گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سے رائٹ ونگ گروپ کھلے میں نمازکی مخالفت کر رہے ہیں۔گوردوارہ کمیٹی ساتھ ہی اکشے یادو نام کے ایک دکان مالک نے بھی نماز کے لیے اپنی خالی جگہ دینے کی پیش کش کی ہے۔
گڑگاؤں میں نمازادا کرتے لوگ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ہریانہ کے گڑگاؤں میں ہندوتواگروپوں کےذریعے نمازکےلیےمختص جگہ پر قبضہ کرنے اور آئے دن نماز میں خلل ڈالنے کی کوششوں کے بیچ ایک گوردوارہ کمیٹی نے مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کے لیے اپنی جگہ کی پیشکش کی ہے۔
گڑگاؤں کی سبزی منڈی میں واقع گوردوارہ شری گرو سنگھ سبھا کے سربراہ شیر دل سنگھ سدھو نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ مسلم کمیونٹی کو نماز کے لیے صدر بازار، سیکٹر 39، سیکٹر 46، ماڈل ٹاؤن اور جیکب پورہ میں پانچ گوردواروں کی جگہ دستیاب کرانے کی پیشکش کی گئی ہے۔
سدھو نے کہا،‘گوردوارہ گرو کا گھر ہوتا ہے۔یہاں پر عبادت کرنے کے لیےتمام طبقے کےلوگوں کا خیرمقدم ہے۔اگر مسلمانوں کومختص مقامات پر نماز ادا کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے تو وہ گوردواروں میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔’
سدھو نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ پہلے سکھ گرو گرو نانک دیو کے یوم پیدائش کے موقع پر لیا گیا ہے جو جمعہ(19 نومبر) ہے۔کمیٹی نے اپیل کی ہے کہ کووڈ 19پروٹوکال کو دھیان میں رکھتے ہوئے 30-40 لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ میں لوگ یہاں نماز ادا کریں۔
جمیعۃ علما کے ارکان نےکمیٹی سے ملاقات کی اور پیش کش کو قبول کر لیا۔انہوں نےجمعہ کو سیکٹر 39 اور صدر بازار واقع گوردواروں میں نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمیعۃ کے سربراہ مفتی محمد سلیم نے کہا،‘یہ انتہائی خوش آئندقدم ہے اور اس سے کمیونٹی کے بیچ ہم آہنگی کو فروغ ملےگا۔’
اس کے علاوہ
سیکٹر12میں ایک دکاندار اکشے یادو نے بھی نمازکے لیے اپنی خالی جگہ مہیا کرانے کااعلان کیا ہے۔
معلوم ہو کہ رائٹ ونگ گروپوں کے حمایتی اورممبر پچھلے دو مہینے سے زیادہ سے ہر جمعہ کو گڑگاؤں میں نماز کی جگہوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔اس میں سے ایک سیکٹر12ہے، جہاں مسلمان انتظامیہ سے اجازت لےکرعوامی پراپرٹی پر نمازادا کرتے آئے ہیں۔
انتظامیہ نے گزشتہ تین نومبر کو 37مختص مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی اجازت رد کر دی تھی۔اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش کمیٹی نے سیکٹر 12اے میں اس جگہ پر گئووردھن پوجا کا اہتمام کیا تھا، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نمازکی مخالفت کی جا رہی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور شدت پسندہندوتوالیڈریتی نرسنہانند کو مدعو کیا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ سال 2018 میں بھی گڑگاؤں میں کھلے میں نماز ادا کر رہےمسلمانوں پر لگاتار حملے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہےمسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور ان سے مبینہ طور پر جئے شری رام کے نعرے لگوائے تھے۔
اس حملے کے بعد غازی آ باد میں ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند جیسے ہندوتوالیڈروں نے ہریانہ میں مسلمان نوجوانوں کے خلاف لینڈ جہاد کے الزام بھی لگائے گئے تھے۔ کھلے مقامات پر نماز کو اسٹیٹ کی منظوری بتاتے ہوئےنرسنہانند نےکہا تھا،‘یہ گڑگاؤں کوتباہ کرنے کی سازش ہے،کیونکہ یہ ایک نیا اقتصادی مرکز ہے۔’
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں پہلے بھی بتایا تھا کہ رائٹ ونگ گروپ اور تنظیم ان مخالفتوں کے مرکز میں رہے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے الزام لگائے ہیں۔
ان مخالفتوں کی قیادت کر رہے بھارت ماتا واہنی کے صدرنیش بھارتی کا دعویٰ تھا کہ کھلے میں نماز ادا کرنا بین الاقوامی سازش ہے۔
اس کے بعد ہندوتواگروپوں کےدباؤ کے بیچ گڑگاؤں ضلع انتظامیہ نے گزشتہ تین نومبر کو 37مختص مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی اجازت رد کر دی تھی۔’