سماجوادی پارٹی کےرہنما امید پہلوان ادریسی نے مذہبی وجوہات سے حملے کا شکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے 72سالہ عبدالصمد سیفی کے ساتھ فیس بک لائیوکیا تھا۔الزام ہے کہ اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار نوجوانوں نے سیفی کو ‘جئے شری رام’کے نعرے لگانے کو مجبور کیا تھااور اس کی داڑھی کاٹنے کے ساتھ ان کے ساتھ مارپیٹ کی تھی۔
امید پہلوان ادریسی۔ (فوٹو: فیس بک/Ummed Pahalwan Idrisi)
نئی دہلی : اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں بزرگ مسلمان سے مارپیٹ سے متعلق معاملے میں سماجوادی پارٹی کے رہنما امید پہلوان ادریسی کو سنیچر کو گرفتار پولیس نے گرفتار کر لیا۔ سماجوادی رہنما نے واقعہ کے بعد متاثرہ بزرگ کے ساتھ ایک
فیس بک لائیو کیا تھا۔
الزام ہے کہ سماجوادی رہنما نے مذہبی وجوہات سے حملے کا شکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے بزرگ عبدالصمد سیفی کو ویڈیو میں یہ کہنے کے لیے اکسایا تھا کہ غازی آباد کے لونی علاقے میں چار نوجوانوں نے انہیں‘جئے شری رام’کے نعرے لگانے کو مجبور کیا اور اس کی داڑھی کاٹنے کے ساتھ ان کے ساتھ مارپیٹ کی۔
حالانکہ یہ الزام متاثرہ بزرگ نے واقعہ کے بعد ایک ویڈیو جاری کر کےخود لگائے تھے۔غازی آباد پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ لونی بارڈر تھانے میں اپنے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد 16 جون سے فرار امید پہلوان ادریسی کو سنیچر کو دہلی سے پکڑا گیا۔
غازی آباد کےایس ایس پی امت پاٹھک نے صحافیوں کو بتایا،‘دہلی میں لوک نایک جئے پرکاش اسپتال کے پاس سے ملزم امید پہلوان کو غازی آباد پولس کی ایک ٹیم نے پکڑا۔ دہلی میں گرفتار کیے جانے کے بعد آگے کارروائی کے لیے انہیں یہاں لایا جا رہا ہے۔’
ایک مقامی پولیس اہلکار کی شکایت پر ادریسی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔الزام لگایا کہ ‘غیرضروری ’ ویڈیو بنایا تھا، جس میں عبدالصمد سیفی اپنی آپ بیتی بتاتے ہیں۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ سماج میں دشمنی پیدا کرنے کی منشا سے یہ ویڈیو بنایا گیا اور فیس بک کے اپنے اکاؤنٹ پر انہوں نے یہ ساجھا کیا۔
ان پر آئی پی سی کی دفعہ153اے (مختلف گروپوں کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ سازش) اور 504 (بدامنی پیدا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کرکی گئی توہین)کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
سماجواد ی رہنما کے خلاف یہ ایف آئی آر اتر پردیش پولیس کے ذریعے ٹوئٹر انک، ٹیوٹر کمیونی کیشن انڈیا، نیوز ویب سائٹ ‘دی وائر’،صحافی محمد زبیر، رعنا ایوب، صبا نقوی کے علاوہ کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی اور شمع محمد کے خلاف سوشل میڈیا پر ویڈیو ساجھا کرنے کے معاملے میں ایف آئی آر درج کیے جانے کے ایک دن بعد کی گئی تھی۔
ساتھ ہی دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں امت آچاریہ کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہے، جس میں اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، ٹوئٹر انک، ٹوئٹر انڈیا اور آصف خان کا نام ہے۔
وہیں حکام نے بتایا کہ 16 جون کو بھیڑ جمع کرتے ہوئے کووڈ 19 کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے بلندشہر ضلع میں ان کے اور 100دیگر لوگوں کے خلاف جمعرات شام کو ایک دیگر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
غورطلب ہے کہ سوشل میڈیا پر ساجھا کیے گئے ایک ویڈیو میں
بزرگ مسلمان نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ب
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا، ‘غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک مسلم بزرگ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ پانچ جون کو اس وقت ہوا تھا، جب یہ بزرگ نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔’
غازی آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ‘تعویذ’سے جڑے ایک تنازعہ کا نتیجہ تھا، جو بزرگ عبدالصمد سیفی نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا اور اس نے معاملے میں کسی میں کسی بھی
فرقہ وارانہ پہلو کو خارج کر دیا۔ سیفی بلندشہر ضلع کے رہنے والے ہیں۔
دوسری جانب متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے
دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔اس معاملے میں پولیس نے کلیدی ملزم پرویش گرجر سمیت نو لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ ایک مقامی عدالت نے تمام ملزمین کو 17 اگست تک
عبوری ضمانت دے دی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)