‘کلیان’ کے 1948 کے شمارے میں مہاتما گاندھی کی موت پر کوئی تعزیتی تحریر شائع نہ کرنے پر دینک جاگرن کے صحافی اننت وجئے کے استدلال پر اکشے مکل کا جواب۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بی جے پی کے قریبی صحافیوں کی طرف سے گیتا پریس کے مہاتما گاندھی کے ساتھ تعلقات کو پھر سے لکھنے کی مسلسل سعی کی جا رہی ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر ہندوستانی تاریخ کو از سر نو لکھنے کی طرح ہی یہ قواعد نصف سچ، بھرم اور پوری طرح سےشرارت پر مبنی ہے۔
دینک جاگرن کے سینئر کالم نگار اور’ ڈاینیسٹی ٹو ڈیموکریسی: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف ایرانی ٹراینپھ’ کے مصنف اننت وجئے نے 16 جولائی کو اپنے کالم میں لکھا تھاکہ جنوری 1948 کا ‘کلیان’ (خواتین نمبر) تیار تھا، جب آر ایس ایس کےممبرناتھو رام گوڈسے کے ذریعےگاندھی کے قتل کی خبر آئی۔ کلیان کا خواتین نمبر پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا، لیکن جو بھی شمارے بھیجے جانے باقی تھے، ان میں گاندھی کے قتل پر تعزیتی پیغام والے تین صفحات کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اننت نے ان صفحات کو پھر سے پیش کیا ہے۔
خواتین نمبر،کلیان کےانتہائی مقبول سالناموں میں سے ایک رہا ہے، جس کو 1948 سے مسلسل شائع کیا جاتا رہا ہے۔ مثالی طور پر ان تین صفحات کو بھی بعد کی اشاعت میں شامل کرتے رہنا چاہیے تھا۔ میں نے 2002 کےاسی خواتین نمبر دیکھا ہے، جس میں گاندھی کے قتل کا ذکر بالکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں وہ تین صفحات بھی ندارد ہیں، جنہیں اننت جیسے لوگ گیتا پریس کی گاندھی سے گہری محبت کا ثبوت مانتے ہیں۔
ویسے، اننت نے بعد کی اشاعتوں میں ان صفحات کی عدم موجودگی کی ایک عجیب و غریب وجہ بھی بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عصری واقعات کے حوالہ جات کو ترک کر دینااشاعتی اداروں کے لیے ایک’عام سی بات’ ہے۔ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ ‘عام’ تو بالکل نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی غیر معمولی فعل ہے اور پبلشنگ انڈسٹری میں ایسا بالکل نہیں ہوتا ۔
بطور مصنف، جن کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن’ بھکتی’ کی توکوئی حد ہوتی نہیں ہے۔
میں اننت کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کلیان کا کوئی بھی ایسا شمارہ پیش کریں، جس میں سے بعض ایسی چیزیں ہٹا دی گئی ہوں ، جو اب موزوں نہیں ہیں۔ کیا کلیان کے انتہائی مقبول شمارے ہندو سنسکرتی (جنوری 1950) کے اشاعت مکرر میں آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی موت کا ذکر ہونا بند ہو گیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
پھربعد کےخواتین نمبر سے گاندھی کے حوالے کو باہر کیوں کر دیا گیا ہے؟
یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے جو میں نے اپنی کتاب میں کہی ہے کہ ؛ پودار اور گیتا پریس کے گاندھی جی کے ساتھ بہت گہرے رشتے تھے جو نظریاتی بنیادوں پر تلخ ہو گئے۔ اس کے علاوہ، گیتا پریس نہ صرف بھکتی (عقیدت)،گیان (علم) اور ویراگیہ (ترک دنیا) کی بات کرتا تھابلکہ یہ ہندو راشٹر کا ایک انتہائی اہم پیروکار بھی تھا۔
اگر گیتا پریس کو گاندھی سے اتنی ہی محبت تھی، تو اسے ایک پورا شمارہ ان کے لیے وقف کرنا چاہیے تھا، جیسا کہ اس نے 1946 میں مدن موہن مالویہ کے لیے کیا تھا۔ گیتا پریس شخصیت پرستی کی مخالفت کرتا ہے، لیکن ایک بار اس نے ایسا کیا جو کانگریس کے کٹر ہندو قوم پرست مالویہ کے لیےتھا۔ اس سے اس کی نظریاتی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔
یہ بے حدمضحکہ خیز ہے کہ اننت کیسےتین صفحات پر بھروسہ کرتے ہیں، لیکن گہرے مسائل کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں بھی بات نہیں کرتے کہ ہنومان پرساد پوددار اور جئے دیال گوئنکا ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے، جنہیں گاندھی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہی نہیں، اننت نے جی ڈی بڑلا کے پودر اور گوئنکا کو جیل سے باہر آنے میں مدد کرنے سے انکار کا بھی کوئی ذکر نہیں کیاہے۔ مختصراً، بڑلا نے توپودار اور گوئنکا کو ‘شیطان دھرم، نہ کہ سناتن دھرم’ کا حامی قرار دیا تھا۔ دونوں بانیوں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ گاندھی جی کے تئیں ان کی گہری محبت کو دکھانے کے لیے یہ تین صفحات خواتین نمبر کی بعض کاپیوں میں شامل کر دیے گئے ہوں۔
یہاں تک کہ آر ایس ایس کے سربراہ – ایم ایس گولوالکر نے، جو اس وقت مدراس میں تھے، گاندھی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے بے چین ہوکرجواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور دیوداس گاندھی کو شام میں ٹیلی گرام بھیجا تھا۔ دھیریندر کے جھا کی کتاب ‘گاندھیزاسیسن: دی میکنگ آف ناتھورام گوڈسے اینڈ ہز آئیڈیا آف انڈیا (2021)’ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گاندھی کا قاتل گوڈسے آر ایس ایس کا ممبر تھا۔
اننت کے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ گیتا پریس دلتوں کے مندر میں داخلے کی مخالفت کر تا تھا اور اس معاملے نے گیتا پریس اور گاندھی کے درمیان ایک بڑی دراڑ پیدا کر دی تھی۔ اننت کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ جب کلکتہ میں گیتا پریس کے ہیڈ کوارٹر گوبند بھون میں بہت بڑاسیکس اسکینڈل ہوا تھا تو وہ گاندھی ہی تھے جو ان کے دفاع میں آئے تھے۔
اننت کو یہ سمجھنے میں کافی مدد ملے گی اگر وہ ‘ہندو پنچ’ اور ‘چاند’ کی ورق گردانی کرسکیں کہ کیسےگاندھی نے اس کی مدد کی تھی۔ انہیں گیتا پریس کی طرف سے دیے گئے ناقص ثبوتوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے آرکائیوز میں کچھ وقت گزارنا چاہیے۔
صحافت اور دینک جاگرن
جب 16 جولائی کو اننت وجئے کا ناقص کالم شائع ہوا تو میں نے فوراً اخبار کے سی ای او سنجے گپتا، مدیر وشنو پرکاش ترپاٹھی اور ادارتی صفحہ کے مدیر راجیو سچان سے رابطہ کیا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنا موقف پیش کرنے دیں جو کہ صحافت میں ایک عام بات ہے۔ مجھے گھنٹوں تک کوئی جواب نہیں ملا۔ بعد میں سچان نے پیغام بھیجا کہ دینک جاگرن سے کوئی مجھ سے رابطہ کرے گا۔
گزشتہ 17 جولائی کو فیچر ڈپارٹمنٹ کے سینئر ایڈیٹر ارون سریواستو کا فون آیا اور انہوں نے مجھ سےمیرے اعتراضات کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں تفصیل سے بتایا۔ وہ پراعتماد نظر آئے اور مجھ سے دوبارہ بات کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے دن انہوں نے فون نہیں کیا۔ پھر 19 جولائی کو جب میں نے سریواستو کو فون کیا تو ان کا جواب تھا: ‘آپ کے جواب کو شائع کرنے کے بارے میں دفتر میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔’
اپنے 24 سالہ صحافتی کیرئیر میں میں نے پہلی بار ایسا کچھ سنا ہے۔ پھر میں نے گپتا، ترپاٹھی اور سچان کو پیغامات بھیجے، پہلی بار کی طرح گپتا اور ترپاٹھی نے جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ہاں، سچان نے مجھے ایک پراسرار جملہ بھیجا: آپ کو مسٹر سنجے گپتا سے براہ راست بات کرنی چاہیے۔
گزشتہ 20 جولائی کو دی وائر کو مضمون ارسال کرنے کے چند گھنٹے بعد سچان نے ایک پیغام بھیج کر مجھ سے 400-500 الفاظ میں اپنا ردعمل بھیجنے کو کہا۔ پھر ہماری بات بھی ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ اننت وجئے میرے اس ردعمل کا جواب دیں گے۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ پھر مجھے بھی ان کی تحریروں کا جواب دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ سچان نے واضح طور پر اس سے انکار کر دیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اخبار رائٹر کو تبھی ایڈٹ شدہ مضمون واپس بھیجتا ہے جب اس میں کچھ اضافہ کیا جاتا ہےورنہ نہیں۔ اگر اس مضمون سے کچھ ہٹایا جاتا ہے تب بھی ہم لکھنے والے کو مضمون نہیں بھیجتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ یہ مضمون دی وائر کو ہی دیا جانا چاہیے۔
(اکشے مکل سینئر صحافی اور گیتا پریس اینڈ دی میکنگ آف ہندو انڈیا کے مصنف ہیں۔)