نوح میں تشدد کے بعد ریاست کے کئی علاقوں میں پھیلی فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان ہریانہ کی تقریباً 30 کھاپوں، سنیوکت کسان مورچہ کے رہنماؤں، کئی کسان یونینوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں نے حصار میں مہاپنچایت میں حصہ لیا، جہاں امن و امان اورہم آہنگی بنائے رکھنے کی اپیل کی گئی۔
حصار میں ہوئی مہاپنچایت۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: ہریانہ کی تقریباً 30 کھاپوں، سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے رہنماؤں، کئی کسان یونینوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں نے بدھ کو حصار ضلع کے نارنوند قصبے کے باس گاؤں میں ایک مہاپنچایت کی اور نوح فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے کئی اہم تجاویز پاس کیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، مہاپنچایت کے اراکین نے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کا عزم کیا اور ان لوگوں کو خبردار کیا جو ‘مسلم کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز نعرے اور زبان استعمال کرکے ریاست میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
ایس کے ایم ممبر سریش کوتھ کی قیادت میں کسان یونین کی طرف سے منعقد پروگرام میں حصار، جند، کیتھل، کرنال، بھیوانی، فتح آباد اور کچھ دیگر اضلاع کے لوگوں نے شرکت کی۔
انہوں نے متعدد قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔ ان میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے جلوس نکالنے سے پہلے مسلم کمیونٹی کو چیلنج کرنے کے لیے بٹو بجرنگی اور مونو مانیسر کی گرفتاری بھی شامل تھی۔
دیگر تجاویز یہ تھیں کہ تمام مذاہب کے لوگ مستقبل میں کسی بھی تشدد میں حصہ نہ لیں؛ نوح کے تشدد کے حوالے سے، معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں میں امن اور ہم آہنگی کے قیام کے لیے کام کرنا چاہیے؛ نوح فرقہ وارانہ تصادم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے؛ مسلمانوں کو گاؤں یا شہری علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دینے والوں اور کسی خاص کمیونٹی کے خلاف فرضی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
ایس کے ایم لیڈر کوتھ نے کہا کہ بی جے پی سے وابستہ کچھ لوگ ریاست میں فسادات پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کھاپ اور کسان یونین انہیں ایک دوسرے کے ساتھ برسوں پرانے رشتے کو خراب نہیں کرنے دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘بی جے پی سے وابستہ جو لوگ جلوس نکال رہے ہیں اور گاؤں کے سربراہوں کو مسلمانوں کو اپنے گاؤں چھوڑنے کا فرمان جاری کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، انہیں بخشا نہیں جائے گا۔ ہم ایسے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، جو معاشرے کے سماجی تانے بانے کو تباہ کر رہے ہیں۔ اب ہریانہ کی کھاپیں اور کسان یونین ہر برادری کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہیں اور اسے ملک کے امن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
واضح ہو کہ 31 جولائی کو نوح میں وشو ہندو پریشد کی شوبھا یاترا، جہاں مانیسر کےپہنچنے کی امید تھی، کے بعد جھڑپوں میں چھ افراد ہلاک ہوگئے ۔ تشدد میں دو ہوم گارڈز اور ایک مولوی سمیت چھ لوگوں کی جان چلی گئی ۔ نوح کے جلوس سے کچھ دن پہلےمانیسر کو اس یاترا میں شامل ہونے کی بات کہنے والا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا اور مبینہ طور پر شہر میں فرقہ وارانہ جھڑپیں بھڑک اٹھیں جو بعد میں گڑگاؤں اور دیگر علاقوں میں پھیل گئیں۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، مانیسر نے کہا کہ اس نے وی ایچ پی کے مشورے پر یاترا میں شرکت نہیں کی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ان کی موجودگی علاقے میں کشیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ ہریانہ کے ریاستی پولیس سربراہ پی کے اگروال نے کہا ہے کہ جھڑپوں میں مانیسر کے کردار کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی جائے گی۔
تیس (30)سالہ مانیسر ہریانہ کے بھیوانی میں دو مسلمان مویشی تاجروں جنید اور ناصر کے اغوا اور قتل کے سلسلے میں پولیس کو مطلوب ہے۔