اس قدم کے پیچھے فوری وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا جن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ ساڑھے چار سالہ اتحاد کا ٹوٹنا بتایا جا رہا ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے سیٹوں کی تقسیم میں اختلافات کو بی جے پی-جے جے پی اتحاد میں دراڑ کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@HaryanaCMO)
چنڈی گڑھ: ایک اہم سیاسی پیش رفت میں، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے منگل (12 مارچ) کو اپنی کابینہ کے ساتھ استعفیٰ دے دیا، کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے آزاد ایم ایل اے کے ساتھ نئی حکومت بنانے کی کارروائی شروع کی تھی۔
ذرائع کے مطابق، چنڈی گڑھ کے سیکٹر 3 میں ہریانہ نواس میں شروع ہوئی پارٹی کی میٹنگ کے فوراً بعد بی جے پی کی جانب سے کھٹر کے متبادل کے نام کا اعلان متوقع ہے۔
پارٹی کے دو مرکزی نگراں – مرکزی وزیر ارجن منڈا اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ترون چگ – پہلے ہی حکومت کی ہموار منتقلی کی نگرانی کے لیے پہنچ چکے ہیں۔
اگرچہ ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن فوری وجہ بی جے پی کا جن نایک جنتا پارٹی (جے جے پی) کے ساتھ ساڑھے چار سالہ اتحاد کا ٹوٹنا معلوم ہوتا ہے۔
جے جے پی، جو انڈین نیشنل لوک دل کے چوٹالہ خاندان میں پھوٹ پڑنے کے بعد وجود میں آئی تھی، نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مقابلہ کیا تھا، لیکن بعد میں بی جے پی کے اکثریت سے محروم ہونے کے بعد اس نے اتحاد میں حکومت بنانے پر اتفاق کیا تھا۔
آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے سیٹوں کی تقسیم میں اختلافات کو بی جے پی-جے جے پی اتحاد میں دراڑ کی اہم وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے اتحاد میں تناؤ کی صورتحال تھی۔
تاہم، ذرائع بتاتے ہیں کہ بی جے پی کا ہریانہ کیڈر بھی جے جے پی کے ساتھ اتحاد سے غیر مطمئن تھا۔
بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی کا جے جے پی سے الگ ہونے اور نئی حکومت بنانے کا حالیہ فیصلہ آنے والے عام انتخابات میں حکومت مخالف لہر سے نمٹنے کے لیے لیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد جے جے پی کو اپنے طور پر الیکشن لڑنے اور اسے جاٹ ووٹوں کے لیے کانگریس سے مقابلہ کرنے دے کر جاٹ ووٹوں کو تقسیم کرنا ہے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے ریاست کی تمام 10 پارلیامانی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن پارٹی کے لیے اپنی گزشتہ انتخابی کارکردگی کو دہرانا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔
خیال رہے کہ عام انتخابات کے فوراً بعد ہریانہ میں اسمبلی انتخابات بھی کرائے جائیں گے۔
قیادت میں ممکنہ تبدیلی کے ساتھ، بی جے پی گزشتہ ساڑھے نو برسوں سے وزیر اعلیٰ رہے کھٹر کے خلاف بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت کو بھی بے اثر کرنے کی کوشش کرے گی اور امید ہے کہ گجرات جیسا قدم انہیں اقتدار میں برقرار رکھنے میں مدد کرےگا۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل بی جے پی نے وہاں بھی حکومت بدل دی تھی۔
آزاد ایم ایل اے نے حمایت کی
بی جے پی کے پاس اس وقت 90 رکنی ریاستی اسمبلی میں 41 ایم ایل اے ہیں۔ انہیں اقتدار میں رہنے کے لیے مزید 5 ایم ایل اے کی حمایت درکار ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پانچوں آزاد ایم ایل اے پہلے ہی بی جے پی کی حمایت کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سرسا کے ایم ایل اے اور ہریانہ لوک ہت پارٹی کے گوپال کانڈا نے بھی پارٹی کی حمایت کی ہے۔
کانڈا نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ اتحاد (بی جے پی-جے جے پی) تقریباً ٹوٹ چکا ہے۔ جے جے پی کے بغیر بھی ہریانہ کی حکومت قائم رہے گی اور تمام آزاد امیدوار بی جے پی کی حمایت جاری رکھیں گے۔’
ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے کئی آزاد ایم ایل اے کو نئی بی جے پی حکومت میں کابینہ وزیر کے عہدوں سے نوازا جا سکتا ہے۔
دریں اثنا، بی جے پی لیڈر کنور پال گجر نے تصدیق کی کہ وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے، اور گورنر نے استعفیٰ قبول کر لیے ہیں۔ پارٹی کے اجلاس کے بعد اگلا قدم طے کیا جائے گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔