خصوصی رپورٹ : وہیکل رجسٹریشن سے متعلق ڈیٹا کو لےکرحکومت ہند کے ساتھ معاہدہ کرنے والی فاسٹ لین آٹوموٹو نے وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویزکومطلع کیے بغیر جرمنی کی ایک کمپنی مینسرو کے ساتھ ایک سب کانٹریکٹ کیا، جس میں‘حساس جانکاری’شیئر کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
(وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویزکے ذریعےشیئر کئے گئے وہیکل سے متعلق بلک ڈیٹا پر یہ اسٹوری سیریز کا دوسراحصہ ہے۔ پہلےحصے کو یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
نئی دہلی:وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویزکے ذریعے نئی دہلی کی آٹو ٹیک سالیوشنز کمپنی فاسٹ لین آٹوموٹو (ایف ایل اے)کے ساتھ ہندوستانی شہریوں کےوہیکل اور لائسنس سےمتعلق ڈیٹا شیئر کرنے کے کچھ مہینوں بعد اس کمپنی کے ذریعے ایک جرمن کمپنی کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے کو لےکر ایک اور معاہدہ کیا گیا تھا۔
آر ٹی آئی سے موصولہ سرکاری دستاویزوں کے مطابق، وزارت کو بھیجے گئے ایک خط میں اس ہندوستانی کمپنی نے سرکاری افسروں کو اس معاہدہ کے بارے میں اس وقت بتایا جب جرمن کمپنی نے ایف ایل اے کے ساتھ ہوئے معاہدہ کے ناکام ہونے کے بعد اس ڈیٹا کو ڈی لٹ (حذف)کرنے سے انکار کر دیا۔
سرکاری ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ یہ بات بتائے جانے کے کچھ مہینوں بعد وزارت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیٹا سپلائی کو بند کیا۔
اس رپورٹ کے
پہلے حصے میں ہم نے بتایا تھا کہ کس طرح ایف ایل اے کو کوڑیوں کے دام میں ایک مخصوص ڈیٹابیس تک رسائی حاصل ہوگئی ۔ د ی وائر کو ملے دستاویزوں کے مطابق وزارت نے مختلف افسروں کے متعدد انتباہ کے باوجود اس معاہدہ کو طول دیا۔
جرمن کمپنی کے ساتھ فاسٹ لین کے سودے کے کھٹائی میں پڑنے کو ایف ایل اے کے سی ای او نرمل سنگھ سرنا ‘نظریے کا فرق’ بتاتے ہیں۔ اس بیچ جرمن کمپنی نے وزارت ٹرانسپورٹ سے براہ راست ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے باربار کوشش کی۔
جب تک حکومت ہند یہ جان سکی کہ فاسٹ لین آٹوموٹو نے غیرملکی اکائی کے ساتھ وہیکلز کے تھوک ڈیٹا کو لےکر چپ چاپ کوئی سودا کیا ہے، ہندوستانی فرم پہلے ہی جرمن کمپنی کو ڈیٹا کے سیمپل دستیاب کرا چکی تھی۔ ایف ایل اے کے اپنے لفظوں میں کہیں تو اس شراکت میں‘انتہائی حساس ڈیٹا’شیئر کرنا بھی شامل تھا۔
دو نجی فرموں کے بیچ ڈیٹا شیئر کرنے کا سودا ایسی صورتحال میں ہوا، جہاں اس طرح کے کسی لین دین سے بچاؤ کے لیے سرکار کی جانب سے دستخط کیے گئے معاہدہ میں کوئی عام پرائیویسی قانون یا کوئی بھی خصوصی شق موجود نہیں تھی۔
جہاں ایک جانب وزارت کی طرف سے بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی اور 2014 میں ایف ایل اے کے ساتھ ہوا معاہدہ، دونوں ہی سکیورٹی سے وابستہ امورکی وجہ سے رد کر دیے گئے تھے، وہیں ایک اور پالیسی، جو اسی ڈیٹا، جس میں نجی جانکاریاں بھی شامل ہیں تک ایکسیس(رسائی )کی اجازت دیتی ہے اب بھی ایکٹو ہے۔ اور اس میں اس ڈیٹا کو آگے ٹرانسفر کرنے اور کوئی اور سب کانٹریکٹ سائن کرنے کو لےکر بچاؤ کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
نیشنل رجسٹر (این آر)ایکسیس پالیسی کے نام سےمعروف اس اسکیم کے تحت وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویزکے ریکارڈ پر مبنی وہیکلز کے ڈیٹا کو نجی خریداروں کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ آٹوموبائل مینوفیکچررزاور انشورنس کمپنیاں 50-100 روپے دےکر پورا وہیکل رجسٹریشن اور ڈرائیونگ لائسنس ریکارڈ(نام اور دیگر جانکاریوں کے ساتھ)خرید سکتے ہیں۔
جو ڈیٹا غیرملکی کمپنی سے شیئر کیا گیا وہ وزارت کے ذریعےایف ایل اے کے ساتھ ہوئے معاہدہ کے تحت دی گئی جانکاریوں پر مبنی سیمپل تھا۔ اس ڈیٹا بیس میں این آر میں جمع کروڑوں ہندوستانی شہریوں کے وہیکل رجسٹریشن اور ڈرائیونگ لائسنس کی ڈیجیٹل معلومات شامل ہے۔
دی وائر سے فون پر بات کرتے ہوئے فاسٹ لین کے سی ای او نرمل سنگھ سرنا نے کہا کہ شیئر کیا ہوا سیمپل‘حقیقی’نہیں تھا، اس میں ‘پھیر بدل’کی گئی تھی۔ حالانکہ اس جرمن کمپنی کے ساتھ ہوئی ان کی بات چیت میں وہ شیئر کی گئی اس جانکاری کو ‘انتہائی حساس ’ بتاتے ہیں۔
سال 2020 میں سرکار نے شہریوں کی پرائیویسی سے متعلق اور نجی کمپنیوں کو فروخت کیے گئے ڈیٹا کے غلط استعمال سے متعلق خدشات کی وجہ سے بلک ڈیٹا شیئرنگ پالیسی کو رد کر دیا تھا اور‘پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل2019 کو پارلیامنٹ میں لائے جانے کاانتظار کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔’
آزاد ڈیٹاریسرچر شری نواس کوڈلی اور رپورٹرس کلیکٹو کے ذریعے آر ٹی آئی سے حاصل کیے گئے دستاویزوں سے ملی جانکاری دکھاتی ہے کہ وزارت کے ایف ایل اے کے ساتھ قرار کرنے کے تقریباً دو سال بعد افسروں کو یہ احساس ہوا کہ ‘اس میں سکیورٹی سے متعلق مسئلے اور ڈیٹا لیک ہونے کے امکانات ہیں۔’
اوروزارت کو یہ احساس خود نہیں ہوا تھا۔ اصل میں ایف ایل اے کی طرف سےوزارت کو مطلع کیا گیا تھا کہ وہ ایک جرمن فرم مینجمنٹ سروس ہیلوگ شمٹ جی ایم بی ایچ(مینسرو)کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور معاہدہ کے کچھ اہم دستاویزوں کے ساتھ کچھ سیمپل ڈیٹا انہیں بھیجا گیا ہے۔
دی وائر کی جانب سےایف ایل اے کے سی ای او سے پہلے فون اور پھر تحریری سوالوں کے ذریعے رابطہ کیا گیا۔ ان سوالوں کے مفصل جواب میں سرنا نے کمپنی کے ذریعےکوئی بھی غلط کام کیے جانے سے انکار کیا اور کہا، ‘کسی بھی وقت یا کسی بھی پیمانے پر کوئی نامناسب کام نہیں کیا گیا۔’
سرنا نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ایف ایل اے کے جرمن کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے اور سرکار کی طرف سے ڈیٹا سپلائی بند کرنے کے بیچ کوئی رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سرکار نے ڈیٹا سپلائی پالیسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے بند کی تھی نہ کہ ایف ایل اے کے ذریعے ہوئی کسی چوک یاخلاف ورزی کی وجہ سے۔’
سرنا کے ذریعے اس رپورٹر سے‘ایف ایل اے اور اس کے افسروں کو نامناسب طریقے سے ہراساں کرنے سے باز آنے’کو بھی کہا گیا۔ انہوں نے لکھا، ‘اگر اس جواب کے باوجود آپ ایف ایل اے کے خلاف تعصب سے کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ایف ایل اے ہتک عزت اور توہین کرنے کے سلسلے میں جب ضرورت ہوگی،مناسب قانونی کارروائیوں کا سہارا لےگا۔’(ان کا مکمل جواب رپورٹ کے آخری حصہ میں منسلک ہے۔)
دی وائرکی جانب سےوزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کے دفتر،سکریٹری اور دیگرعہدیداروں کو بھی مفصل سوالنامہ بھیجا گیا ہے، گرچہ کئی بار یاد دہانی کے باوجود وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
وزارت کے ساتھ ہوئے فاسٹ لین کے معاہدہ میں اسے کسی غیر ملکی فرم کے ساتھ قرار کرنے اور حکومت ہند کے ڈیٹابیس سے حاصل کیےسیمپل ڈیٹا کو ٹرانسفر کرنے سے روکنے کے بارے میں کسی بات یا ضابطہ کا ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ اس معاہدہ میں ڈیٹا کے محافظ کے رول میں نیشنل انفارمیٹکس سینٹر(این آئی سی)تھا، لیکن جیسا کہ رپورٹ کے پچھلے حصےمیں بتایا گیا، اسے کانٹریکٹ کو فائنل کرتے وقت درکنار کر دیا گیا۔
ان دونوں کمپنیوں کے بیچ معاہدہ فاسٹ لین کو جانکاری سے متعلق خدمات دینے کے لیے ملے ہندوستانی وہیکل رجسٹریشن اور وہیکلزکی ملکیت میں تبدیلی کے ڈیٹا کے استعمال کے حق کی بنیاد پر ہوا تھا۔
حالانکہ 16 اکتوبر 2014 دونوں کے بیچ ہوا یہ سب کانٹریکٹ جلد ہی ناکم ہو گیا۔ 31 مارچ 2015 مینسرو کو بھیجے ای میل میں فاسٹ لین نے اس سے معاہدہ کا احترام کرتے ہوئے اس سے ملے سبھی ڈیٹا سیٹ کو ڈی لٹ کرنے کی گزارش کی۔ لیکن اس نے یہ بات نہیں مانی۔
اس کے بعد ایف ایل اے نے اُسی سال کےجولائی مہینے میں وزارت کو بتایا کہ وہ ‘متعلقہ عدالتوں’میں مینسرو کے خلاف قانونی کارروائی کر رہا ہے۔ اس بارے میں سرنا سے جب فون پر ہوئی بات چیت میں سوال کیا گیا تب انہوں نے مینسرو کے ساتھ کوئی بھی جانکار ی شیئر کرنے کی بات سے ہی انکار کر دیا۔
جب اس نامہ نگار نے فاسٹ لین کے ذریعےوزارت کو بھیجے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیٹا شیئر کیے جانے کی بات کی، تب انہوں نے کہا، ‘یہ گمنام سیمپل تھا۔ اس کا ہمارے ساتھ شیئر کیے گئے ڈیٹا سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔’اس کے بعد انہوں نے جوڑا، ‘یہ ڈیٹا کا حصہ محض تھا۔’
اس سے الگ ای میل میں بھیجے گئے جواب میں انہوں نے کہا، ‘کانٹریکٹ کے تحت ملی اجازت کے مطابق صرف ڈیٹا کا اسٹرکٹر اور ایک ڈمی(نقلی)ڈیٹا شیئر کیا گیا تھا۔ ہم نے ہمیشہ اس کی پیروی کو یقینی بنایا۔’
دی وائر کے ذریعےوزارت کو ڈیٹا کو آگے ٹرانسفر کئے جانے کے سودےکے بارے میں موجود بچاؤ کے طریقوں کے متعلق سوال بھیجے گئے تھے، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔
جہاں ایک جانب سرنا کا کہنا ہے کہ انہوں نے جرمن کمپنی کے ساتھ ‘گمنام سیمپل’شیئر کیا تھا، کمپنی کے ساتھ ای میل پر ہوئی ان کی بات چیت ان کے ذریعے ٹرانسفر کی گئی جانکاری کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
بتادیں کہ31 مارچ 2015 کو سرنا نے مینسرو کے افسروں کو فاسٹ لین سے ملے ڈیٹا کو ڈی لٹ کرنے کی بات کہتے ہوئے لکھا، ‘ہم پھر اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ جو ڈیٹا اور جانکاریاں دی گئی ہیں وہ بےحد حساس ہیں اور ان کے کسی بھی طرح کے غلط استعمال سے ایف ایل اے کے کام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’
ایف ایل اے کی جانب سے مینسرو کو ڈیٹا ڈی لٹ کرنے کی بات کہنے کے لیے بھیجا گیا ای میل۔
قابل ذکر ہے کہ 13 اگست 2015 کو وزارت نے فاسٹ لین سے ترجیح کی بنیاد پر مینسرو کے خلاف اٹھائےگئے قانونی قدم کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کو کہا۔ حالانکہ سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دےکر17 فروری 2016 کو ڈیٹا سپلائی آخر کار بند کرنے سے پہلے کئی مہینوں تک اسے جاری رکھا گیا۔
مینسرو کے فاسٹ لین کے ذریعےاٹھائے گئے قانونی قدم کے بارے میں پوچھنے پر سرنا نے دی وائر کو بتایا،‘آپسی بات چیت میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کوئی حقیقی ڈیٹا نہیں بلکہ ڈمی ڈیٹا شیئر کیا جائےگا۔ ہم نے ایک ذمہ دارادارہ کے طورپر وزارت کو اس صورتحال سے واقف کرایا تھا اور بتایا تھا کہ اب یہ سب کانٹریکٹ وجود میں نہیں ہے۔’
سرنا نے وزارت کو جرمن کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی جانکاری ان کی کمپنی کے ذریعے مینسرو کو ڈیٹا ڈی لٹ کرنے اور اس کے ایسا نہ کرنے کے چار مہینے بعد دی گئی تھی۔
وزارت کو جرمن کمپنی کے ساتھ ہوئے سب کانٹریکٹ کی جانکاری دینے کے لیے ایف ایل اے کی جانب سے بھیجا گیا خط۔
اس بیچ معاملےمیں دلچسپ موڑ تب آیا، جب معاہدہ سے متعلق دستاویز اور ڈیٹا سے لیس مینسروکے ذریعےوزارت سے رابطہ کیا گیا۔
سال 2015 کی شروعات میں اس نے سرکاری طور پر بلک ڈیٹا تک ایکسیس دینے کی گزارش کی۔ کمپنی کی دلچسپی مختلف طرح کے ڈیٹا سیٹ میں تھی لیکن انہوں نے کار مالکوں کے اضلاع اور پوسٹل کوڈ لوکیشن کی جانکاری میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔
ان کی تجویز پر وزارت نے جواب دیا کہ ‘وہ صرف ان کمپنیوں کے ساتھ بلک ڈیٹا شیئر کرنے کا معاہدہ کر سکتے ہیں جو ہندوستانی کمپنیز ایکٹ/پارٹنرشپ قانون کے تحت آنے والی کسی پارٹنرشپ فرم یا متعلقہ قانون کے دائرے میں آتی ہیں۔’
اس کے بعد 15 اپریل 2015 کو بھیجے گئے ایک ای میل میں جرمن کمپنی نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے لیے اس ڈیٹا تک پہنچنا ضروری کیوں ہے۔ انہوں نے لکھا، ‘اب تک آپ سے یہ ڈیٹا حاصل کرنے والی واحد کمپنی فاسٹ لین ہے اور وہ ابھی بازار میں بےحد نئے ہیں۔’
مینسرو کی جانب سےوزارت کو بھیجی گئی تجویز۔
یہ ای میل سرنا کے ذریعے مینسرو کو ڈیٹا ڈی لٹ کرنے والے ای میل بھیجے جانے کے ایک مہینے بعد اور فاسٹ لین کے وزارت کو مینسرو کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بات بتانے کے تین مہینے پہلے بھیجا گیا تھا۔
ایک ای میل میں سرنا نے دی وائر کو بتایا کہ یہ سب کانٹریکٹ‘کامرشیل وجوہات اور نظریوں میں فرق کی وجہ سے ناکام ہوا، جہاں دونوں فریق نے مل کر اس پارٹنرشپ کو آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔’اگر یہ شراکت آگے جاتی تو جرمن کمپنی حکومت ہند کے ڈیٹا بیس میں جمع ڈیٹا کی پروسیسنگ اور انالسس میں ایک فریق بن جاتی اور یہ حکومت ہند کے ساتھ فاسٹ لین کے ذریعے کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
وزارت کے افسروں نے اس سودے کی کمیوں کے بارے میں کئی بیٹھکیں کی تھیں، جس کے بعد این آئی سی کے ذریعے‘سکیورٹی سے متعلق خدشات اور ڈیٹا لیک کے امکانات’کا اظہار کرنے کے بعد فروری 2016 میں آخرکارفاسٹ لین کو ہو رہی ڈیٹا سپلائی بند کر دی گئی۔ اس کے بعد وزارت نے این آئی سی سے ڈیٹا چھانٹنے اور آگے کوئی حساس جانکاری شیئر نہ کرنے کو بھی کہا۔
اس معاہدہ کو لےکروزارت کے اندر بڑی بحث شروع ہو گئی تھی؛ کیا ڈیٹا کو ریونیو کمانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے؟ اس کے بجائے افسروں کامشورہ تھا کہ سرکار کے ڈیٹا پلیٹ فارمز پر وہیکل اور سارتھی ڈیٹا کو عوامی کر دینا چاہیے۔
حالانکہ 21 اکتوبر 2019 کے ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ وزارت کا کہنا تھا کہ پرائیویسی تب بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
سال 2019 میں بلک ڈیٹا پالیسی لائی گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی پرائیویسی سے متعلق کئی خدشات بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ پالیسی میں یہ قبول کیا گیا تھا کہ ‘ٹرائی اینگولیشن’ کاامکان ہے لیکن اس کی ذمہ داری ڈیٹا خریدار پر ڈال دی گئی تھی۔ ٹرائی اینگولیشن کی مدد سے کوئی بھی ڈیٹا ہولڈر آسانی سے دستیاب کے وائی سی کی مدد سے ہر وہیکل کے مالک کی پوری جانکاری حاصل کر سکتا ہے۔
حالانکہ ہندوستانی کمپنی وزارت سے ملے ڈیٹا کے ساتھ کئی دیگر ڈیٹا سیٹس کی جانکاری ملاکر عالمی بازار میں خود کو اس کے ایک خصوصی خریدار کے طور پر پیش کر چکی تھی۔ وزارت کے ساتھ ہوئے معاہدہ کے تحت اس کی منظوری ملی ہوئی تھی۔
سال 2020 کی شروعات میں دہلی دنگوں کے وقت ہندوستانی ڈیجیٹل لبرٹیز کی نگرانی کرنے والی انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے حکومت ہند کو تفصیل سے لکھا تھا کہ کیوں بلک ڈیٹا پالیسی رد کی جانی چاہیے۔ اسی سال جون میں وزارت کے افسروں نے اسے رد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے نیشنل رجسٹری آف ٹرانسپورٹ کے ڈیٹا پرمبنی رپورٹس کو بھی نجی اکائیوں کے ساتھ شیئر کرنے کے امکانات سے انکار کر دیا تھا۔
کوڈلی کہتے ہیں،‘وزارت کا کہنا ہے کہ اس نے پالیسی ختم کر دی ہے لیکن نجی کمپنیوں کے پاس اب بھی ڈیٹا ہے۔ ان سے اب تک شیئر کئے گئے ڈیٹا سیٹس کو ڈی لٹ کرنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی سرکار نے اس سے کمائی گئی رقم ہی واپس کی ہے۔’
دی وائر کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں پر دیے گئے نرمل سنگھ سرنا کے جواب یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔
Nirmal Singh Saranna respon… by
The Wire
(مضمون نگاررپورٹرز کلیکٹو کےرکن ہیں۔)