حماس کی کارروائی نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، مگر اس خطے میں موجود صحافی، جو فلسطین کے قضیہ کو کور کررہے تھے، پچھلے ایک سال سے اس طرح کی کسی کارروائی کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ قالین کے نیچے لاوا جمع ہو رہا تھا۔ بس اس کے پھٹنے کی دیر تھی۔
تاریخی شہر یروشلم یا القدس سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے النقب یعنی نیگیو صحرا سے گزرتے ہوئے کچھ دیر تک طمانیت کااحساس ہو تا ہے کہ کس طرح جدید زرعی تکنیک نے ریگستان کو گلزار بنا دیا ہے۔ مگر جہاں یہودی قصبے آراد، دیما، مٹزپے اور رامون کی بلند بالا عمارتیں، جد ید شاپنگ مالز اور انتہائی جدید انفرا سٹرکچر کسی بھی مغربی ملک کے شہر کو شرمندہ کرسکتے ہیں، ان کے بغل میں ہی عرب بدو بستیاں اور قصبے راحت، تل شیوا اور لاکیا کسمپرسی اور لاچاری کی داستان بیان کرتے ہیں۔
اس سو کلومیٹر کے راستے میں ہی عسقلان، سدیرات، کفار عزا، بیری، نہال اوز اور میگن کی اسرائیلی رہائشی بستیوں ہیں۔جہاں 7اکتوبر کی صبح کو حماس کے عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے ان علاقوں کو جہنم زار بنادیا، اور اس کے بعد سے اسرائیلی فضائیہ کے طیارے غزہ پٹی پرمسلسل قہر برسا رہے ہیں۔
سادہ موٹر سائیکلوں سے لے کر غیر روایتی پیرا گلائیڈرز پر سوار اور دنیا کے انتہائی جدید ترین نگرانی والے سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے اور راکٹوں کی بارش کرتے ہوئے حماس کے عسکریوں نے تین دن تک ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا۔
معلوم ہوا کہ اس دوران 279 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے اور 199افراد کو حماس کے عسکری گرفتار کرکے اپنے ساتھ غزہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔
ماضی میں جب بھی غزہ پر اسرائیلی حملہ ہوتا تھا، تو اسی علاقے میں کبورز بیری کی مکین ایک کنیڈا نژاد یہودی دادی 74 سالہ ویوین سلورکو فون کرکے حالات معلوم کرتے تھے۔
حقوق انسانی کے کارکن کی حیثیت سے ان کو اکثر سدیرات کے قصبہ میں غزہ کی سرحد کے پاس اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینوں کے حق میں مظاہرے کرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا۔ مگر 7 اکتوبر کے حملہ میں جہاں ان کے کبورز یعنی ہاوسنگ سوسائٹی کے دیگر گھرمتاثر ہوئے ہیں وہیں ان کی رہائش بھی تباہ ہو گئی ہے۔
اس دن سے وہ غائب ہیں اور ان کا فون بھی بند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حماس کے عسکری ان کو اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے، تو وہ محفوظ ہوں گی اور جلد ہی واپس آکر پھر سرگرم ہو جائے گی۔
مگر جنگ میں کسی بھی چیز کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔ بس ایک موہوم سی امید ہے۔ بیرون دنیا کے صحافیوں کے لیے، جو فلسطین کے مسائل کو خاص طور پر غزہ کو کور کرنا چاہتے تھے، وہ ایک طرح سے پہلا وسیلہ ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 1990 میں جب وہ غزہ سرحد کے قریب واقع کبورز بیری میں منتقل ہوگئی تھیں، تو وہ عرب معاملات سے واقف ہوگئیں۔ اس کے بعد انہوں نے غزہ کی آبادی کی بہبود کے لیے پروگرام ترتیب دیے۔ابھی 4 اکتوبر کو ہی سلور نے یروشلم میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا، جس میں فلسطینی مسئلہ کو نظر انداز کرنے پر اسرائیلی حکومت کی شدید تنقید کی گئی۔ اس میں 1500 اسرائیلی اور فلسطینی خواتین نے شرکت کی تھی۔
بارود کا قہر صرف اسی سرزمین تک محدود نہیں تھا۔ صرف تین میل کے فاصلے پر غزہ پٹی، اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں اورجھنجھلاہٹ کے بوجھ تلے لرز اٹھی ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں، غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہے ہے۔
پچھلے گیارہ دنوں میں تو اب تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں بچوں کی تعداد 800 کے لگ بھگ ہے۔
سابق امریکی فوجی افسر مارک گارلاسکو، جو اب نیدر لینڈ کی پیکس فار پیس تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے تو صرف ایک ہفتے میں ہی6500بم گرائے۔ یعنی ایک ہزار بم ایک دن میں۔ امریکہ نے افغانستان میں پورے سال بھر 7423 بم گرائے تھے۔ غزہ پر بمباری اس لیے بھی تشویش کا موجب بنتی ہے کہ افغانستان کے برعکس یہ ایک گنجان آباد شہری علاقہ ہے۔
امریکی فوجی ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے گارلاسکو کا کہنا ہے کہ ناٹو اتحادی افواج نے لیبیا میں پورے جنگ کے دوران طیاروں سے تقریباً 7600 بم اور میزائل گرائے۔
غزہ اس وقت اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں ہر فرد بے گھر، الجھن اور ناامیدی کے احساس کی عکاسی کر رہا ہے۔
غزہ کے رہائشی جمعہ ناصر اور فری لانس صحافی عصیل موسیٰ پناہ کی تلاش میں اپنے دردناک سفر کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بمباری کے خوف سے وہ رات بھر بھاگتے رہے۔ فون پر گفتگو کرتے ہوئے موسیٰ کہہ رہی تھیں کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ جب بمباری نہیں ہوتی ہے، تو سروں کے اوپر اسرائیلی ڈرون خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے پرواز کرکے ایک لمحہ بھی چین سے رہنے نہیں دے رہے ہیں۔
وہ ان دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جنہیں اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو غزہ کے جنوب میں بھاگ جائیں۔مگر ان کے بھاگتے قافلہ پر بھی بمباری کی گئی۔
حماس کی کارروائی نے بیرون دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ مگر اس خطے میں موجود صحافی، جو فلسطین کے قضیہ کو کور کررہے تھے، پچھلے ایک سال سے اس طرح کی کسی کارروائی کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ قالین کے نیچے لاوا جمع ہو رہا تھا۔ بس اس کے پھٹنے کی دیر تھی۔
سال 2023 ہلاکتوں میں خوفناک اضافہ لے کر آیا۔ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 2005 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی اور اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔
انتہا پسند یہودی گروہ حکومت کی حوصلہ افزائی سے شہ پاکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائی برادریوں کو بھی نشانہ بنا رہا تھا۔ تاہم تجزیہ کار مغربی کنارہ میں انتفاضہ جیسی کارروائی یا اسرائیل کے اندر عرب آبادی کی بغاوت کی امید کر رہے تھے۔ غزہ کے راستے اس طرح کی پیش قدمی یقیناً ان کے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔
اس غلط اندازے کی وجہ سے اسرائیل نے بھی مغربی کنارہ پر افواج کی تعیناتی کی تھی، اور جنوبی خطے کو ایک طرح سے خالی چھوڑا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے واپس لینے کے لیے اس کے انتہائی تربیت یافتہ اور جدید آلات سے لیس کمانڈوز کو تین دن کا وقفہ لگا۔
مغربی کنارہ اور اپنی عرب آبادی کو اسرائیل نے بد ترین نسل پرستی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ نے بھی بتایا ہے کہ عرب آبادی کو ادارہ جاتی امتیازی سلوک کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ صحراوں میں رہنے والے عرب بدووں کو بنیادی سہولیات سے محروم کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان کے پینتیس دیہات، جن میں تقریباً 68000 لوگ رہتے ہیں، اس وقت اسرائیل کی طرف سے ‘غیر تسلیم شدہ’ ہیں، یعنی وہ بجلی اور پانی کی سپلائی سے منقطع ہیں اور انہیں بار بار مسمار کرکے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
معروف اسرائیلی کالم نگار،گیڈون لیوی کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں بہت سی اشتعال انگیزیاں ہوئی ہیں جو ایک لاوا بنا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی آبادی کو اشتعال دلایا جا رہا تھا۔ اور جب حماس نے ان پر حملہ کیا، تو ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے حال ہی میں دو بار متنبہ کیا تھا۔ 28 ستمبر کو سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئی دنوں تک راکٹ فائر کرنے کے امکان کی نشاندہی کی گئی تھی۔ 5 اکتوبر کو دوسری رپورٹ میں اس انتباہ کو دہرایا گیا۔
زمینی حقیقت تیزی سے بدل رہی ہے کیونکہ اسرائیلی افواج اب غزہ کے تباہ شدہ منظر نامے میں داخل ہو رہی ہیں۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ، اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے360000 ریزروسٹ، یا کل اسرائیلی آبادی کے 4 فیصد کو بھرتی کیا ہے۔
تاہم فوجی حکمت عملی کے ایک اسرائیلی ماہر جیک خووری کے مطابق انتقامی کارروائیاں فوری طور پر جذباتی راحت فراہم تو کرتی ہیں، مگر وہ اکثر پیچیدہ، دیرپا مسائل کا باعث بنتی ہیں۔وہ سوال کرتے ہیں کہ کہ حماس کے صفایا ہونے کے بعد کیا ہوگا، غزہ پر کون حکومت کرے گا اور کون تعمیر نو کرے گا؟
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے نو گیارہ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی۔ دو دہائی کے بعدافغانستان میں طالبان مضبوطی کے ساتھ واپس اقتدار میں ہے اور عراق میں ایران کو تاریخ میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے، جس سے یہ ملک امریکیوں کے لیے مزید خطرناک ہوگیا ہے۔
گیڈیون لیوی کے مطابق اعلیٰ امریکی اور یورپی حکام کے دورے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ہمدردانہ تقریر سے اسرائیلیوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے۔ حماس کے حملوں نے بتایا ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کو نظر انداز کرنا ایک غلطی تھی۔ اسرائیل اور اس کے عرب شراکت داروں کے لیے لازم ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک نئے پر امید وژن پر غور کریں۔فوجی کارروائی سے حماس کے عسکریوں کو ختم کیا جاسکتا ہے نہ کہ اس کے نظریہ یا بنیادی مسائل کو، جس کی وجہ سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔