گجرات: امت شاہ بولے – 2002 میں ’انہیں‘ سبق سکھا کر ’دیرپا امن‘ قائم کیا گیا

اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کھیڑا ضلع کے مہودھا شہر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں ریاست میں اکثر فرقہ وارانہ دنگے ہوتے تھے۔ ریاست میں آخری بارپوری طرح سے کانگریس کی حکومت مارچ 1995 میں تھی۔ بی جے پی ریاست میں 1998 سے اقتدار میں ہے۔

اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کھیڑا ضلع کے مہودھا شہر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں ریاست میں اکثر فرقہ وارانہ دنگے ہوتے تھے۔ ریاست میں آخری بارپوری طرح سے  کانگریس کی حکومت مارچ 1995 میں تھی۔ بی جے پی ریاست میں 1998 سے اقتدار میں ہے۔

امت شاہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

امت شاہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات میں اسمبلی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے انتخابی مہم کے دوران  مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعہ کو کہا کہ 2002 میں تشدد کے مجرموں کو ‘سبق’ سکھایا گیا ۔ اس سال ریاست میں ہونے والے دنگوں میں ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں، جن میں اکثر مسلمان تھے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، امت شاہ کھیڑا ضلع کے مہودھا شہر میں ایک ریلی میں تھے۔ شاہ نے تقریر کا آغاز یہ الزام لگاتے ہوئے کیا کہ کانگریس نے گجرات میں فرقہ وارانہ اور ذات پات کی بنیاد پردنگے بھڑکائے۔

قابل ذکر ہے کہ ریاست میں آخری بار کانگریس کی حکومت مارچ 1995 میں تھی۔ اگرچہ بی جے پی سے الگ ہونے والے گروپ راشٹریہ جنتا پارٹی کی شنکر سنگھ واگھیلا حکومت کو کانگریس کی حمایت حاصل تھی، لیکن بی جے پی 1998 سے اقتدار میں رہی  ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ،گجرات میں کانگریس کے دور میں اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے۔ کانگریس مختلف برادریوں اور کمیونٹی کے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی تھی۔ کانگریس نے اس طرح کے فسادات کے ذریعے اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا اور سماج کے ایک بڑے طبقے کے ساتھ ناانصافی کی۔

گجراتی میں تقریر کرتے ہوئے شاہ نے دعویٰ کیا کہ گجرات میں 2002 کے فسادات اس لیے ہوئے کیونکہ مجرموں کو طویل عرصے تک کانگریس کی حمایت کی وجہ سے تشدد میں شامل ہونے کی عادت ہو گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا، لیکن 2002 میں سبق سکھانے کے بعد، ایسے عناصر نے وہ راستہ چھوڑ دیا۔ وہ لوگ 2002 سے 2022 تک تشدد سے دور رہے۔ بی جے پی نے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرکے گجرات میں دیرپا امن قائم کیا ہے۔

شاہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس کو ‘سبق سکھایا گیا’ اور کیسے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ فسادات میں مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مرنے والوں کی کل تعداد کا غیر سرکاری تخمینہ 2000 سے زیادہ ہے۔

گجرات فسادات کے وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ فسادات کے دوران مودی کے رول کو بی جے پی اور ہندوتوا کے کئی لیڈروں کے ساتھ کئی بار جانچ کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ قتل عام میں ان کے مبینہ رول پر اس سے قبل امریکہ سمیت کئی ممالک نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس سال جون میں ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی جانب سے مودی کو فسادات کے لیے وزیر اعلیٰ کے طور پران کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دینےکے خلاف گجرات فسادات میں جان گنوانے والے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ کے سابق ججوں اور تجزیہ کاروں نے سوال اٹھائے تھے۔

اس کے بعد اکتوبر میں گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 2002 کے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور اس کے 14 رشتہ داروں کے قتل کے لیے مجرم ٹھہرائے گئے 11 افراد کو امت شاہ کی قیادت والی مرکزی وزارت داخلہ کی منظوری  کے بعد سزا معافی دیتے ہوئے وقت سے پہلے رہا کر دیا گیا تھا۔

واضح ہو کہ گجرات میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ریاست کے مسائل کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہراتے نظر آرہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر ‘ریاست کو تباہ کرنے‘ کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا تھا کہ کانگریس پر لعنت بھیجنے کے بجائے انہیں گزشتہ 27 سالوں کا حساب دینا چاہیے۔