صوبے کی170بلدیات میں سے 68 کے ڈیٹا کےتجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2020 اور اپریل2021 کے بیچ16892‘اضافی موتیں’ ہوئیں۔اگر پورے صوبے کے لیےاسی ڈیٹاکی توسیع کریں تو اس کا مطلب ہوگا کہ گجرات میں کووڈ سے ہوئی اصل موتوں کا ڈیٹا کم از کم 2.81 لاکھ ہے۔
15 اپریل2021 کو سورت کے ایک شمشان میں کووڈ 19 سے جان گنوانے والوں کی لاشیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
گجرات کے امریلی قصبے کے دوشمشان گھاٹوں میں سے ایک کیلاش مکتی دھام میں چار بھٹیاں خراب ہونے کی الگ الگ حالت میں ہیں۔ لاشوں کو رکھنے والی لوہے کی گرل بنا رکے جلتی ہوئی چتاؤں کی وجہ سے پگھل چکی ہے۔
کسان مگن بھائی شمشان گھاٹ پر کام کرنےوالے ایک رضاکار ہیں،جو اپریل اور مئی2021 کے ان دنوں، جب کووڈ 19 نے شہر کو تباہ کر دیا تھا، کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،‘ایک مہینے تک ہر دن 24 گھنٹے چتائیں جل رہی تھیں۔’
حالات یہ تھے کہ شمشان میں کام کرنے والےرضاکاروں کو مقامی اخباروں میں اشتہاردینا پڑا کیونکہ ان کی جلانے والی لکڑی کی سپلائی ختم ہو گئی تھی۔ تقریباً 20 لوگوں کی ٹیم کے تین ممبروں نے وائرس کی وجہ سے دم توڑ دیا۔
دو مہینوں میں دو شمشان گھاٹوں میں1161آخری رسومات ادا کیے گئے۔ چونکہ وہ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کر سکتے تھے، اس لیے باقی لاشوں کو پڑوسی گاؤں میں بھیج دیا گیا۔مقامی مسلم قبرستان میں دیگرلاشوں کو دفن کیا گیا۔ قبر کھودنے کے لیے ارتھ موورس کو بلایا گیا کیونکہ بہت ساری لاشیں تھیں۔
اپریل اورمئی کےمہینے میں امریلی کےصرف ایک شمشان میں7.5 ڈیتھ رجسٹر بھرے گئے۔ ہر رجسٹر میں100صفحے ہوتے ہیں۔ (فوٹو: شری گریش جلیہل/دی رپورٹرس کلیکٹو)
کووڈ19کی دوسری لہر نے ہندوستان کے باقی حصوں کی طرح گجرات کے ہرشہرمیں تباہی مچائی تھی،جس میں ڈھیروں موتیں ہوئیں۔گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے اس کو لےکرصحیح ڈیٹا شائع کرنے کے لیے
ریاستی سرکار کی سرزنش کے باوجود سرکار نےدعویٰ کیا کہ 2020 میں شروع ہوئی مہاماری کی دو لہروں کےدوران
صرف10075(اس رپورٹ کو لکھنے کے وقت تک)لوگ کووڈ کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے
کہا کہ گجرات نے ‘کووڈ بحران کو اچھی طرح سے سنبھالا۔’
اب سرکاری ریکارڈ ثابت کرتے ہیں کہ صوبےنے موتوں کی تعداد اور تباہی کی حقیقی خوفناکی پر ایک دبیز پردہ ڈالا ہے۔
رپورٹرس کلیکٹو نےصوبے کی170بلدیات میں سے 68 سےڈیتھ رجسٹر کی کاپیاں حاصل کیں۔ان رجسٹروں میں افسروں کے ذریعے سب سے پہلے کسی موت اور مرنے والوں کی تفصیلات درج کی جاتی ہے۔ ہم نے جنوری2019 اور اپریل2021 کے بیچ ہاتھ سے بھرے گئے ان رجسٹروں کی کاپیاں جمع کیں، جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔
ڈیتھ رجسٹروں کے تجزیےسے پتہ چلتا ہے کہ 68 بلدیات میں مارچ 2020 اور اپریل2021 کے بیچ مہاماری سے ٹھیک پہلے کے سال 2019 میں اسی مدت کے مقابلےتمام وجوہات سے 16892 اضافی لوگوں کی موت ہوئی۔
بتادیں کی 68 بلدیات میں صوبےکی6.03 کروڑ کی آبادی کا 6فیصدحصہ ہے۔عام تناسب کےحساب سے اندازہ لگائیں تو مہاماری کی وجہ سےصوبےمیں کم از کم2.81 لاکھ اضافی موتیں ہوئیں۔ یہ سرکار کے ذریعےصوبے میں کووڈ 19 سےمتعلق موتوں کی تعداد کے دعوے سے 27 گنا زیادہ ہے۔
ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول آف پبلک ہیلتھ میں مہاماری سائنس کی پروفیسر ڈاکٹر کیرولن بکی کہتی ہیں،‘ان بلدیات میں اضافی موتوں کی تعداد بتاتی ہے کہ متعلقہ سرکاری کووڈ 19 موت کی گنتی میں مہاماری سے ہوئی موتوں کا ایک بڑا حصہ غائب ہے۔’
‘اضافی یا زیادہ موتیں’حکام کے ذریعے چھپائی گئی موتوں کی گنتی کو سمجھنے کا ایک آسان طریقہ ہے، جس میں پچھلے عام سال کی اسی مدت کےساتھ مہاماری کے دوران کی اسی مدت میں کل موتوں کاموازنہ کیاجاتا ہے۔تمام اضافی موتوں کو کووڈ 19 سے نہیں جوڑا جا سکتا، لیکن موتوں میں اضافہ کو سمجھنے کی کوئی دوسری وجہ نہ ہونے کی وجہ سےماہرین ان میں سے اکثرکی وجہ سے کووڈ 19 اور پبلک ہیلتھ سہولیات تک پہنچ کی کمی کو مانتے ہیں۔
گجرات کی زیادہ موت کا یہ ڈیٹابھی محدود ہے کیونکہ بلدیات کے اعدادوشمار میں دیہی علاقے شامل نہیں ہیں، جو شہری علاقوں کےمقابلےعوامی صحت تک کم ازکم پہنچ رکھنے والی کل آبادی کا 57فیصد ہے۔ ہم نے مئی2021 کے اعدادوشمارکو بھی باہر کر دیا ہے،جس میں ریاستی سرکار کے حساب سے بھی اپریل سے زیادہ موتیں ہوئی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ68بلدیات میں سے صرف تین کے پاس مئی کے اواخرتک ڈیٹا تھا۔
اکیلےاپریل2021 میں6فیصدی آبادی میں10238اضافی موتیں ہوئیں، جو پوری مہاماری کی مدت کے 10075موتوں کے سرکاری صوبہ گیر ڈیٹاسے کہیں زیادہ ہے۔
اس طریقے سے اکیلے اپریل2021 میں صوبے میں1.71 لاکھ اضافی موتیں ہونے کا اندازہ ہے اور ہمیں ابھی تک مئی2021، جب وائرس کا انفیکشن اصل میں عروج پر تھا، کی تعداد کا پتہ نہیں ہے۔
ان بلدیات کے ڈیتھ رجسٹروں کے ہزاروں صفحےضلع در ضلع سرکاری جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہیں۔
مثال کےطورپر2011 کی مردم شماری کے ڈیٹا کےمطابق1756268 کی آبادی والے سوراشٹر علاقے کے ایک ضلع سریندرنگر کو ہی لیں۔ سرکار کے مطابق، ضلع میں کل ملاکر صرف 136 کووڈ موتیں ہوئیں۔
لیکن ڈیتھ رجسٹر سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بلدیہ میں،جو ضلع کی آبادی کا لگ بھگ 14فیصد ہے، مارچ اور اپریل2021 کے بیچ 1210 زیادہ موتیں ہوئیں۔ (گراف دیکھیں)
مراد باناجی لندن کی مڈل سیکس یونیورسٹی کے ریاضی داں ہیں، جو کووڈ 19اعدادوشمار کا باریکی سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، 'واضح ہدایات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں کووڈ 19 سے ہونے والی اکثرموتوں کا ریکارڈ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ایسامختلف وجوہات سے ہو سکتا ہے۔ کچھ معاملوں میں کمزور روٹین ڈیتھ سرولانس ذمہ دار ہے۔'
وہ مزیدکہتے ہیں،'ایسا لگتا ہے کہ کچھ ریاستی سرکاروں کے ذریعےکووڈ موتیں درج کرنے والے ہدایات کی جان بوجھ کر ان دیکھی کی جا رہی ہے۔مثال کے طور پرڈیٹھ آڈٹ کمیٹیاں سرکاری گنتی میں دوسری بیماریوں والے (کوماربڈ)کووڈ -19مریضوں کی موت کو چھوڑ سکتی ہیں۔ گجرات سمیت کئی صوبوں سے اس طرح کی خبریں آئی ہیں۔'
ہندوستان میں سیاسی وجوہات سے ڈیٹا دبانے کےساتھ اموات کے ادھورے ریکارڈ اور دستیاب ریکارڈ میں موت کی وجوہات کی غیرمستقل درجہ بندی کووڈ سےمتعلق موتوں کی گنتی ناممکن بنا دیتی ہے۔کووڈ سےمتعلق موتوں پر سرکاری ڈیٹا کے فقدان میں عالمی سطح پرماہرین تباہی کی خوفناکی کی سطح کو سمجھنے کے لیے پراکسی کےطورپر'اضافی موت'کے ڈیٹا کو استعمال کرنے کی صلاح دیتے ہیں۔
ڈاکٹر بکی کہتی ہیں،'آفات کے بعد سرکاری موت کی گنتی ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر درج آفات کی وجہ سے ہوئی موتوں کی بنیاد پر منحصر کرتی ہے۔ یہ نظام غلط ہو سکتا ہے۔ مہاماری کےشروعاتی مرحلوں میں تشخیصی معیارات کی کمی، جانچ کے فقدان، سیاسی مداخلت وغیرہ جیسی وجوہات کے مدنظر یہ ہو سکتا ہے کہ موتوں کے لیے سارس-سی اووی 2 کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔'
کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے میں ڈیموگرافی کی اسسٹنٹ پروفیسر عائشہ محمود نے بتایا،'وباپبلک ہیلتھ کی ہنگامی صورتحال ہے، جس کے دوران نہ صرف بیماری سے ہونے والی موتیں ہوتی ہیں، بلکہ آخرکار سماجی کام کاج پر مہاماری کے اثرات سے بھی موتیں ہوتی ہیں۔'
باناجی نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے، 'اصل میں بہت زیادہ موت کی شرح کل معاملوں اور موتوں کے سرکاری ڈیٹا کےمقابلے میں تباہی کے اثرات کا اندازہ لگانے کا زیادہ قابل اعتماد طریقہ ہے۔'
بلدیہ کی سطح کے ڈیتھ رجسٹروں کےڈیٹاکی بنیادپر اندازوں کو کراس چیک کرنے کے لیے دی رپورٹرس کلیکٹو نے شہری بلدیات کے ساتھ ساتھ سبھی گرام پنچایتوں کو کور کرتے ہوئے ایک پورے ضلع بوٹاد کےڈیٹھ ریکارڈ کو دیکھا۔
سرکار کا دعویٰ ہے کہ بوٹاد میں کووڈ 19سے متعلق بیماریوں کی وجہ سےصرف 42 لوگوں کی موت ہوئی۔ لیکن ڈیٹھ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2020-جون 2021 کے بیچ ضلع میں3117اضافی موتیں ہوئیں جو سرکار کے ڈیٹاکےمقابلے 74 گنا زیادہ ہے۔
موتوں کی گنتی
کئی دوسرےصوبوں کی طرح گجرات میں بھی کووڈ سے ہونے والی موتوں کی کم تعداد کو
مقامی میڈیاکے ذریعے سامنے لایا گیا۔ مہاماری کی دوسری لہر کےعروج پرشمشان کے ڈیٹا کےمقابلےمیں سرکاری موت کے ڈیٹا میں خامیوں کی چھٹ پٹ
رپورٹ نے سرکار کے غیر واضح رویے کے لیے شروعاتی وارننگ کا کام کیا۔
اس کے بعد میڈیا نے سول رجسٹریشن سسٹم (سی آر ایس)کےاعدادوشمارکی بنیاد پر اضافی موتوں کے اندازوں کی بھی اطلاع دی، جس میں پیدائش اور موت کا ریکارڈآخرکارقومی سطح پر جمع کیے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سی آر ایس کو اپ ڈیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔
وزارت صحت نے 4 اگست کو ایک
پریس ریلیز میں کہا، 'سی آر ایس ڈیٹا کلیکشن، صفائی، ملان اور اعدادوشمار کو شائع کرنے کےعمل کی پیروی کرتا ہے، حالانکہ یہ ایک طویل عمل ہے، لیکن یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی موت نہ چھوٹے۔ اس عمل کی توسیع کی وجہ سے عام طور پر ڈیٹا اگلے سال شائع کیے جاتے ہیں۔'
یہ ایک وجہ ہے کہ رپورٹرس کلیکٹو نے ڈیٹھ ریکارڈ کے بنیادی ماخذڈیتھ رجسٹر، جس سے سی آر ایس ڈیٹا لیتا ہے، سے ڈیٹا اکٹھا اور تجزیہ کرنے میں تین مہینے کاوقت بتایا۔
سابرکانٹھا ضلع کی کھیڑبرہما بلدیہ کے ڈیتھ رجسٹر کا ایک صفحہ ۔ (فوٹو: شری گریش جلیہل/دی رپورٹرس کلیکٹو)
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2019-20 کےمطابق، گجرات میں93فیصدموتیں درج کی گئیں۔سات فیصدمختلف وجوہات سے ریکارڈ نہیں ہوئیں چونکہ لوگ فیملی میں موت کی رپورٹ کرنے میں کچھ وقت لیتے ہیں، اس لیے ڈیتھ رجسٹر میں موت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ موت کے رجسٹریش کی تاریخ بھی درج ہوتی ہے۔
یہ ڈیٹا دھیرے دھیرے اوپر کی جانب بڑھتا ہے:بلدیات(شہری علاقوں میں)اورگرام پنچایتوں(دیہی آبادی کے لیے)سے لےکرضلع ہیڈکوارٹر تک جہاں اسے ریاستی سطح پریہ تصویر دینے کے لیے ڈیجیٹل سی آر ایس پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن ریاستی سطح پردوبارہ ملان اورتصدیق سےملکی سطح پر اور بھی آگے بڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ یہ سیاسی طور پرآسان بہانہ ہے، جو مرکزی حکومت نے یہ جتاتے ہوئے دیا ہے کہ ماہرین کے ذریعے مہاماری کی وجہ سے ہوئی اضافی موتوں کے آزادانہ تجزیے کو روک دیا جانا چاہیے۔
مرکزی حکومت کےادارے میں ڈیموگرافی پر کام کرنے والے ایک سینئر افسرنے بتایا،'حالانکہ سی آر ایس کو قومی سطح پر حقیقی زمینی ڈیٹا کو دکھانے میں دو سال تک کا وقت لگ سکتا ہے، لیکن حتمی سی آر ایس ڈیٹا کا انتظار کیے بنا موت کی شرح کو سمجھنے کے لیے بلدیات کا ڈیٹھ رجسٹر سب سے اچھا پرائمری سورس ہے۔'
ڈیٹاکی شفافیت
گجرات کی68 بلدیات کے ڈیٹاسیٹ رپورٹرس کلیکٹو کے ملک بھر سے 'اضافی موت کے ڈیٹا'کو جمع کرنے اور شائع کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ رپورٹنگ کے وقت گجرات کی سو سے زیادہ بلدیات اوردیگر صوبوں کے پینتیس سے زیادہ ضلعوں کے ڈیتھ ریکارڈ کو اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہ ڈیٹا ایک آن لائن
وال آف گریف پر کریٹو کامنس لائسنس کے تحت عوامی طور پردستیاب کرایا جا رہا ہے، جو سول سوسائٹی، میڈیا اداروں اور خواہش مند افرادکے بیچ اجتماعی طور پر ان لوگوں کو یاد کرنے کی ایک مشترکہ کوشش ہے، جنہیں ہم نے مہاماری میں کھو دیا۔
گجرات کی بلدیات کے ڈیٹھ رجسٹروں کے ڈیٹا کو ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول آف پبلک ہیلتھ کےماہرین کے ساتھ بھی ساجھا کیا گیا تھا، جنہوں نے پہلے پیورٹو رکو میں طوفان ماریا کے بعدحقیقی موت کے
ڈیٹا کی جانچ کی تھی۔
ہارورڈ میں ایمرجنسی فزیشین اور ڈیزاسٹررسپانس کے ماہر ڈاکٹر سچت بلساری کہتے ہیں،'آفت کے دوران اور بعد کےموت کے ڈیٹااہم ہیں وہ مہاماری سائنس کی اہم جانکاری فراہم کرتے ہیں کہ کون، کہاں، کب اور کیسے مر گیا، تاکہ صحت عامہ کی ایجنسیاں کارروائی کر سکیں اور اپنے ردعمل کو تیز کر سکیں۔ دنیا بھر کی سرکاریں ان اعدادوشمار کو چھپانے کی کوشش کرنے کی غلطی کرتی ہیں۔ لیکن گڑبڑ ڈیٹا صرف صحت عامہ کے ردعمل کو کمزور کرتا ہے، جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔'
اس تباہی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس رپورٹ کے تین قلمکاروں میں سے ایک نے جون میں گجرات کادورہ کیا۔ڈیٹھ رجسٹروں کے ذریعے ملے ڈیٹا کی تصدیق دکھ اور تکلیف کی کہانیوں نے کی۔ تجزیہ کیے گئے اکثر بلدیات کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 50-80عمر کے بزرگوں کی موت میں دوسرےعمر کےگروپ کے مقابلے زیادہ بڑھت درج کی گئی۔
دوسری لہر کے دوران گھر پر موت کے مقابلے اسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ آخرکار اصل میں کیا ہوا تھا۔
امریلی میں قبرستان کی دیکھ ریکھ کرنے والے ادارےدارالعلوم محبوبیہ کے سید محبوب رحمٰن نے بتایا،'میں نے ایسے کیس دیکھے ہیں، جہاں ایک60 سال کےشخص سے آکسیجن سپلائی لےکر20 سال کے کسی شخص کو دیا گیا تھا۔سوسائٹی گروپ آکسیجن کی دستیابی کاانتظام کرنے میں آگے تھے۔ سرکار کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مدد نہیں ملی۔کمیونٹی ہال میں لوگوں کو آکسیجن کی رفل مل رہی تھی، جہاں آس پاس کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔'
انیس اپریل،2021 کو امریلی کے ریڈیولاجسٹ ڈاکٹر بھرت پاڑا شمشان گھاٹ میں کھڑے ہوئے ای میل پر سی ٹی اسکین رپورٹ دیکھ رہے تھے۔ سامنے چتا میں ان کے والد تھے۔ ان کے 74سالہ والد کو موت سے سات دن پہلے کووڈ ہونے کا پتہ چلا تھا۔
ڈاکٹر بھرت پاڑا۔ (فوٹو: شری گریش جلیہل/دی رپورٹرس کلیکٹو)
اگلے ہی دن وہ اپنی سونوگرافی لیب، جو شہر کے تین لیب میں سے ایک ہے، میں واپس لوٹ آئے، جہاں دن کے پندرہ گھنٹوں اور آدھی رات کے بعد تک کام ہو رہا تھا۔ اپنے ایک کمرے کے کلینک میں بیٹھے ہوئے انہوں نے رپورٹر کو بتایا،'میں اندر سے پتھر کا ہو گیا تھا۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔'
ڈاکٹربھرت ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں کووڈ کےسرکاری ڈیٹا پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں،'روزانہ سرکاری موت کا ڈیٹا وہی ہوتا تھا، جنہیں میں ذاتی طور پرجانتا تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ صرف اتنے ہی لوگوں کی موت ہوئی ہو۔'
امریلی ضلع کی9بلدیات میں سے 6 کے ڈیتھ رجسٹر اپریل2019 کےمقابلےاپریل2021 میں1257زیادہ موتیں دکھاتے ہیں۔ لیکن سرکار کے مطابق، اپریل میں امریلی کے دیہی حصوں سمیت ضلع میں صرف 14 کووڈ موتیں ہوئیں۔
ڈیتھ رجسٹروں سے جمع اضافی موت کا ڈیٹاحقیقی موتوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ناکافی ہونے کاامکان ہے۔ فیملی میں ہوئی موت درج کرنے میں لوگوں کو ایک دن سے ایک مہینے تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن رجسٹروں میں درج ڈیٹا کے حقیقی موتوں سے زیادہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
(قلمکار رپورٹرس کلیکٹو کےممبر ہیں۔)