آسام کے گوالپاڑہ ضلع میں آل آسام میاں پریشد کے صدر مہر علی نے ‘میاں میوزیم’ کا قیام کیا تھا، جس میں کمیونٹی سے متعلق چیزوں کی نمائش کی گئی تھی۔ چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما نے کہا ہے کہ یہ چیزیں پورےاسمیا پہچان سے متعلق ہیں نہ کہ خصوصی طور پر’میاں’ کمیونٹی کی پہچان سے۔
نئی دہلی: آسام کے گوالپاڑہ ضلع میں پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت الاٹ کیے گئے ایک گھر میں قائم ‘میاں’ میوزیم کو منگل کو سیل کر دیا گیا اور اس کے مالک کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایک افسر نے یہ اطلاع دی۔
اس میوزیم کو اتوار کو عام لوگوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ آل آسام میاں پریشد کے صدر مہر علی نے پی ایم اے وائی کے تحت انہیں الاٹ کیے گئے گھر کے احاطے میں میوزیم قائم کیا تھا۔
سرکاری افسران کی ایک ٹیم نے لکھیورتھانہ حلقہ کے دپکابھیتا واقع میوزیم کو سیل کر دیا اور نوٹس لگایا کہ اسے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر سیل کیا گیا ہے۔
پی ایم اے وائی کے تحت الاٹ کیے گئے مکان میں میوزیم کے افتتاح نے تنازعہ کو جنم دیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنماؤں نے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بی جے پی اقلیتی مورچہ کے رکن عبدالرحیم جبران نے گھر میں میوزیم بنائے جانے کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔
میوزیم میں کھیتی باڑی اور ماہی گیری میں استعمال ہونے والے کچھ اوزار اور لنگیاں رکھی گئی تھیں۔ مہر علی نے دعویٰ کیا کہ یہ اشیاء ‘میاں’ برادری کی شناخت ہیں۔
علی نے کہا، ہم ایسی اشیاء کی نمائش کر رہے ہیں جن سے کمیونٹی کی پہچان ہوتی ہے تاکہ دوسری کمیونٹی کے لوگ محسوس کر سکیں کہ میاں ان سے مختلف نہیں ہیں۔
آسام میں ‘میاں’ کا لفظ ان بنگالی بولنے والے مسلمان مہاجروں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کی جڑیں بنگلہ دیش میں ہیں۔
میوزیم کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے علی اپنے دو نابالغ بیٹوں کے ساتھ گھر کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے۔ علی نے کہا، ‘ہم ایسی چیزیں دکھا رہے ہیں جن سے کمیونٹی کی پہچان ہوتی ہے۔’ علی کو بعد میں پولیس نے حراست میں لے لیا۔
اس سے پہلے دن میں، وزیر اعلی ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ‘میاں’ برادری کے کچھ افراد کی اس طرح کی سرگرمیوں سے ‘اسامیا پہچان’ کے لیے خطرہ پیدا ہوگیاہے۔
انہوں نے ایک پروگرام سے الگ کہا ، وہ (میاں برادری) کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہل ان کی پہچان ہے؟ ریاست کے تمام کسان اسے صدیوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ صرف لنگی پر دعویٰ کر سکتے ہیں۔
شرما نے کہا کہ میوزیم قائم کرنے والوں کو ماہرین کی کمیٹی کو جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے کس بنیاد پر یہ دعوے کیے۔
‘میاں’ میوزیم کے قیام کی تجویز سب سے پہلے کانگریس کے سابق ایم ایل اے شرمن علی احمد نے 2020 میں پیش کی تھی۔ تاہم شرما نے احمد کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
تاہم، پولیس نے بدھ کو بتایا کہ تین افراد بشمول آسام میاں پریشد کے صدر مہر علی اور جنرل سکریٹری کو دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ میاں پریشد کے صدر ایم مہر علی کو گوالپاڑہ ضلع کے دپکابھیتا میں میوزیم سے اس وقت پکڑا گیا جب وہ دھرنے پر بیٹھے تھے، جبکہ اس کے جنرل سکریٹری عبدالبتین شیخ کو منگل کی رات دھبری ضلع کے عالم گنج میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اتوار کو میوزیم کا افتتاح کرنے والی تنو دھادومیاں، کو ڈبرو گڑھ کے کاواماری گاؤں میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا۔
ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ ان تینوں کے کو القاعدہ ان انڈین سب کانٹیننٹ (ا ےکیو آئی ایس) اور انصارالبنگلہ ٹیم (اے بی ٹی) سے تعلق کے الزام میں تحقیقات اور پوچھ گچھ کے لیے یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت گھوگاپار تھانے میں درج مقدمہ کے سلسلے میں نلباڑی لایا گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرما نے میوزیم کے پیچھے فنڈنگ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس تحقیقات کرے گی کہ فنڈکہاں سے آیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)