ریٹائرڈ آئی اے ایس گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو بیچ میٹ رہے ہیں۔ جہاں کمار نے وزارت داخلہ کے کئی منصوبوں اور رام مندر ٹرسٹ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں سکھبیر سنگھ سندھو نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا کے چیئرمین تھے۔
سکھبیر سنگھ سندھو (بائیں) اور گیانیش کمار۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے جمعرات (14 مارچ) کو دو ریٹائرڈ آئی اے ایس افسران سکھبیر سنگھ سندھو اور گیانیش کمار کو نئے الیکشن کمشنر کے طور پر منتخب کیا۔ ان دونوں افسران نے جمعہ (15 مارچ) کو چارج سنبھال لیا ہے۔
بتادیں کہ یہ تقرریاں عام انتخابات کے اعلان سے چند روز قبل ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں جمعرات (14 مارچ) کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں وزیر اعظم کے علاوہ وزیر داخلہ امت شاہ اور لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے شرکت کی تھی۔ یہ دونوں عہدے سابق الیکشن کمشنر انوپ چندر پانڈے کی ریٹائرمنٹ اور ارون گوئل کے اچانک مستعفی ہونے کے بعد خالی ہوئے تھے۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر میٹنگ ختم ہونے کے بعد ادھیر رنجن چودھری نے انتخاب کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں تقرری کے لیے امیدواروں کے پروفائل دیکھنے کے لیے نہ تو خاظر خواہ وقت دیا گیا اور نہ ہی انھیں شارٹ لسٹ کیے گئے افسران کے نام پہلے سے بتائے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اجلاس سے صرف ایک دن قبل 212 امیدواروں کی مکمل فہرست انہیں سونپی گئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پورا انتخاب صرف دو لوگوں، وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی مرضی سے کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ تقرریاں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمشنر تقرری ایکٹ 2023 کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جاری ہے۔ یہ درخواست چیف جسٹس کو الیکشن کمشنر کی تقرری کمیٹی سے ہٹانے کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی اس درخواست میں چیف جسٹس کو دوبارہ کمیٹی میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کون ہیں گیانیش کمار؟
گیانیش کمار 1988 بیچ کے کیرالہ کیڈر کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں۔ انہوں نے وزیر داخلہ اور منسٹر آف کوآپریشن دونوں کے طور پر امت شاہ کے ساتھ کام کیا ہے۔ گیانیش کمار پارلیامانی امور کے سکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کردار حکومت کے کئی اہم فیصلوں میں رہا ہے، جو مودی حکومت نے اپنی دوسری مدت یعنی 2019 میں لیے ہیں۔ دفعہ 370 ہٹانے کے دوران گیانیش کمار کو کشمیر کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ انہوں نے وزارت داخلہ میں کشمیر ڈیسک کے جوائنٹ سکریٹری کے طور پر کام کیا تھا۔ اگست 2019 میں ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے میں امت شاہ کے ساتھ کمار کا بھی اہم کردار سمجھا جا تا ہے۔
کشمیر پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد گیانیش کمار کو جنوری 2020 میں وزارت داخلہ نے اس ڈیسک کی ذمہ داری دی تھی، جس کا کام ایودھیا کیس سے متعلق معاملوں کو دیکھنا تھا۔ ان میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کے لیے 90 دنوں کے اندر ٹرسٹ بنانے والے حکم کو نافذ کرنا بھی شامل تھا۔ اسی ٹرسٹ کی نگرانی میں حال ہی میں رام للا کی پران پرتشٹھا کی تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جسے حزب اختلاف نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ووٹ حاصل کرنے کا سیاسی ایجنڈا بتایا تھا۔
ایودھیا کے بعد گیانیش کمار کو اپریل 2021 میں پارلیامانی امور کی وزارت کا سکریٹری بنایا گیا تھا۔ اس دوران پہلی بار پارلیامنٹ کے اجلاس کو کور کرنے والے سرکاری طور پر تسلیم شدہ صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب مودی حکومت نئے پارلیامنٹ ہاؤس اور سینٹرل وسٹا کو ‘نیا بھارت’ کی علامت کے طور پر بنا رہی تھی۔
گیانیش کمار کو وزیر داخلہ امت شاہ کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے شاہ کی قیادت میں منسٹری آف کو آپریشن کے سکریٹری کے طور پر بھی مئی 2022 میں کام کیا۔ اس سال جنوری 2024 میں ریٹائر ہونے سے پہلے کمار نے وزارت کے اندر تین کوآپریٹو سوسائٹیوں کو ایک ساتھ رکھا تھا، جو مودی حکومت کا ایک اہم منصوبہ تھا۔ ان کے دور میں منسٹری آف کوآپریشن نے ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹو سوسائٹیز (ایم ایس سی ایس) (ترمیمی) ایکٹ، 2023 اور تین نئے نیشنل کوآپریٹو باڈیز – انڈین سیڈ کوآپریٹو سوسائٹی لمیٹڈ (بی بی ایس ایس ای؛)، نیشنل کوآپریٹو آرگنکس لمیٹڈ (این سی او ایل)، اور نیشنل کوآپریٹو ایکسپورٹ لمیٹڈ (این سی ای ایل) کو نافذ کیا تھا۔
الیکشن کمشنر کے طور پر ان کا نام سامنے آنے کے بعد انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ گیانیش کمار نے سہارا گروپ کی چار ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹو سوسائٹیوں کے حقیقی جمع کنندگان کے دعوے پیش کرنے کے لیے سی آر سی ایس- سہارا ریفنڈ پورٹل کی بروقت شروعات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیٹی نے مبینہ طور پر کمار کو اس عہدے پر منتخب کرنے سے ایک دن پہلے، امت شاہ نے ان تمام کوآپریٹو سوسائٹیوں کے تحت ہونے والے کام کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے دفتر کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے اسے ‘ہندوستانی زراعت کے بہت سے مسائل کے حل کے لیے نسخہ کیمیا’ کے طور پر بیان کیا اور کہا کہ یہ ‘نامیاتی خوراک سمیت زرعی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دے کر کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرے گا۔’ پریس انفارمیشن بیورو کے ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہم ‘خوشحالی کے لیے تعاون’ کے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
کون ہیں سکھبیر سنگھ سندھو؟
اتراکھنڈ کیڈر کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر سکھبیر سنگھ سندھو 1988 بیچ میں گیانیش کمار کے بیچ میٹ تھے۔ جولائی 2021 میں چیف سکریٹری کا عہدہ سنبھالنے کے لیے اتراکھنڈ واپس بھیجے جانے سے پہلے، سندھو نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (این ایچ اے آئی) کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے اکتوبر 2019 میں این ایچ اے آئی کی کمان سنبھالی تھی۔ وہ وزارت انسانی وسائل کے محکمہ ہائر ایجوکیشن میں ایڈیشنل سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
سندھو نے مودی حکومت کے کچھ بڑے سڑک منصوبوں کو مکمل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جن میں ریکارڈ تعداد میں ہائی ویز کی تعمیر بھی شامل ہے۔ سندھو کی قیادت میں این ایچ اے آئی کی یہ حصولیابی بی جے پی کی مہم کا خاص مرکز رہی ہے۔ سندھو کو اتراکھنڈ کا چیف سکریٹری اس وقت بنایا گیا تھا جب 2021 میں پشکر سنگھ دھامی یہاں کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کی
رپورٹ کے مطابق، سندھو کو جولائی 2023 میں اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونا تھا لیکن کیدارناتھ اور بدری ناتھ میں جاری کاموں کے ساتھ ساتھ مرکز کی طرف سے فنڈ کیے گئے کئی بڑے پروجیکٹوں کی وجہ سے انہیں چھ ماہ کی توسیع دی گئی تھی۔ بدری ناتھ اور کیدارناتھ کے ہندو تیرتھ کے مقامات کے ارد گرد پروجیکٹ مودی حکومت کے اہم اقدامات میں سے ایک رہے ہیں۔ اکتوبر 2021 میں مودی کا بدری ناتھ اور کیدارناتھ کا
دورہ ان منصوبوں کو شروع کرنے کے لیے سرخیوں میں آیا تھا۔ سندھو نے ریاستی سطح پر ان پروجیکٹوں کا معائنہ کیا تھا۔
بتا دیں کہ گزشتہ ہفتے ہی ارون گوئل نے الیکشن کمشنر کے عہدے سے اچانک استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد تین رکنی الیکشن کمیشن میں صرف چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار ہی رہ گئے تھے اور الیکشن کمشنر کے دو عہدے خالی تھے۔ لوک سبھا انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ان دونوں عہدوں کو بھرنا ضروری تھا، جس کی وجہ سے ان دونوں ناموں کا اعلان جلد بازی میں کیا گیا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )