پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کئی رپورٹ کی سیریز میں دی وائر سمیت 16 میڈیا اداروں نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کے لیے صحافیوں، رہنماؤں،سماجی کارکنوں،کچھ سرکاری عہدیداروں و کاروباریوں کوممکنہ ٹارگیٹ کے طور پر منتخب کیاگیا تھا۔
نئی دہلی: کمیونی کیشن، الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کے وزیراشونی ویشنو نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے کئی صحافیوں، رہنماؤں اور دوسرے افرادکے مبینہ سرولانس کے سلسلے میں راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کو مسترد کر دیا۔
سرکار نے معاملے کی آزادانہ جانچ کےمطالبہ کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کو ہندوستانی جمہوریت کو بدنام کرنے کی کوشش بتایا۔
جب سے دی وائر اور 16دیگرمیڈیااداروں نے 18جولائی سے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت ان انکشافات کی اشاعت شروع کی ہے، اپوزیشن اس معاملے پرپارلیامنٹ میں بحث کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن نریندر مودی سرکار نے ابھی تک اس کی منظوری نہیں دی ہے۔
اس معاملے پر سوموار، منگل اور جمعرات کو ایوان کی کارر وائی لگاتارمتاثرہوئی۔ اپوزیشن معاملے کی غیرجانبدارانہ جانچ کی مانگ کے ساتھ پارلیامنٹ کےویل میں اکٹھا ہوئے۔
جمعرات کو جیسے ہی پارلیامنٹ کی کارر وائی دوپہر دو بجے دوبارہ شروع ہوئی، ویشنو اپوزیشن کی نعرےبازی کے بیچ اپنا بیان پڑھنے کے لیے دوبارہ اٹھے۔
ہنگامہ کے بیچ انہیں کہتے سنا گیا کہ ایک ویب پورٹل کے ذریعے18 جولائی کو ایک سنسنی خیزاسٹوری شائع کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹوری میں مبالغہ آمیزالزام لگائے گئے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے ایوان کے فلور پر اپنا بیان رکھا۔
ویشنو نے مفصل بیان میں کہا، ‘قبل میں وہاٹس ایپ پر بھی پیگاسس کا استعمال کرنے کےسلسلے میں اسی طرح کے دعوے کیے گئے تھے۔ ان رپورٹس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی اور سپریم کورٹ سمیت تمام فریقوں نے اس سے انکار کیا تھا۔’
انہوں نے کہا کہ 18 جولائی کی پریس رپورٹس بھی ہندوستانی جمہوریت اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش لگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنہوں نے نیوزاسٹوری کو تفصیل سے نہیں پڑھا ہے، ان کا قصورنہیں ہے۔ انہوں نے تمام ممبروں سے حقائق اور دلائل سے معاملے کی جانچ کرنے کو کہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کہا گیا، ‘ڈیٹا میں موجودہ فون نمبر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کیا وہ ڈیوائس پیگاسس سے ہیک کیا گیا تھا یا نہیں۔’
انہوں نے کہا کہ رپورٹ سے ہی واضح ہوتا ہے کہ کسی نمبر کا ہونا اس کی جاسوسی کی تصدیق نہیں کرتا۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ این ایس او نے یہ بھی کہا ہے کہ پیگاسس کا استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست غلط ہے اور اس فہرست میں شامل کئی ملکوں ہمارے کلائنٹ تک نہیں ہے۔ این ایس او نے کہا ہے کہ ان کے اکثرکلائنٹ مغربی ممالک ہیں۔
اس سے اپنا خود کانتیجہ اخذ کرتے ہوئے ویشنو نے کہا، ‘یہ واضح ہے کہ این ایس او نے بھی رپورٹ کے دعوے کو پوری طرح سے خارج کیا ہے۔’
مرکزی وزیر نے سرولانس کے معاملے میں ہندوستان کے پروٹوکال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن ممبر ہندوستان کے پروٹوکال کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
وزیر نے کہا کہ اپوزیشن بھی حکومت کر چکی ہیں اس لیے وہ خود اچھی طرح سے واقف ہیں کہ کسی بھی شکل میں غیرقانونی طور پر سرولانس ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے دی وائر کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ‘رپورٹ کے پبلشر کا کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شائع شدہ فہرست میں موجود نمبر سرولانس کے دائرے میں تھے۔ جس کمپنی کی تکنیک کا مبینہ طور پر استعمال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اس نے ان دعووں سے انکار کیا ہے۔’
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ اتفاق سے مرکزی کابینہ میں نومنتخب وزیر ویشنو کا فون نمبر بھی ان 300 ہندوستانی نمبروں کی فہرست میں شامل ہے، جو 2017-2019 کے دوران سرولانس کے لیے ممکنہ نشانے پر تھا۔
نیوز پورٹل نے اس پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح ویشنو نے یہ کہہ کر لوک سبھا کو گمراہ کیا کہ پیگاسس حملے کے دعوے کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔
وزیر نے سوموار کو ایوان میں کہا تھا کہ قبل میں بھی وہاٹس ایپ پر پیگاسس کا استعمال کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کے دعوے کیے گئے تھے۔ ان رپورٹس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی اور اسے تمام متعلقہ فریقین نے خارج کیا تھا۔
بتا دیں کہ پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر اور اس کے میڈیا پارٹنر نے ہندوستان کے ان 300مصدقہ نمبروں کی فہرست کا انکشاف کیا، جن کی نگرانی کرنے کے لیے اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ایک ہندوستانی کلائنٹ نے پیگاسس ا سپائی ویئر کا استعمال کرنے کامنصوبہ بنایاتھا۔
ان 300مصدقہ نمبروں کی فہرست میں40 سے زیادہ صحافی بھی شامل ہیں۔ اب تک دی وائر نے 16دیگر میڈیااداروں کے ساتھ مل کر 115 ناموں کو اجاگر کیا ہے، جو یا تو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیکنگ کےممکنہ شکار تھے یا جن کی نگرانی کی جا رہی تھی۔
بی جے پی اپنے سینئررہنماؤں کے ذریعے اس نیریٹو کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان رہنماؤں نے کس طرح اس انکشاف کو ہندوستان کو بدنام کرنے کے لیے بین الاقوامی سازش بتایا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی واضح طور پر انکار نہیں کیا ہے کہ حکومت ہندنے پیگاسس اسپائی ویئر کے لیے ادائیگی کی تھی۔
بتا دیں کہ پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر سمیت16میڈیا اداروں کی تفتیش دکھاتی ہے کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کے لیےصحافیوں، رہنماؤں، سماجی کارکنوں، کچھ سرکاری عہدیداروں و کاروباریوں کو ممکنہ ٹارگیٹ کے طور پر منتخب کیاگیا تھا۔