گجرات: بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے  تمام 11 مجرم رہا

گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان 11 لوگوں کی رہائی کی اجازت دی ہے۔ ان سب کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔

گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان 11 لوگوں  کی  رہائی  کی اجازت دی ہے۔ ان سب کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ  اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔

اپریل 2019 میں نئی دہلی  میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی فیملی کے ساتھ بلقیس بانو(فوٹو : پی ٹی آئی)

اپریل 2019 میں نئی دہلی  میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی فیملی کے ساتھ بلقیس بانو(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات میں 2002 میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کےمعاملے عمر قید کی سزا کاٹ رہے تمام 11 مجرموں کوسوموار کو گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی رہائی کی اجازت دی۔

قابل ذکر ہے کہ 21 جنوری 2008 کو ممبئی میں ایک سی بی آئی کی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کےجرم میں 11 لوگوں  کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں ان کی سزا کو بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔

ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ کی قید کی سزا  کاٹ لی تھی، جس کے بعد ان میں سے ایک نے قبل از وقت رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

پنچ محل کے کمشنر سوجل مائترا نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ان کی سزا معاف کرنے کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی، جس کے بعد حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ مائترا ہی  اس کمیٹی کے سربراہ تھے۔

مائترا نے کہا، کچھ ماہ قبل تشکیل دی گئی کمیٹی نے اس کیس کے تمام 11 قصورواروں کو معاف کرنے کے حق میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا۔ اس کی سفارش ریاستی حکومت کو بھیجی گئی تھی اور کل ہمیں ان کی رہائی کے احکامات ملے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس واقعہ پر برہمی کے پیش نظر سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا تھا۔ کیس کے ملزمین کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

رپورٹ کے مطابق، جن 11 مجرموں کو اب اس معاملے میں رہا کیا گیا ہے، ان میں جسونت بھائی نائی، گووند بھائی نائی، شیلیش بھٹ، رادھےشیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی ووہنیا، پردیپ موردھیا، باکا بھائی ووہنیا، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چندانہ  شامل ہیں۔

ان میں سے ایک رادھےشیام شاہ سی آر پی سی کی دفعہ 432 اور 433 کے تحت اپنی سزا معاف کرنے کی درخواست لے کر گجرات ہائی کورٹ گئے تھے۔ اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں ‘مناسب فیصلہ’ مہاراشٹر حکومت لے سکتی ہے، گجرات حکومت نہیں۔

اس کے بعد رادھے شیام شاہ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی اور کہا تھاکہ وہ ایک  اپریل 2022 تک 15 سال اور چار ماہ تک بغیر کسی چھوٹ کے جیل میں رہ چکے ہیں۔ اس پر 13 مئی کے اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ چونکہ یہ جرم گجرات میں ہوا تھا، اس لیے گجرات حکومت ہی اس درخواست پر غور کرنے کے لیے موزوں ہے۔

سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو 9 جولائی 1992 کی پالیسی کے مطابق قبل از وقت رہائی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دو ماہ کے اندر فیصلہ کر سکتی ہے۔

سوموار کی رات ان کی رہائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انسانی حقوق کے وکیل شمشاد پٹھان نے کہا کہ بلقیس بانو کے کیس سے کم گھناؤنے اور ہلکے جرائم کے ارتکاب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جیل میں ہے اور انہیں کوئی معافی نہیں مل رہی ہے۔

پٹھان نے مزید کہا، بہت سے ایسے ملزم ہیں جن کی سزا ختم ہو چکی ہے لیکن انہیں جیل سے اس بنیاد پر رہا نہیں کیا گیا کہ وہ کسی گینگ کا حصہ ہیں یا ایک یا دو قتل میں ملوث ہیں۔ لیکن ایسے گھناؤنے معاملے میں گجرات حکومت نے آسانی سے مجرموں کی معافی قبول کر لی اور انہیں جیل سے باہر آنے کی اجازت دے دی۔

پٹھان نے کہا کہ جب حکومت ایسے فیصلے کرتی ہے تو لوگوں کا سسٹم پر سے اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔

اس معاملے پر گجرات کانگریس کے ترجمان منیش دوشی نے کہا کہ وہ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی اس پر تبصرہ کریں گے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)