امت باگڑی نے بچپن میں ایک بار انجانے میں برہمنوں کے کنویں سے پانی پی لیا تھا۔ انہیں فوراً اس کنویں سے دور رہنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی اس کنویں پر نہیں گئے۔
بھیوانی: باپوڑا گاؤں میں پیڑوں کے جھرمٹ کے بیچ تین کنویں ہیں- ایک برہمنوں کا، دوسرا دلتوں کا اور تیسرا مسلمانوں کا۔ سب سے صاف، منظم اور دلکش کنواں برہمنوں کا ہے۔ دلتوں کا کنواں خستہ حال ہے، کافی عرصے سے مرمت نہیں ہوئی، لیکن اس کا پانی صاف ہے۔ مسلمانوں کے کنویں کی حالت سب سے زیادہ خستہ ہے، پانی بھی آلودہ ہے۔
یہ کنویں ہریانہ کے بھیوانی ضلع کے اس گاؤں کے سہ رخی سماجی نظام کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
‘ہم بامن ہیں۔ یہ ہمارا کنواں ہے۔ پہلے ہمارے پاس ایک اور کنواں ہوا کرتا تھا جو کئی سال پہلے بند ہو گیا،’ برہمنوں کے کنویں پر اپنےجیٹھ کی بہو منیش کے ساتھ اسٹیل کے گھڑے میں پانی بھر رہی اوم پتی نے بتایا۔
اوم پتی نے آتے جاتے مسلمانوں کا کنواں تو دیکھا ہے، لیکن وہ نہیں جانتی ہیں کہ گاؤں میں مسلمان کہاں رہتے ہیں۔ انہیں یقینی طور پر درج فہرست ذات کے لوگوں کی بستیوں کے بارے میں کچھ اندازہ ہے۔ وہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتی ہے، ‘ہریجنوں کی بستی اسی طرف ہے اور ان کا کنواں بھی اسی طرف ہے۔’
شمع نامی ایک مسلمان خاتون کہتی ہیں،’ہم کنویں سے پانی کم ہی لاتے ہیں کیونکہ یہ اب گندہ ہو چکا ہے۔ 4-5 دنوں میں ایک بار نل سے پانی کی سپلائی ہوتی ہے، لیکن یہ پانی پینے کے لیے نہیں ہے۔ پینے کے لیے کچھ فاصلے پر ہینڈ پمپ سے پانی لانا پڑتا ہے۔’
دلت بستی میں اپنی بھیڑوں کے درمیان ایک کھلے نالے کے پاس کھاٹ پر بیٹھے پتیش اور کرن سنگھ کہتے ہیں، ‘کئی جگہوں پر نل کی لائن ٹوٹی پھوٹی ہے، جس کی وجہ سے پانی میں گندگی مل جاتی ہے۔ وہ نہانے دھونے لائق ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی پینا بھی پڑتا ہے۔’
اگر دلتوں کے کنویں میں پانی نہ ہو تو کیا دلت برہمنوں کے کنویں سے پانی بھر سکتے ہیں؟ دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ‘ہم برہمنوں اور ٹھاکروں کے کنویں سے پانی نہیں بھر سکتے۔’
والمیکی برادری کے پتیش اور کرن نے بتایا کہ گاؤں میں ریداس اور دھانک کے تقریباً 300 خاندان ہیں اور اتنی ہی تعداد والمیکیوں کی ہے۔
خود کو بی جے پی سے وابستہ بتانے والے گاؤں کے سرپنچ سگریو سنگھ سے جب پوچھا گیا کہ کیا برہمنوں کے کنویں کا پانی صرف برہمن ہی پی سکتے ہیں، تو انھوں نے کہا، ‘مختلف کنویں ہیں، برہمنوں کا الگ اور نچلی ذاتوں کا الگ۔’
گاؤں کے دوسرے حصوں میں ٹھاکروں اور او بی سی کے بھی کنویں ہیں، لیکن وہ استعمال میں نہیں ہیں۔ او بی سی کا کنواں خستہ حال ہے، جبکہ ٹھاکروں کا کنواں پانی سے لبالب ہے لیکن آلودہ ہے۔
ٹھاکروں کے کنویں کی خراب حالت کی وجہ ان کی خوشحالی ہے۔ وہ پانی کے لیے کنویں پر انحصار نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے گھر میں واٹر پیوریفائر لگا رکھے ہیں۔ لیکن، ظاہر ہے، کچھ عرصہ پہلے تک ٹھاکر بھی ذات پات بنیاد پر پانی کی اس کی تقسیم کا حصہ تھے۔
ذات پات اور ذلت کے زخم
برہمنوں کے کنویں سے پرجاپتی، کھاتی، لوہار وغیرہ او بی سی ذاتوں کے لوگ پانی بھر سکتے ہیں، لیکن دلت اور مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی تصدیق پسماندہ طبقے کے سیتارام پرجاپتی نے بھی کی۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک ‘برما’ (ہینڈ پمپ) لگا رکھا ہے، جس کا پانی نہانے، برتن، کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ پینے کے لیے وہ برہمنوں کے کنویں سے پانی لاتے ہیں۔
پتیش اور کرن سنگھ کہتے ہیں،’جب ہمارے گھر نئی بہو آتی ہے توہم اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اسے سمجھاتے ہیں کہ کس کنویں سے پانی لینا ہے۔’ ذات پات کی یہ تفریق برسوں سے جاری ہے۔
والمیکی برادری سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ نوجوان امت باگڑی نے بچپن میں ایک بار انجانے میں برہمن کے کنویں سے پانی پی لیا تھا۔ باگڑی کہتے ہیں،’برہمنوں نے فورامنع کر دیا اور گھر والوں سے شکایت کی، جس کے بعد مجھے اس کنویں سے دور رہنے کی تنبیہ کی گئی۔ اس کے بعد کبھی اس کنویں پر نہیں گیا۔ ‘
باپوڑا راجستھان کا ایک سرحدی گاؤں ہے، جہاں پانی کے بحران کی تاریخ ہے۔ گاؤں کے واحد گرجر خاندان کے مکھیا شیو کمار، جو پیشے سے ٹیچر ہیں، کہتے ہیں، ‘یہاں پانی کی ایک بہت بڑی ٹنکی ہے جو کبھی 68 گاؤں کو پانی فراہم کرتی تھی، آج اسی گاؤں کو سپلائی نہیں پا رہی ہے۔’
گاؤں میں مختلف مقامات پر قسطوں پر واٹر پیوریفائر لگانے کے اشتہار اور سر پر گھڑے لے کر پانی لے جانے والی خواتین نظر آتی ہیں۔
ٹھاکر کا کنواں
اس صورتحال کو دیکھ کر اوم پرکاش والمیکی کی نظم یاد آتی ہے؛
کنواں ٹھاکر کا
پانی ٹھاکر کا
کھیت کھلیان ٹھاکر کے
گلی محلے ٹھاکر کے
پھر اپنا کیا؟
اس نظم کی صداقت آج بھی اس گاؤں میں نظر آتی ہے۔
غورطلب ہے کہ توشام اسمبلی حلقہ کے تحت آنے والے باپوڑا گاؤں کی ایک ثروت مند تاریخ ہے۔ اسے ‘ویر سینانی گرام’ کے طور پر شہرت حاصل ہے۔ یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ ہندوستانی فوج میں جاتے رہے ہیں۔ ملک کے سابق آرمی چیف اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ میجر جنرل (ر) وی کے سنگھ اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آزادی سے پہلے گاؤں کے لوگ برطانوی فوج میں شامل ہوتے تھے اور اس سے پہلے مغل فوج میں بھی۔
فوج سے وابستہ اس گاؤں کی تاریخ کی گواہی دینے کے لیے جنرل وی کے سنگھ نے جب وہ رکن پارلیامنٹ تھے، اس کے دروازے پر 1971 کی پاک بھارت جنگ میں استعمال ہونے والا ٹی55 ٹینک نصب کیا تھا۔ ان کی خواہش رہی ہوگی کہ اس ٹینک کو دیکھ کر یہاں آنے والے فخر محسوس کریں، لیکن گاؤں کے کنویں یہاں کی ایک الگ اور شرمناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
باپوڑا کی فضا میں ذات پات کا کتنا غلبہ ہے، اس کو جنرل وی کے سنگھ کی سوانح عمری ‘کریج اینڈ کنوکشن’ کے ان جملوں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛ ‘تنور (تومر) کمیونٹی میں پیدا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ یا تو سپاہی بنیں گے یا کسان۔’ سابق مرکزی وزیر وی کے سنگھ نےیہ بھی لکھا تھا کہ ان کی ذات ہندوستان کی 36 ‘حکمران ذاتوں’ میں سے ایک تھی۔
آج بھی باپوڑا میں دلتوں اور اعلیٰ ذاتوں کے درمیان مکمل سماجی ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکی ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے دوران ایک دوسرے کے کھانے پینے کو بھول جائیں، دلت نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی چارپائیوں پر بھی نہیں بیٹھ سکتے۔
دیوقامت پرشو رام اور مہارانا پرتاپ کے درمیان بونی جمہوریت
بیس ہزار سے زیادہ آبادی والے باپوڑا گاؤں میں ٹھاکروں اور برہمنوں کا غلبہ ہے۔ ایک چھوٹی سی تعداد پسماندہ طبقے اور دلت طبقے کی بھی ہے۔ کچھ گھر مسلمانوں کے بھی ہیں۔
ذات کی آبادی کے لحاظ سے گاؤں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سڑک کے ایک طرف برہمن رہتے ہیں، سامنے کی پٹی اور گاؤں کی اندرونی مرکزی سڑک پر ٹھاکر آباد ہیں۔ گاؤں کے اندرونی کونوں میں پسماندہ، دلت اور مسلمان آباد ہیں۔
برہمنوں کے علاقے میں پرشورام کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب ہے جس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑی، دوسرے میں کمان اور پیٹھ پر تیروں سے بھرا ترکش ہے۔ ٹھاکروں نے بھی اپنے علاقے میں ایک پارک بنایا ہے جس کے باہر گھوڑے پر سوار مہارانا پرتاپ کا ایک بہت بڑا مجسمہ ہے۔ اس کی نقاب کشائی ہونا ابھی باقی ہے۔
پچھڑے، دلتوں اور مسلمانوں کے فخر سے جڑی کوئی علامت گاؤں میں نظر نہیں آتی۔ اس کی عدم موجودگی کے ساتھ یہ گاؤں انتخابات کی جانب گامزن ہے۔