گجرات کے مہسانہ ضلع کا واقعہ۔ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کا الزام ہے کہ 21 جنوری کو ہندوتوا گروپوں نے رام مندر تقریب کے موقع پرایک شوبھا یاترا نکالی تھی، جو مقررہ روٹ کے بجائے ان کے علاقے سے گزاری گئی۔ دونوں فریق کے درمیان جھڑپ ہو گئی اور مسلم کمیونٹی کے 13 مردوں اور دو نابالغوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
مہسانہ: شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع کے کھیرالو میں بیلم واس ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے تئیں محتاط رہتے ہیں اور علاقے میں تعینات پولیس افسران پر نظر رکھتے ہیں۔
گزشتہ 21 جنوری کو علاقے کے ہندو باشندوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تقریب کے موقع پر ‘شوبھا یاترا’ نکالی تھی۔ مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ اس یاترا میں کم از کم 600-700 لوگوں نے حصہ لیا تھا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شوبھا یاترا اپنے طے شدہ روٹ سے ہٹ کر الگ راستہ اختیار کر کے ان کے علاقے کی ایک مسجد تک پہنچ گئی۔ مقامی مسلمانوں نے جلوس میں شریک لوگوں سے درخواست کی کہ وہ بلند آواز میں موسیقی نہ بجائیں اور مسجد کے باہر پٹاخے نہ پھوڑیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شوبھا یاترا میں شامل لوگوں نے ان باتوں کو نظر انداز کر دیا۔
اس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان گالی گلوچ شروع ہو گئی جو پرتشدد ہو گئی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ شوبھا یاترا میں شامل لوگوں نے تلواروں، لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔دی وائر کے ذریعے دیکھے گئے واقعے کے ویڈیو میں بھی یہ نظر آ رہا ہے۔
مسلم کمیونٹی کے نوجوان اور نابالغ گرفتار
تشدد بڑھتے ہی مہسانہ پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کرکے بھیڑ کو منتشر کرنا شروع کردیا۔ بیلم واس کے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور مار پیٹ کی۔
پولیس نے 13 مردوں اور دو نابالغوں کو گرفتار کیا ہے – سب کا تعلق بیلم واس اور مسلم کمیونٹی سے ہے۔
مسلم خواتین نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر انہیں سزا دینے کی کوشش میں ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی، ان کے دروازے اور کاروں کو توڑ دیا۔
روبینہ کے 30 سالہ شوہر محمد حسین گرفتار کیے گئے لوگوں میں شامل ہیں۔ روبینہ نے دی وائر کو بتایا کہ تشدد کے فوراً بعد انہیں پکڑ لیا گیا۔ پولیس نے حسین کو ان کے گھر سے کھینچ کر بری طرح مارا پیٹا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ہمارے گیٹ، دروازے توڑ دیے اور ہر چیز کو ادھر ادھر بکھیر دیا۔ جب خواتین نے احتجاج کیا تو انہوں نے ہمیں گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی۔’
روبینہ کے شوہر مسلم کمیونٹی کے 12 دیگر لوگوں کے ساتھ مہسانہ کی وسئی جیل میں بند ہیں۔ حسین ڈپریشن کا شکار ہیں اور فی الحال دوائی پر ہیں، جو انہیں جیل میں نہیں مل سکتی۔
محمد صدیق کے 16 سالہ بیٹے رحمت اللہ کو مہسانہ پولیس نے تشدد کے سلسلے میں اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘انہوں نے خاندان کے کسی فرد کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ہمارے گرفتار رشتہ داروں کو کہاں لے گئے۔ آج پانچ دن کے بعد مجھے مطلع کیا گیا کہ معاملہ صاف ہونے تک اسے چلڈرن ہوم میں منتقل کر دیا گیا ہے۔’
منصوبہ بند اور اشتعال انگیز شوبھا یاترا
اس علاقے کے سابق کونسلر زبیر بیلم حیران ہیں کہ ماضی کے پرامن رہنے والے کھیرالو علاقے میں نشانہ بناکر اس طرح کی کارروائی کیسے ہوئی۔
انہوں نے کہا، ‘مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ہم نے کبھی غیر محفوظ محسوس نہیں کیا۔ حالات بدل رہے ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں ہندو جلوسوں کے نکلنے کے انداز میں واقعی تبدیلی آئی ہے۔ ان کے پاس تلواریں اور لاٹھیاں تھیں اور پھر انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔’
وہ کہتے ہیں، ‘انہوں نے میرے گھر میں ایک ٹی وی توڑ دی۔ قریب کے ایک ریستوراں کو جلا دیا گیا۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ہمیں امید تھی کہ مندر کا جشن منانے کے لیے ایک ریلی نکالی جائے گی، لیکن اس طرح سے نشانہ بنائے جانے کی امید نہیں تھی۔’
ایک اور مقامی شخص، جن کا نام ان کے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے، نے بتایا کہ اس کے پاس شوبھا یاترا میں شامل معروف اور مقامی چہروں کے ویڈیو موجود ہیں، لیکن وہ پولیس کے سامنے ان کی شناخت نہیں کرانا چاہتے، کیونکہ ان کا ایک بیٹا ہے جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘میرا بیٹا اپنے کالج میں واحد مسلمان ہے۔ وہ کھیلوں میں گولڈ میڈل جیت چکا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے غنڈوں کی اس پر کافی عرصے سے نظر تھی، اور اب وہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘میرے پاس مقامی لوگوں کی تلواریں لہراتے ہوئے اور ہمارے گھروں پر پتھراؤ کرنے کے ویڈیو ہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے ہندوؤں کے خلاف رپورٹ کی تو یا تو مجھے گرفتار کر لیا جائے گا یا میرے خاندان کو سیکورٹی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا اور اس کا مقصد ہمیں مشتعل کرنا تھا۔’
ان کی پڑوسی شائستہ بھی اسی طرح کے دباؤ میں ہے۔ ان کے شوہر وزیر محمد صادق علی کو اتنی بری طرح سے مارا گیا کہ ان کے سر کے پچھلے حصے پر چھ ٹانکے لگانے پڑے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘پولیس ہر گھر میں گھس گئی۔ وہ میرے شوہر کو گھسیٹ کر لے گئے اور بری طرح مارا۔انہوں نے ہمارے تمام فون بھی لے لیے۔’
چوتھی جماعت میں پڑھنے والی ان کی بیٹی نے بتایا کہ وہ تشدد اور اپنے والد کی گرفتاری کے بعد سے کیسے اسکول جانے سے گریز کر رہی ہے۔
شوبھا یاترا میں مسلح افراد
بیلم واس کے مردوں، خواتین اور نوجوانوں نے دی وائر کے ساتھ ویڈیو شیئر کیے ہیں، جس میں واضح طور پر رام مندر کی تقریبات کے موقع پر نکالی گئی شوبھا یاترا میں مردوں کو تلواریں اور راڈ لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک مسلمان خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ‘انہوں نے میری چائے کی دکان کو آگ لگا دی اور امبیکا ہوٹل کو بھی جلا دیا جو ایک ہندو کی ملکیت ہے لیکن اسے ایک مسلمان چلارہا تھا۔انہوں نے اپنی موجودگی سے ہمارے درمیان خوف پیدا کرنے اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے اپنا راستہ بدل لیا۔ اس کے باوجود ملزمین میں ہمارے بیٹے اور بھائی ہیں، جن کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں۔
مہسانہ میں ریاستی ریزرو پولیس فورس کے کمانڈنٹ رشی کیش بی اپادھیائے نے دی وائر کو گرفتار کیے گئے مردوں اور نابالغوں کی تعداد کی تصدیق کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ‘امن کمیٹی’ کے اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ معاملے کی جانچ جاری ہے۔
دی وائر نے شوبھا یاترا میں حصہ لینے والے سچن بھائی باروٹ سے بھی بات کی۔ باروٹ نے کہا کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو ہی شوبھا یاترا سے دقت تھی، جبکہ ویڈیو میں لوگوں کو تلواریں، راڈ اور بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ باروٹ نے کہا کہ وہ ہتھیاروں کی موجودگی پر کوئی تبصرہ کرنا پسند نہیں کریں گے۔
مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اگرچہ وہ شوبھا یاترا میں وی ایچ پی، بھارتیہ جنتا پارٹی یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکنوں کا نام نہیں لے سکے، لیکن تشدد کے دن ہندو مردوں کو اکٹھا کرنے کے پیچھے مقامی ہندوتوا گروپ جیسے شترو سینا اور ٹھاکر سینا تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان نئے گروپوں کا طلوع اس رجحان کی نشاندہی کرتا ہے جہاں اس طرح کی مسلم مخالف کارروائیاں ہوتی ہیں۔
گجرات کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی ریلیاں / شوبھا یاترا نکالی گئی تھیں، جو تشدد میں بدل گئیں۔ رام مندر کی تقریبات کی خوشی میں نکالی گئی ایسی زیادہ تر ریلیاں پولیس کی اجازت کے بغیر نکالی گئیں۔ احمد آباد کے جہا پورہ، دہگام کے کرولی، آنند کے بھاجی پورہ میں بھی اس طرح کی ریلیاں نکالی گئیں، جن میں بھیڑ کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔