انٹرویو: فلسطینی لیڈر حنان عشراوی کہتی ہیں کہ اسرائیل آج غزہ کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، وہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ حالیہ اور تازہ حملوں سے قبل غزہ پر پانچ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔یہ ایک منظم دہشت گردی ہے، جو اسرائیل نے برپا کر رکھی ہے۔
فلسطینی لیڈروں میں یاسر عرفات کے بعد جس چہرہ کو دنیا میں سب سے زیادہ مقبولیت ملی وہ حنان عشراوی ہیں، جنہوں نے نازک وقت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سرکاری ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس حیثیت سے نوے کی دہائی میں پوری دنیا کے ٹی وی چینلوں اور میڈیا کی زینت بنتی تھی۔
عشراوی ایک فلسطینی عیسائی ہیں اور دوبار یعنی 1996 اور 2006 میں انہوں نے فلسطینی قانون ساز اسمبلی میں مقدس شہر یروشلم یا القدس کی نمائندگی کی۔ 2020 میں صدر محمود عباس کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے انہوں نے پی ایل او سے استعفیٰ دے دیا۔
حال ہی میں ان کو مغربی کنارے کی معروف برزیٹ یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ فلسطینی لیڈروں اور اسرائیل کے درمیان جو بیک چینل بات چیت، جس کو میڈرڈ امن مساعی کے نام سے جانا جاتا ہے، میں وہ فلسطینی وفد کی نمائندگی کرتی تھیں اور ترجمان کے بطور عالمی میڈیا کے سامنے موقف رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔
مگر اس وفد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یاسر عرفات نے ایک اور سطح پر اوسلو میں بھی مذاکرات کی بساط بچھائی تھی اور وہ 1993کو پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ اس کے مطابق پی ایل او نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے بدلے اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ کے علاقے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرکے پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کردیا۔ باقی مسائل بات چیت کے ذریعے طے ہونے تھے، اور ان کا اختتام ایک مکمل فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔
حماس کے اسرائیل پر حملے ا ور پھر غزہ پروحشیانہ اسرائیلی بمباری سے ہونے والے جانوں کے زیاں سے دنیا کے سبھی ہوشمند انسانوں کو بے چین کردیا ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے فلسطینی اتھارٹی کے دارالحکومت رملہ میں موجود فلسطین کی معتبرآواز 77 سالہ حنان عشراوی سے پوچھا کہ کیا حماس کی 7 اکتوبر کو کاروائی نے آپ کو حیران کر دیا؟
نہایت معتدل لہجے میں انہوں نے جواب دیا کہ کچھ ملی جلی کیفیت تھی، انہوں نے کہا؛
فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کیا، اس کے ناقابل تسخیرہونے کا بھرم توڑ دیا۔ اس قدر خود اعتمادی اور قابض فوج کے خلاف دست بدستہ اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے سے میں حیران ہوگئی۔ مگرجو کچھ فلسطینیوں اور فلسطینی ایشو کے ساتھ پچھلے چند سالوں سے ہو رہا تھا، یہ اس کا ایک منطقی نتیجہ تھا۔ جو بھی اس خطے پر نظر رکھتا ہوگا، وہ اس طرح کی کاروائی یا لاوا پھوٹنے کی پیشن گوئی کر رہا تھا۔ اس لئے میں حیران بھی نہیں ہوئی۔
میں نے پوچھا کہ جس طرح اب اسرائیل اس کا بدلہ چکا رہا ہے اور پوری مغربی دنیا اسرائیل کے پیچھےکھڑی ہے، کیا اسے بچا نہیں جاسکتا تھا؟
حنان عشراوی نے کہا کہ؛
اسرائیل آج غزہ کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، وہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ حالیہ اور تازہ حملوں سے قبل غزہ پر پانچ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔یہ ایک منظم دہشت گردی ہے، جو اسرائیل نے برپا کر رکھی ہے۔ بس قتل کرنے کے لیے ان کو متاثرین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ ایک پالیسی ہے جس پر اسرائیلی قابض فوج فلسطینی شہریوں کے خلاف عمل پیرا ہے۔مغربی میڈیا اور ان کی حکومتیں غلط بیانی کرکے فلسطینوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ وہ بغیر کسی سیاق و سباق کے اس واقعے پر بحث کرتے ہیں۔
ان کا جواب کچھ طویل ہوتا جا رہا تھا، میں نے لقمہ دیکر جاننے کی کوشش کی کہ دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ حماس فلسطینیوں کے لیے صرف موت اور تباہی لے کر آئی ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتی ہیں؟ تو غصہ بھری آواز میں سر زنش کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ ؛
کیا مغربی کنارے میں حماس ہے؟ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟
اس کے ساتھ گرجتی آواز میں عشراوی نے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سال یعنی 2023 میں جنوری سے ستمبر تک حماس کے حملہ سے قبل ہی مغربی کنارہ میں دو سو فلسطینی ہلاک کر دیے گئے تھے، جن میں 40 کے قریب بچے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہودی باز آبادکار بندوقیں لیے دندناتے فلسطینی دیہاتوں اور محلوں میں گھس کر قتل عام کرتے ہیں اور ان کو کوئی پوچھتا نہیں ہے۔
فلسطینی کسانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جارہاہے۔ آئے دن غیر قانونی طور پر نئی یہودی بستیاں فلسطینی زمینوں پر بسائی جا رہی ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ مغربی کنارہ کس حد تک اب سکڑ گیا ہے۔ جب فلسطینیوں کو قتل کیا جاتا ہے تو دنیا کی اخلاقیات کہاں چلی جاتی ہیں؟
اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے صرف فلسطینیوں کو کیوں کہا جا رہا ہے؟
آپ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں اور جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہرانا اور انہیں احساس جرم میں مبتلا کرنا اس طرز کا حصہ ہے۔ اسرائیل تو پہلے ہی مغربی کنارے کو جیسے فتح کر رہا ہے۔ وہاں ہر روز اسرائیلی فوج کی حمایت یافتہ یہودی آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد ہوتا ہے۔ یہ تشدد تو 7 اکتوبر سے پہلے ہی مغربی کنارے میں ہو رہا ہے جہاں حماس نہیں ہے۔
ہم پر آئے دن حملے ہوتے ہیں۔ ایسے علاقے ہیں جو فلسطینیوں سے خالی کرائے جا رہے ہیں۔ مغربی کنارے کے ہر قصبے اور گاؤں کو محصور کر رکھا گیا ہے۔
یہ تشدد اندھیرے میں خاموشی سے ہورہا تھا۔ آپ کو معلوم ہی نہیں تھا۔ نہ آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی۔ اب حماس نے حملہ کیا تو آپ معلوم کرنے نکل پڑے اور فلسطینیوں کو ہی قصور وار ٹھہرانے لگے۔
عشراوی دل کا غبارنکال کر اب تھوڑ ی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ ان کا غصہ برحق تھا۔ عرب ممالک بھی اب کسی طرح فلسطین کے ایشو سے جان چھڑا کر اسرائیل سے امان کے طالب ہو رہے تھے۔ میں نے اب ان سے پوچھا کہ حماس کے اس قدم سے فلسطینی کاز پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
انہوں نے کہا کہ؛
ہاں اس بات کا خدشہ تو ہے کہ اس کو فلسطینیوں کو برا بھلا کہنے کے لیے استعمال کیا جائےگا۔ مگر اس کو کیسے سیاق و سباق سے الگ کر سکتے ہیں۔
غزہ کے عوام 17 سال سے ایک طرح سے قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب کوئی امید ہی نہ ہو، آئے دن ہیلی کاپٹروں، ڈرون سے گولہ باری کی جاتی ہو، خوراک، پانی پر پابندی ہو۔ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔
میں نے سوال کیا کہ مغربی ممالک حماس کا صفایا کرنے کے لیے اسرائیل کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے تو حماس کو داعش کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ یہ نقطہ نظر کتنا حقیقت پسندانہ ہے؟
تو اس سوال پر وہ پھر بھڑک گئیں۔ انہوں نے کہا؛
کیا آپ جانتے ہیں کہ حماس کیا ہے؟ وہ پہلے بھی انہیں مٹانے کی ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں۔ اس سے حماس کا صفایا نہیں ہوا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ حماس ایک سیاسی اور عسکری تنظیم ہے۔ یہ حکومت کی سربراہی کر رہی ہے۔ اس کی ایک تنظیم ہے، ایک ادارہ ہے، سماجی بہبود کے پروگرام ہیں۔ یہ صرف جنگجوؤں کا ایک گروپ نہیں ہے۔ یہ سیاسی تانے بانے کا حصہ ہے۔ انہوں نے انتخابات لڑے ہیں اور جیتے بھی ہیں۔
وہ حماس کو کیسے ختم کریں گے؟ کیا وہ تمام لوگوں کو مار ڈالیں گے؟ اگر آپ فلسطینیوں سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ کم از کم کوئی تو ان کے لیے کھڑا ہوگیا۔ ان کو تو روز ہی مارا جا رہا تھا۔ لوگوں کو مار کر اور بمباری کر کے وہ حماس کو کمزور نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) سمیت دیگر تنظیموں کو بھی جگا رہے ہیں
۔ہم نے تو مذاکرات کا راستہ اختیار کیا، لیکن بدلے میں کیا ملا۔ ہم نے اچھا بننے کی کوشش کی اور سوچا کہ دنیا ہماری سنے گی اور ہماری بات سن لے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کرن تھاپر اور حنان عشراوی کی بات چیت یہاں ملاحظہ کریں
میں نے عشراوی سے پوچھا کہ اسرائیل میڈرڈ اور اوسلو امن عمل میں طے پانے والے دو ریاستی حل کی ناکامی کا ذمہ دار فلسطینی صفوں میں انتشار اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو قرار دیتا ہے۔ چونکہ آپ اس عمل کا حصہ رہی ہیں، آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ کیسے پٹری سے اتر گیا؟
ایک لمبی سانس لےکر وہ گویا ہوئی؛
یہ ایک المناک کہانی ہے۔ ہم نے اس عمل پر دستخط کیے، مگر اسرائیل نے زمین پر قبضے اور آباد کاری کی اپنی پالیسی کو برقرار رکھا۔ میں اسرائیلیوں کو چیلنج کرتی ہوں، جو اس کی ناکامی کا الزام فلسطینیوں پر ڈال دیتے ہیں۔
انہوں نے ہم سے کہا، یروشلم کو ہم تقسیم کرتے ہیں، میں نے کہا کہ یروشلم کوئی پیاز، مولی نہیں ہے کہ اس کو کاٹ کر بانٹا جا سکے۔ مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
مجھے یاد آتا ہے کہ ہم میڈرڈ امن عمل پر ابھی مذاکرات کر ہی رہے تھے، کہ ابو عمار (یاسرعرفات) نے مجھے بتایا کہ اوسلو عمل اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ ہمیں وطن مل رہا ہے۔ ہم ایک انچ زمین لیں گے اور اس کو ایک میل میں تبدیل کردیں گے۔ تو میں نے ابو عمار سے کہا کہ یہ اسرائیلی تمہیں ایک میل زمین دینے کا وعدہ کر یں گے، مگر ایک انچ بھی نہیں دیں گے۔
میری پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ نومبر 1995 کو اسرائیلی وزیر اعظم یزاک رابن کو ایک اسرائیلی انتہا پسند نے قتل کر دیا۔اس کے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں، بنجمن نیتن یاہو، جنہوں نے اوسلو معاہدے کی مخالفت کی تھی، وزیراعظم منتخب ہوئے۔
وہ امن کے عمل کو روکنا چاہتا تھا، اور اس نے ایسا کر دیا اور ابھی بھی کررہا ہے۔ مگر حماس کے حملے نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی بھولے ہیں، نہ انہوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔
جس چیز نے اسرائیلی حق کو پاگل کر دیا ہے وہ بس یہ ہے کہ فلسطینی ہار نہیں مان رہے ہیں۔ میرے لیے یہ امید کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا فلسطین کے مسئلے کو سیاق و سباق میں سمجھے نہ کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے، اور عالمی امن کی خاطر اس کو حل کرائے۔