سنجیو بھٹ دیگر معاملات میں سال 2018 سے پالن پور جیل میں ہیں۔ ان کی گرفتاری ٹرانسفر وارنٹ کے ذریعےہوئی ہے۔ 2002 کے گجرات فسادات کے معاملے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چٹ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے تبصرہ کیا تھا، جس کی بنیاد پر احمد آباد پولیس نے سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ اور سابق آئی پی ایس افسران آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
نئی دہلی: گجرات پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات سے متعلق ایک معاملے میں سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو پالن پور جیل سے گرفتار کیا ہے۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ بھٹ کو ‘فسادات (گجرات) کے سلسلے میں بے گناہ لوگوں کو غلط طریقے سے پھنسانے کی سازش’ کے ایک معاملے میں ‘ٹرانسفر وارنٹ’ کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے۔
تفتیشی ایجنسی کسی اور ایف آئی آر یا کیس میں جیل میں بند شخص کو حراست میں لینے سے پہلے ٹرانسفر وارنٹ لیتی ہے۔ اس کے بعد ملزم کی حراست تفتیشی ایجنسی کو دینے کے لیے وارنٹ کو متعلقہ جیل حکام کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ اور گجرات کے سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل آر بی سری کمار کے بعد بھٹ اس کیس میں گرفتار تیسرے ملزم ہیں۔ برسوں سے تینوں الزام لگاتے رہے ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت والی اس وقت کی گجرات حکومت نے تشدد کو روکنے یا اس پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے، جس کی وجہ سے تینوں نشانے پر بھی رہے ہیں۔
سنجیو 27 سال پرانے کیس میں 2018 سے بناسکانٹھا ضلع کی پالن پور جیل میں بند تھے۔ یہ معاملہ راجستھان کے ایک وکیل کو غلط طریقے سے پھنسانے سے متعلق ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران سابق آئی پی ایس افسر کو جام نگر میں ‘حراست میں موت’ کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
احمد آباد کرائم برانچ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس، چیتنیہ مانڈلک نے بعد میں کہا، ہم نے ٹرانسفر وارنٹ پر پالن پور جیل سےسنجیو بھٹ کو حراست میں لیا اور منگل کی شام کو گرفتار کرلیا۔
گجرات حکومت نے گزشتہ ماہ 2002 کے گودھرا ٹرین آتشزدگی کے بعد ہوئے فسادات سے متعلق مختلف کیس میں جھوٹے ثبوت کے معاملے میں بھٹ، سری کمار اور سیتلواڑ کے کردار کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی، مانڈلک اس کے اراکین میں سے ایک ہیں۔
کرائم برانچ نے گزشتہ ماہ سیتلواڑ اور سری کمار کو گرفتار کیا تھا اور وہ ابھی جیل میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے 2002 کے فسادات کیس میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ایس آئی ٹی کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو برقرار رکھا تھا، جس کے ایک دن بعد کرائم برانچ نے سیتلواڑ، سری کمار اور بھٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
ان پر گجرات فسادات کے مقدمات میں فرضی ثبوت پیش کرکے معصوم لوگوں کو پھنسانے کی سازش کرنے کا الزام ہے۔
بتا دیں کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے نہ صرف نریندر مودی کوملی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی ذکیہ جعفری کی عرضی کو مسترد کر دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ، ہمیں لگتا ہے کہ گجرات حکومت کے ناراض افسران کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی ایک مشترکہ کوشش تھی کہ (اس طرح کے) انکشافات کرکے سنسنی پیدا کی جائے، جبکہ ان کی جانکاری جھوٹ پر مبنی تھیں۔ تفصیلی جانچ کے بعد ایس آئی ٹی نے ان کے دعووں کے جھوٹ کو پوری طرح سے بے نقاب کر دیا تھا۔
عدالت نے مزید کہا تھا، کسی خفیہ مقصد کے لیے معاملے کو جاری رکھنے کی غلط منشا سے قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کو کٹہرے میں لاکر ان کے خلاف قانون کے دائرے میں کارروائی کی جانی چاہیے۔
سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ گجرات پولیس کے لیے سیتلواڑ، سری کمار اور بھٹ کے خلاف کارروائی کرنے کی بنیاد بن گیا۔
اسی کڑی میں حال ہی میں کچھ سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ان سے اپنے ‘غیر ضروری ریمارکس’ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
بہرحال، سیتلواڑ، سری کمار اور بھٹ کے خلاف درج ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ 468 (دھوکہ دہی کے ارادے سے جعلسازی)، 471 (جعلی دستاویز یا الکٹرانک ریکارڈ کے طور پر استعمال کرنا)، 120بی (مجرمانہ سازش)، 194 (سنگین جرم کاقصور ثابت کرنے کے ارادےسے جھوٹے ثبوت دینا یا گڑھنا) 211 (زخمی کرنے کے ارادے سے کسی جرم کا جھوٹا الزام) اور 218 (کسی سرکاری ملازم کو جھوٹا ریکارڈ دینا یا کسی جرم کی سزا سے فرد یا جائیداد کو ضبط ہونے سے بچانا) کا ذکرہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)