ہریانہ کے ہتھین میں 22 فروری کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں کی طرف سے بلائی گئی دوسری ‘ہندو مہاپنچایت’ میں گئو رکشک مونو مانیسر کے خلاف کارروائی کرنے پر مسلمانوں اور پولیس کے خلاف تشدد کی کھلی اپیل کی گئی۔گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں زندہ جلا دیے گئے جنید اور ناصر کےقتل معاملے میں مونو ملزمین میں سے ایک ہے۔
ہریانہ کے ہتھین میں ہوئی ہندو مہاپنچایت میں حصہ لینے والے لوگ۔ (تصویر: یاقوت علی/دی وائر)
ہتھین: گئو رکشک مونو مانیسر کی حمایت میں ہریانہ کے ہتھین میں 22 فروری کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کےلوگوں کی طرف سے بلائی گئی دوسری ‘ہندو مہاپنچایت’ میں مونو کے خلاف کارروائی کرنے پرمسلمانوں اور پولیس کے خلاف تشدد کی اپیل کی گئی۔
پروگرام میں پورے شمالی ہندوستان سے بجرنگ دل، وی ایچ پی اور ہندو سینا کے 400 سے زیادہ اراکین اور لیڈروں نے شرکت کی۔اس میں مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی۔
پہلی ‘
ہندو مہاپنچایت‘ گزشتہ 21 فروری کو ہریانہ کے مانیسر شہر میں ہوئی تھی۔ اس میں مقررین نے پولیس کو بجرنگ دل لیڈر اور ہریانہ گئو رکشک کاریہ بل کے رکن مونو کے خلاف کارروائی کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی وارننگ دی تھی۔
مونو مانیسر کا نام دو نوجوانوں جنید اور ناصر کے بہیمانہ قتل سے متعلق ایف آئی آر میں درج ہے۔ گایوں کو غیر قانونی پر لے جانے کا الزام لگا کر ان مسلم نوجوانوں کو مبینہ طور پران کی کار میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔
اس ‘ہندو مہاپنچایت’ کے ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد راجستھان کی بھرت پور پولیس نے اس معاملے میں آٹھ ‘مطلوبہ’ افراد کی ایک نئی فہرست ان کی تصویروں کے ساتھ جاری کی۔ فہرست سے مونو مانیسر اور لوکیش سنگلا کے نام اور تصاویر غائب تھے۔ انہیں ابھی تک گرفتار بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مونو اور لوکیش کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔
بھرت پور کے ایس پی شیام سنگھ نے
دی وائر کو بتایا، جو خبریں نشر کی جا رہی ہیں، وہ گمراہ کن ہیں، ہم نے ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کیس میں ابھی بھی ان کی تلاش جاری ہے۔
پہلی ‘مہاپنچایت’ کےمقررین نے مونو- جو گائے کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر مسلم نوجوانوں کو قتل کرنے کے ایک سے زیادہ واقعات سے جڑا ہوا ہے – کو گرفتار کیے جانے پر ہائی وے کو بلاک کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔
بدھ کی ‘مہاپنچایت’ میں، بجرنگ دل کی رہنما آستھا ماں نے کہا، اگر کوئی مسلمان شخص کسی ہندو بیٹی یا بہن کو دیکھتا ہے، تو اس کی آنکھوں میں چھرا گھونپ دیا جائے گا۔
آستھا ماں نے اپنی تقریر کی شروعات اس طرح کی کہ ،’ہاں، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکن دراصل غنڈے ہیں۔’
مقررین نے ‘ہم ہندو ہیں اور ہندوستان ہمارا ہے’ کے نعروں کے ساتھ لوگوں کو بھیڑ میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی۔
اس پروگرام میں مقررین کی کہی گئی باتیں بڑی تعداد میں نوجوان اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ نے دی وائر کو بتایا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے تقاریر کودوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
پرتیک شرما نے بتایا کہ ان کے پاس جنید ناصر کیس کی مکمل معلومات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہمیں کیس کے بارے میں نہیں معلوم، لیکن ہم یہاں مونو مانیسر کی حمایت میں آئے ہیں۔’
انہوں نے اپنے دوست راہل پنڈت کے ساتھ پروگرام میں شرکت کی۔ پرتیک نے انکشاف کیا کہ وہ اس کیس کی کچھ تفصیلات جانتے ہیں اور انہوں نے ایک اعلان کیا۔
انہوں نے کہا، ‘یہ مونو مانیسر کے خلاف راجستھان پولیس کی سازش ہے۔ ہم مونو مانیسر کے لیے جان دینے اور جان لینے کے لیے تیار ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرنے والے مقررین قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، پرتیک نے کہا، ہمیں ہریانہ پولیس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
ایک اور نوجوان نے کہا کہ گئو رکشکوں کو گرفتار کرنے والوں کو گولی مار دینی چاہیے۔
ایک اور شخص نے دی وائر کے رپورٹر سے ریکارڈنگ بند کرنے کو کہا حالانکہ بڑی تعداد میں لوگ اس تقریب کو ریکارڈ کر رہے تھے۔
‘گئورکشا دل’ کی ہریانہ یونٹ کے نائب صدر آچاریہ آزاد نے گائے کے اسمگلروں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، میں ہریانہ کے وزیر اعلیٰ (منوہر لال) کھٹر سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے سیکھیں اور گائے کے اسمگلروں کے گھروں پر بلڈوزر چلا ئیں۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلاؤ۔
ان کی اس بات پر زور دار تالیاں بجیں۔
‘گئورکشا دل’ کے قومی صدر وید ناگر نے کہا، میں ہریانہ پولیس سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ یوپی کے ڈی جی پی سے ٹریننگ لیں اور یہاں بھی یوپی ماڈل لائیں۔’
دریں اثنا، راجستھان کے گھاٹمیکا میں تصویر اس کے بالکل برعکس تھی۔ مقتول جنید اور ناصر اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے گاؤں والے دونوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں۔
مظاہرین میں سے ایک وسیم اکرم نے بتایا، ہم چاہتے ہیں کہ میں بجرنگ دل پر ہندوستان میں پابندی لگائی جائے تاکہ مسلمان ملک میں محفوظ رہ سکیں اور تمام ملزمان کو راجستھان پولیس گرفتار کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ وہ 17 فروری سے احتجاج کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)