ٹوئٹرکی جانب سے یہ کارروائی یوپی پولیس کے ذریعےمبینہ طور پرفرقہ وارنہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف چل رہی جانچ کے مد نظر کی گئی ہے۔ غازی آباد کے لونی میں ایک بزرگ مسلمان کے ساتھ مارپیٹ، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں‘جئے شری رام’بولنے کے لیے مجبور کرنے کے واقعہ سے متعلق ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکردی وائر اور ٹوئٹر کے ساتھ کئی صحافیوں اور رہنماؤں کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: غازی آباد کے لونی میں ایک بزرگ مسلمان کے ساتھ مبینہ مارپیٹ کے معاملے میں ٹوئٹر انڈیا نے 50 ٹوئٹس پر روک لگا دی ہے۔انڈین ایکسپریس کی
رپورٹ کے مطابق، ٹوئٹر حکام کے مطابق، عبدالصمد سیفی کے مبینہ حملے اور ان کی داڑھی کاٹنے والے ویڈیو سے متعلق ٹوئٹس تک پہنچ روک دی گئی ہے۔
ٹوئٹرکی جانب سے یہ کارروائی یوپی پولیس کے ذریعےمبینہ طور پرفرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف چل رہی جانچ کے مد نظر کی گئی ہے۔
ٹوئٹر نے ایک بیان میں کہا، ‘جیسا کہ ہمارے کنٹری ودہیلڈ پالیسی میں بتایا گیا ہے، جائزقانونی مانگ کے جواب میں یا جب کنٹینٹ مقامی قانون (قوانین)کی خلاف ورزی کرتی پائی گئی ہے، تو کچھ مواد تک پہنچ کو روکنا ضروری ہو سکتا ہے۔ ودہولڈنگ اس خصوصی دائرہ اختیار/ملک تک محدودہے، جہاں مواد کو غیر قانونی مانا جاتا ہے۔ ہم اکاؤنٹ ہولڈر کو سیدھےمطلع کرتے ہیں تاکہ وے جان سکیں کہ ہمیں کھاتے سے جڑے ای میل پتے پر ایک پیغام بھیج کر کھاتے سےمتعلق قانونی ہدایت موصول ہوئی ہے، اگر دستیاب ہوں۔’
غورطلب ہے کہ 13 جون کی شام کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں 72 سالہ عبدالصمد سیفی نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں‘جئے شری رام’بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بتادیں کہ 15 جون کو دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بزرگ مسلمان پر پانچ جون کو غازی آباد ضلع کے لونی میں اس وقت حملہ کیا گیا تھا، جب وہ مسجد میں نمازادا کرنے کے لیے جا رہے تھے۔اس معاملے میں پولیس نے کلیدی ملزم پرویش گرجر سمیت نو لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ ایک مقامی عدالت نے تمام نو ملزمین کو 17 اگست تک عبوری ضمانت دے دی ہے۔
غازی باد پولیس نے 15 جون کو آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی پر
معاملہ درج کیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیےیہ ویڈیو ساجھا کیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ‘تعویذ’سے جڑے ایک تنازعہ کا نتیجہ تھا، جو بزرگ عبدالصمد سیفی نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا اور اس نے معاملے میں کسی میں کسی بھی
فرقہ وارانہ پہلو کو خارج کر دیا۔ سیفی بلندشہر ضلع کے رہنے والے ہیں۔
دوسری جانب متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے
دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔
ساتھ ہی دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں امت آچاریہ نام کے شخص نے اسے لےکر
شکایت درج کرائی ہے، جس میں اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، ٹیوٹر انک، ٹیوٹر انڈیا اور آصف خان کا نام ہے۔
وہیں معاملے میں متاثرہ بزرگ کے ساتھ ایک فیس بک لائیو کرنے والے سماجوادی پارٹی کے رہنما امید پہلوان ادریسی کو گزشتہ 19 جون کو پولیس نے
گرفتار کر لیا۔
ٹوئٹر کے ایم ڈی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے جانچ میں جڑنا چاہتے ہیں
ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بزرگ مسلمان کے فرقہ وارانہ طور پرحساس ویڈیو کلپ کےنشر سے جڑے معاملے میں غازی آباد پولیس کی جانچ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ حکام نے سوموار کو اس بارے میں بتایا۔
حکام نے بتایا کہ کرناٹک کے بنگلورو میں رہنے والے ایم ڈی منیش ماہیشوری کو غازی آباد پولس نے 17 جون کو نوٹس جاری کیا تھا اور ان سے معاملے میں سات دن کے اندر لونی بارڈر تھانے میں اپنا بیان درج کرانے کو کہا گیا۔
ایس پی (غازی آباد،دیہی) نے بتایا،‘ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی نے جواب دیا ہے اور کچھ وقت کے لیے ویڈیو کال کے ذریعے جانچ سے جڑنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔’
انہوں ے کہا، ‘ٹوئٹر انڈیا کے حکام نے مدعے پر کچھ جانکاریاں اور وضاحت دی ہیں۔ ان اطلاعات کے تناظر میں ہم ٹوئٹر انڈیا کے متعلقہ عہدیداروں کو ایک اور نوٹس بھیجنے والے ہیں۔’
حکام نے کہا کہ غازی آباد پولیس نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے جانچ میں شامل ہونے پر ماہیشوری کے جواب کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)