گجرات فسادات کے مسلمان گواہوں کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی پران — پرتشٹھا کی تقریب کے قریب آتے ہی ان کی سکیورٹی واپس لے لینے کی کارروائی نے ان کے ڈر کو پھر سے بیدار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رام مندر کی مانگ نے ہی اس پورے باب کو جنم دیا تھا اور بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا۔
احمد آباد: 2002 کے گجرات فسادات میں زندہ بچ جانے والی سید نور بانو کہتی ہیں،’22 سال گزرنے کے بعد بھی میں ہندو اکثریتی علاقوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے۔ میں وہاں رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔’
بانو نرودا پاٹیا کی سابق رہائشی ہیں – جو پہلے احمد آباد کا مخلوط آبادی والا علاقہ ہوا کرتا تھا، جس نے 28 فروری 2002 کوگودھرا ٹرین میں آگ لگنے کے واقعہ کے ایک دن بعد قتل عام اور 96 مسلمانوں کے وحشیانہ قتل کا مشاہدہ کیا تھا۔
زندہ بچ جانے کے علاوہ، بانو نرودا پاٹیا قتل عام کی گواہ بھی ہیں اور انہوں نے کم از کم چار فسادیوں کی شناخت کی تھی، جنہوں نے علاقے میں مسلمانوں کو قتل اور ریپ کیا تھا۔
بانو جیسے کئی گواہوں کو دسمبر 2023 میں مطلع کیا گیا کہ پولیس کو ان کی سکیورٹی واپس لینی ہے ۔ ایسے بہت سے گواہوں کو 2009 سے سکیورٹی ملی ہوئی تھی۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے ذریعے 2002 کے فسادات کے شکایت کنندگان/گواہوں کے لیے وٹنس پروٹیکشن سیل کی تشکیل کے 15 سال بعد لیا گیا ہے۔ گجرات حکومت نے اب مختلف گواہوں، متاثرین کے وکلاء اور یہاں تک کہ نرودا پاٹیا کیس میں 32 ملزمان کو قصوروار ٹھہرانے والی جج کی سیکورٹی بھی واپس لے لی ہے۔
سال 2009 میں سپریم کورٹ نے مشورہ دیا تھا کہ ایس آئی ٹی کو ان نو مقدمات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک خصوصی وٹنس پروٹیکشن سیل بنانا چاہیے، جن سے وہ نمٹ رہی ہے۔
عدم تحفظ اور بے یقینی
محمد عبدالحمید شیخ احمد آباد کے سٹیزن نگر میں رہتے ہیں – ایک ایسا علاقہ جو اپنی کچی سڑکوں، بوسیدہ سائن بورڈ، کیمیکل کی بے تحاشہ بدبو اور کوڑے کے ڈھیروں کی وجہ سے خاص شناخت رکھتا ہے، اور علاقے کے مکینوں کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔
سٹیزن نگر میں 50 سے زیادہ مسلم خاندان رہتے ہیں، جو 2002 کے فسادات میں بے گھر ہو گئے تھے اور گزشتہ 22 سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔
شیخ، جو ایک گواہ بھی ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ گواہوں کی سکیورٹی کو واپس لینے کا فیصلہ ‘منصوبہ بند’ تھا، جو انہیں ان خطرات سے آگاہ کرانے کے لیے ہے، جو مسلمانوں کے خلاف کیے گئے جرائم کے گواہ ہونے کے ناطے ان کو درپیش ہیں۔
شیخ کہتے ہیں کہ ہماری کون سنے گا؟ اگر ہم ان سے اپنی سکیورٹی کو بحال کرنے کی گزارش کرتے ہیں ، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔’
سٹیزن نگر میں شیخ کے گھر کی دو پہچان ہے، ایک ان کا پتہ اور دوسرا ‘سی آئی ایس ایف 22’، یہ لیبل ان کے گھر پر تحفظ حاصل گواہ کے ناطے لگایا گیا ہے۔
سابق پرنسپل سٹی سیشن جج جیوتسنا یاگنک، جنہوں نے 97 لوگوں کے قتل عام سے متعلق نرودا پاٹیا کیس میں 32 ملزمین کو مجرم قرار دیا تھا، وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی پولیس سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ دھمکیاں ملنے کے بعد انہیں دو زمرے کی سکیورٹی دی گئی تھی۔ دی وائر نے یاگنک سے بات کی، جنہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
’رام مندر ایک وارننگ ہے‘
قابل ذکر ہے کہ27 فروری 2002 کو ایودھیا سے لوٹ رہے ہندو تیرتھ یاتریوں کو لے کر آ رہی سابرمتی ایکسپریس ٹرین صوبے کی راجدھانی گاندھی نگر سے تقریباً 150 کلومیٹر دور گجرات کے پنچ محل ضلع کے ایک چھوٹے سے شہر گودھرا میں رکی تھی۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مبینہ تصادم کے بعد، جس کی تفصیلات آج تک واضح نہیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ ٹرین کو آگ لگا دی گئی، جس میں مبینہ طور پر 59 ہندو تیرتھ یاتری ہلاک ہو گئے۔
اس وقت کی نریندر مودی کی قیادت والی گجرات حکومت نے کہا تھا کہ مرنے والوں میں زیادہ تر کار سیوک شامل تھے، جو رام مندر کی تعمیر کی مہم چلانے ایودھیا گئے تھے۔
گودھرا میں ٹرین جلانے کی خبر پھیلنے کے بعد آزاد ہندوستان کی تاریخ کے بدترین مذہبی تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا، جس میں تقریباً 2000 لوگ مارے گئے، سینکڑوں خواتین کے ساتھ ریپ ہوا اور ریاست بھر میں ہزاروں مکانات اور مساجد کو تباہ کر دیا گیا۔
اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوئے سید نور بانو نے کہا، ‘ماحول ویسا ہی بن رہا ہے، وہی جلوس، وہی بھگوا جھنڈے، ہمیں اندر سے ڈر لگتا ہے۔’ انہوں نے نرودا پاٹیا معاملے (ایف آئی آر 100/02) میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی پہچان کی تھی، جو اس وقت سپریم کورٹ میں ہے۔
شیخ کی طرح، بانو اور دیگر گواہوں نے بھی بتایا کہ کس طرح ایودھیا میں رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب کے قریب ان کی سیکورٹی ہٹالینے کی وجہ سے ان کے خوف کو پھر سے بیدار کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی رام مندر کی تلاش تھی، جس نے پورے باب کو جنم دیا اور بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔
ایک اور گواہ معروف پٹھان اب اپنے خاندان کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ اسی کیس میں پٹھان نے گڈو چارا، بھوانی سنگھ، مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی تھی اور عدالت میں گواہی دی تھی۔
وہ کہتے ہیں،’میں نے دیکھا تھا کہ کس طرح انہوں نے 2002 میں بچوں کو مار ڈالا اور مسلم خواتین کے ساتھ ریپ کیا۔ خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہوئے دو دہائیاں ہو چکی ہیں۔’
ایک اور پہلو جو پولیس سکیورٹی سے محروم ہوچکے پٹھان اور دیگر فریقین کو سخت پریشان کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپریل 2022 میں احمد آباد کی ایک خصوصی ایس آئی ٹی عدالت نے 2002 کے نرودا گام قتل عام کیس – جہاں مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا – میں کوڈنانی ، بجرنگی اور وشو ہندو پریشد کے رہنما جئے دیپ پٹل سمیت تمام 67 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔
نرودا گام کیس میں بری ہونے والوں کو نرودا پاٹیا کیس میں بھی ملزم بنایا گیا تھا، جس سے گواہوں کی پریشانی دوگنی ہو گئی ہیں، کیونکہ وہ ان لوگوں سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی رہتے ہیں، جن کے خلاف انہوں نے گواہی دی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔