہ وہ ہیٹ اسپیچ پر سخت کارروائی کریں، شکایت کا انتظار کیے بغیر مجرموں کے خلاف فوری طور پر مجرمانہ مقدمات درج کریں۔
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے تینوں ریاستوں کی حکومتوں کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں ہونے والی نفرت انگیز تقاریر سے متعلق جرائم پر کی گئی کارروائی کے بارے میں عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کریں۔
بنچ نے کہا تھا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے ہیٹ اسپیچ دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ‘ہندوستان کا آئین اسے ایک سیکولر ملک اور بھائی چارے کے طور پر تصور کرتا ہے، جس میں فرد کے وقار کو یقینی بنایا گیا ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت تمہید میں درج رہنما اصول ہیں۔ جب تک مختلف مذاہب یا ذاتوں کی کمیونٹی کے افراد ہم آہنگی سے نہیں رہ سکتے، بھائی چارہ نہیں ہو سکتا۔’