گووا کونکنی اکادمی کی ایک کمیٹی نے کونکنی شاعر نلبا کھانڈیکر کی کتاب ‘دی ورڈس’ کی نظم‘گینگ ریپ’ کے دولفظوں پر اعتراض کیا ہےاور اس کی خریداری اور نشر و اشاعت پر روک لگا دی ہے۔ اسی نظم کے لیے کھانڈیکر کو 2019 میں ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ دیا تھا۔
نئی دہلی : کونکنی شاعر اور 2019 کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ نلبا کھانڈیکر کی کتاب کی خریداری اورنشر واشاعت پر روک لگا دی گئی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2018 میں بنی گووا کونکنی اکادمی کی تین رکنی کمیٹی نے خریداری اورنشر واشاعت کے لیے مختلف ادیبوں اورشاعروں کی 64 کتابوں کو منظوری دی تھی، جس میں نلبا کھانڈیکر کی کتاب ‘د ی ورڈس’ بھی تھی۔
کھانڈیکر کی‘دی ورڈس’ کی 90 کاپیوں کے لیے 19 جنوری 2019 کو خریداری کا حکم جاری کیا گیا تھا لیکن گووا کونکنی اکادمی کی کمیٹی نے اس حکم کو رد کر دیا۔کھانڈیکر نے بتایا کہ انہیں اکادمی میں افسروں نے بتایا کہ کمیٹی کی صدراسنیہا موراجکر نے کتاب میں ‘قابل اعتراض اور فحش مواد’ ہونے کا حوالہ دےکر حکم کو رد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ کتاب میں دو لفظ قابل اعتراض پائے گئے، وہ ‘یونی’(شرمکاہ)اور ‘تھن’(چھاتی)تھے۔ یہ ان کی نظم ‘گینگ ریپ’ کا حصہ ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ میں کل 43 نظمیں ہیں۔ ان کی اسی کتاب کے لیے انہیں 2019 کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کی فیصلہ لینے والی کمیٹی نے ان کی اسی نظم کو ‘بہترین ادب’ بتایا تھا۔ ریاستی اکادمی نے نظم میں موجودہ ان لفظوں پر اعتراض کرتے ہوئے ان کی خریداری سے انکار کر دیا۔انڈین آرمی سے سبکدوش اپر ڈویزن کلرک کھانڈیکر نے ان لفظوں کوقابل اعتراض بتائے جانے کی وجہ کو لےکر آر ٹی آئی داخل کی ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میری نظمیں قابل اعتراض کیسے ہیں؟ کوئی جواب نہیں دے رہا اس لیے اب صرف آر ٹی آئی کے ذریعے جواب مل سکتا ہے۔ اس طرح کی نوکر شاہی والی دخل اندازی سے زبان پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں کیونکہ سوال صرف نظموں پر نہیں بلکہ لفظوں کے استعمال پر بھی ہیں۔’
خریداری کے لیے ان 64 کتابوں کو منظوری دینے والے تین ممبروں میں سے ایک پرکاش پارئینکر نے کہا، ‘ہمیں اسنیہا موراجکر نے کہا کہ اکادمی کو نظم میں کچھ قابل اعتراض لفظوں کے استعمال کو لے کر خط ملے تھے۔ یہ فیصلہ پالیسی سے متعلق ہے۔’پارئینکر گووا یونیورسٹی کے کونکنی شعبہ میں ایسوس ایٹ پروفیسر ہیں اوراس کمیٹی کے ممبرہیں، جنہوں نے حکم کورد کرنے کا حتمی فیصلہ لیا تھا۔
پارئینکر نے کہا، ‘کھانڈیکر کی نظمیں بہت ہی الگ ہیں وہ الگ ہیں لیکن حقیقی مدعوں پر ہیں۔ کتاب کی خریداری کو منظوری دینے کے لیے اسے پڑھنے پر ہمیں ان نظموں میں کچھ بھی فحش نہیں لگا۔ اسنیہا موراجکر کو اس میں قابل اعتراض لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر یہ کتاب بچوں کے ہاتھ لگی تو یہ ان کے لیے خطرناک ہوگا۔’وہیں، موراجکر کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی کا فیصلہ تھا، ان کے اکیلے کا نہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ مجھ پر لاد دیا گیا ہے کیونکہ کھانڈیکر کی کتاب نے ایوارڈ جیتا ہے۔ وہ اب مشکل میں ہیں اور اب مجھے قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔ ہم عام لوگ ہیں کوئی تیس مار خاں نہیں۔ میں نے یہ قابل اعتراض لفظ کتاب میں دیکھے تھے اور مجھے خراب نہیں لگے پر میں نے سلیکشن کمیٹی میں باقی کے تین مرد ممبروں سے اس کے بارے میں پوچھا تھا۔ اگر اس میں کچھ مسئلہ نہیں ہوتا تو وہ اس معاملے کو کمیٹی کے پاس نہیں بھیجتے اور کمیٹی کی خاص بیٹھک میں کتاب کی خریداری رد کرنے پررضامندی نہیں ہوتی۔’
کھانڈیکر اب تک چار آر ٹی آئی دائر کر چکے ہیں، جس میں سے دو گووا کونکنی اکادمی اور دو راج بھاشا ندیشالیہ کو بھیجی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 13 ستمبر 2019 کو ہوئی بیٹھک کے منٹس سے سب صاف پتہ چلتا ہے۔ ان آر ٹی آئی کے سوموار کو ملے جواب سے تصدیق ہوئی کہ اکادمی کے پاس کہیں سے کوئی قابل اعتراض خط نہیں آیا۔
موراجکر کی طرف سے شروعات میں ہوئی مخالفت میں عوام سے ملے خطوط کا حوالہ دیا گیا۔کمیٹی کے کئی ممبر اس پر راضی ہوئے کہ کتاب خریدی نہیں جانی چاہیئے۔بیٹھک کے منٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کمیٹی کے دو ممبروں نے پوچھا تھا کہ ان قابل اعتراض لفظوں والی نظم کو ہٹاکر کتاب شائع کی جا سکتی ہے۔ موراجکر کا کہنا تھا کہ کتاب پہلے ہی شائع ہو چکی ہے اس لیےایسا نہیں کیا جا سکتا۔