
عدالت اور سڑک کی بھیڑکے درمیان کافرق مٹ جانا تشویشناک ہے۔ یہ ایک نئی قوم پرستی کا بے ساختہ جنم ہے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ وہ لوگ شاید بجرنگ دل کے رکن نہیں تھے۔ لیکن جس طرح غزہ سے ہمدردی کی بات سن کر عدالت مشتعل ہوئی اسی طرح یہ بھیڑ فلسطینی پرچم دیکھ کر بھڑک گئی۔

‘اسرائیل اور فلسطین پر حکومت کے موقف کے خلاف احتجاج کا حق بھی ہندوستانی عوام کا ہے اور اسے چھینا نہیں جا سکتا’۔ (تصویر: وکی پیڈیا اور اتل ہووالے/دی وائر)
ہم ہندوستان کے کئی علاقوں میں پولیس اور ہندوتوا کے ہجوم کو ایک ہی طرح سے کام کرتے دیکھ چکے ہیں۔ خصوصی طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاملے میں۔ لیکن جب عدالت بھی ہندوتوا قوم پرستوں کی طرح استدلال کرنے لگے تو محتاط ہوجانا چاہیے؛ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ یہ وارننگ ملی ممبئی اور دہلی کے دو واقعات سے۔
ایک واقعہ بامبے ہائی کورٹ کا تبصرہ ہے اور دوسرا دہلی کے نہرو پلیس پر ہجوم کا ردعمل۔ دونوں کا سیاق وسباق غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے کمرے اور دہلی کے نہرو پلیس میں کیا مماثلت ہے؟
فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستان میں آواز اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے اپنے ہی اتنےمسائل ہیں!’ یہ کوئی راہ چلتا عام آدمی نہیں بول رہا، درصل، بامبے ہائی کورٹ نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی اس وقت سرزنش کی جب اس نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اورنسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے عدالت میں ایک درخواست داخل کی۔
پولیس نے اس مظاہرے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سی پی آئی (ایم) نے عدالت سے اجازت طلب کی تھی۔ عدالت نے اجازت دینا تو دور کی بات ، درخواست گزاروں کو نصیحت تک دے ڈالی کہ وہ ‘محب وطن’ بنیں اور اپنے ملک کے مسائل پر توجہ دیں۔ باہر اتنی دورغزہ میں کیاہو رہا ہے، اس سے انہیں کیا لینا دینا ہے ۔
حب الوطنی اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی میں مخالفت کیوں کر ہو، عدالت سے پوچھا جا سکتا ہے ۔
‘محب وطن بنو’، کیا اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد سے کوئی تعلق نہ رکھیں اور خود غرض بن جائیں؟ کیا حب الوطنی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس سے آنکھیں اور کان بند کر لیں؟
دنیا بھر کے عظیم فلسفیوں نے حب الوطنی کی جتنی بھی تعریفیں پیش کی ہیں، ان میں تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علیحدگی پسندی نہیں ہے۔ کیا لفظ فلسطین میں کوئی ایسی بات ہے جو محب وطن کانوں کو کھٹکتی ہے؟
کچھ دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف جج کا بے ساختہ ردعمل تھا اور انہوں نے اپنے حکم میں یہ نہیں لکھا۔ یہ بے ساختگی ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کوئی کسی کو محب وطن بننے کی نصیحت دینے کا حق رکھتاہے، یہی بات باعث تشویش ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ جج کہہ رہے ہیں کہ محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کسی اور سے ہمدردی کا اظہارنہ کریں۔
عدالت نے سی پی آئی (ایم) کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ‘ہمارے ملک میں بہت سے مسائل ہیں۔ … مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ آپ دور بیں ہیں، آپ غزہ اور فلسطین کو تو دیکھتے ہیں لیکن یہاں کی چیزوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، آپ اپنے ملک کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ اپنے ملک کو دیکھیے، محب وطن بنیے، لوگ کہتے ہیں کہ وہ محب وطن ہیں، لیکن یہ حب الوطنی نہیں ہے۔ پہلے آپ ملک کے شہریوں کے لیے حب الوطنی کا مظاہرہ کیجیے۔’
عدالت کا کہنا تھا کہ پارٹی کو سب سے پہلے کوڑے-کچرے، آلودگی، نالوں وغیرہ جیسے مسائل کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے، اس نے یہ بھی کہا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، یہ خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اور اسے حکومت پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
ناقدین نے درست کہا کہ لگتا ہے عدالت آئینی حقوق بھول گئی ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کو اپنے خیالات رکھنے اور اظہار کرنے کا پورا حق ہے۔ لوگ یہ حق حکومت کے پاس رہن نہیں رکھ سکتے۔ اسرائیل اور فلسطین پر حکومت کے موقف کی مخالفت کا حق بھی ہندوستانی عوام کا ہے اور اسے چھینا نہیں جا سکتا۔
ممبئی کی عدالت جو کہہ رہی تھی وہ دہلی کے نہرو پلیس میں ایک بھیڑ بھی کہہ رہی تھی۔ نہرو پلیس میں تقریباً تیس افراد فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھے۔ جیسے ہی وہ جمع ہوئے تو آس پاس کی دکانوں سے کچھ لوگ نکل آئے اور فلسطینی پرچم چھین کر پھاڑدیا۔ ‘اپنے ملک کا جھنڈا کہاں ہے؟’، انہوں نے مظاہرین سے پوچھا۔
اس ہجوم کا سوال بامبے ہائی کورٹ کے سوال سے مختلف نہیں تھا۔ ‘اپنے ملک کا جھنڈا دکھاؤ، دوسرے ملک کا جھنڈا کیوں اٹھایا ہے؟’ یہ سوال بامبے ہائی کورٹ کی اس سرزنش سے مختلف نہیں؛’محب وطن بنیے! اتنے ہزار میل دور دوسرے ملک کا مسئلہ کیوں اٹھاتے ہیں؟’
بامبے ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ سی پی آئی ایم کوڑے-کچرے، بے روزگاری، آلودگی کے بارے میں بات کرے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ چاہتی ہے کہ مظاہرین بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی حالت کے بارے میں بات کریں۔ دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔
عدالت اور سڑک کا فرق مٹ جانا لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن دوسری بڑی تشویش ایک نئی حب الوطنی یا قوم پرستی کا بے ساختہ جنم لینا ہے۔ نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے لوگ بجرنگ دل یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رکن ہوں۔ فلسطین کا جھنڈا دیکھ کر وہ مشتعل ہو گئے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے عدالت غزہ سے ہمدردی کی بات سن کر مشتعل ہو گئی۔
دونوں ردعمل منصوبہ بند یا منظم نہیں تھے۔ یہ دونوں ردعمل کسی حد تک اسرائیلی ردعمل سے ملتے جلتے ہیں۔ نیویارک ہو یا لندن، سڑک پر کسی کی بھی گردن پر کیفیہ دیکھتے ہی اسرائیلی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو کیفیہ یا فلسطینی پرچم دیکھتے ہی پرتشدد ہو جاتا ہے ۔ یہ بغیر کسی کوشش اور اپیل کے نہرو پلیس پر جمع ہوگیا۔ وہ بھیڑ مظاہرین سے ترنگا جھنڈا دکھانے کو کہہ رہی تھی۔ جس طرح عدالت سی پی آئی ایم کو حب الوطنی کا مظاہرہ کرنےکے لیے کہہ رہی تھی۔

نہرو پلیس پر مظاہرے کے دوران آس پاس کے لوگوں نے مظاہرین کو روک دیا تھا۔ (تصویر: اتل ہووالے/دی وائر)
کیا اس بے ساختہ ہندوتوا کو بے ساختہ کہنا غلط ہوگا؟ فلسطینی پرچم ہو یا سبز جھنڈا یا برقع یا ٹوپی، ان کو دیکھ کر یا اذان سن کر کوئی مشتعل ہو جائے تو کیا یہ فطری کہلائے گا؟ یہ نہرو پلیس میں فلسطینی پرچم کا ردعمل تھا۔
پونے میں 2014 میں کچھ لوگوں نے محسن شیخ کے لباس سے مشتعل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ عدالت قاتلوں کے تئیں اس لیے نرم تھی کہ ان کا ردعمل، جو محسن شیخ کے قتل کا باعث بنا، بے ساختہ تھا۔ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
سال 2014 سے 2025 تک اس ہندوتوا کے بے ساختہ پن کا دائرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ کچھ خاص طرح کی کی آوازیں، رنگ، عمارتیں اور لباس ایک خاص قسم کے پرتشدد ردعمل کا سبب بنتے ہیں۔ اب یہ اس شخص کے اختیار میں نہیں رہا جو اس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
یہ ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے حسی نظام کے سکڑنے کی علامت ہے۔ اور یہ ہندوؤں کے لیے بری خبر ہے۔ کیونکہ انسانی حسی نظام باقی مخلوقات سے اس لحاظ سے مختلف اور نفیس ہے کہ وہ اپنی طبعی اور حیاتیاتی حدود سے ماورا ہے۔
انسانی حسی نظام زیادہ انسانی کیوں ہے؟ اسے نہ صرف اپنے جسم پر لگنے والی چوٹ سے تکلیف ہوتی ہے بلکہ یہ کسی اور کو لگنے والی چوٹ سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ ویتنام میں نیپلم بم سے جلنے کے بعد بھاگنے والی لڑکی کی تصویر نے ہم سب کو پریشان کر دیا۔ ویتنامی ہونا اس کے لیے شرط نہیں تھا۔ انسانی حسی نظام اپنی جسمانی حدود سے تجاوز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بعد میں ہمدردی تک پہنچ جاتا ہے۔
ہم صرف رام دھاری سنگھ دنکر کی نظمیں پڑھ کر متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ محمود درویش کی نظمیں پڑھ کر بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں ہندوؤں کا ایک طبقہ اب ہمدردی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ وہ بھوک سے نڈھال بچوں یا غزہ کو بمباری سے تباہ ہوتے دیکھ کر پریشان نہیں ہوتے، وہ زور سے ہنستے ہیں۔ ایسی ہنسی سے کون انسان نہیں ڈرے گا؟ یہ قہقہہ اس معاشرے کے غیر انسانی ہونے کی خبر ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)