ماتری سدن کے سنتوں کی مانگ ہے کہ گنگا میں غیر قانونی کھدائی بندہونی چاہیے، تمام مجوزہ اور زیرتعمیر باندھ پر فوراً روک لگائی جائے اور گندی نالی کا پانی بنا صاف کئے یا صاف کرنے کے بعد بھی ندی میں نہ ڈالا جائے۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہری دوار واقع سادھو-سنتوں کے آشرم ‘ماتری سدن ‘نے الزام لگایا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت گنگا صفائی کی مانگ کرنے والےسنتوں پر ظلم کر رہی ہے اور ان کی باتوں کو سننے کے بجائے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ماتری سدن پچھلی دو دہائیوں سے گنگا سے جڑی غیر قانونی کھدائی، بڑےباندھوں وغیرہ کے خلاف بھوک ہڑتال کرتا رہا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان مدعوں کو لےکر اب تک 62 بھوک ہڑتال کیے ہیں۔
مشہور ماہر ماحولیات اور گنگا امور کے ماہر سائنس داں جی ڈی اگروال بھی ماتری سدن سے جڑے تھے اور سال 2011 میں سادھو بن گئے، جس کے بعد ان کو سوامی گیان سوروپ سانند کے نام سے جانا جانے لگا۔گنگا کو رواں بنانے کی مانگ کو لےکر لگاتار 112 دنوں تک لگاتاربھوک ہڑتال کے بعد ان کی متنازعہ حالت میں سال 2018 میں موت ہو گئی تھی۔
اگروال کے علاوہ ماتری سدن کے سوامی نگمانند سرسوتی اور سوامی گوکل آنند کی بھی گنگا صفائی کو لےکر بھوک ہڑتال کے دوران مشکوک حالت میں موت ہوچکی ہے۔ اس وقت دو نوجوان سنت 23 سالہ سادھوی پدماوتی اور آتمابودھانند بھوک ہڑتال پر ہیں اور دونوں کی حالت بےحد خراب ہے۔گزشتہ سال 15 دسمبر سے ہی گنگا کو رواں اور صاف بنانے کی مانگ کو لےکر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں پدماوتی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ان کو دہلی کےایمس ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ آتمابودھانند بھی ایمس میں بھرتی ہیں، جو کہ گزشتہ 22 فروری سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔
اس سے پہلے آتمابودھانند 194 دنوں تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے جس کو لوک سبھا انتخاب سے دو ہفتے پہلے قومی سوچھ گنگا مشن کے ڈائریکٹر جنرل راجیورنجن مشرا نے مناسب قدم اٹھانے کی یقین دہانی دےکر ختم کرایا تھا۔ماتری سدن کا الزام ہے کہ یہ بھوک ہڑتال اس لئے ختم کرایا گیا تھاتاکہ نریندر مودی کے انتخاب سے پہلے سال بھر میں دوسرے سادھو کی موت سے دنگا فسادنہ کھڑا ہو جائے۔ سدن کا کہنا ہے کہ آتمابودھانند کی بھوک ہڑتال ختم کرانے سے پہلےکئے گئے وعدے پورا نہ ہونے پر پدماوتی بھوک ہڑتال پر ہیں۔ یہ آشرم کی تاریخ میں پہلا ایسا موقع ہے جب کسی خاتون نے یہ قدم اٹھایا ہے۔
حالانکہ انتظامیہ پر سادھوی پدماوتی پر لگاتار استحصال کرنے اور ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔ گزشتہ30 جنوری 2020 کو اتراکھنڈ کی پولیس نے پدماوتی کو آشرم میں بھرتی کرا دیا تھا اور ان کو زبردستی دون ہاسپٹل میں بھرتی کرا دیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ دو مہینے سے حاملہ ہیں۔ حالانکہ جب اس کی تفتیش ہوئی تو یہ بات جھوٹی نکلی۔ماتری سدن کے چیف سوامی شیوانند سرسوتی نےکہا، ‘ کسی خاتون کے لئے اس سے برا ذہنی استحصال کیا ہو سکتا ہے کہ اس کو جھوٹے طورپرحاملہ بتا دیا جائے۔حکومت-انتظامیہ کی طرف سے یہ آشرم کو بدنام کرنے کی کوشش ہے تاکہ کسی طرح ماتریسدن کو ختم کیا جا سکے۔ ہمارے سنت جب تک آشرم میں بھوک ہڑتال پر رہتے ہیں وہ بالکل ٹھیک رہتے ہیں اور جیسے ہی ان کو پولیس زبردستی اٹھاکر کسی ہاسپٹل میں لے جاتی ہےتو ان کی حالت بگڑنے لگتی ہے اور آخرکار مشتبہ حالت میں موت ہو جاتی ہے۔ ‘
پچھلے مہینے 19 فروری سے سوامی شیوانند کو 20 سالوں سے حکومت سےملی سکیورٹی ہٹا لی گئی۔ یہ سکیورٹی ان کو کھدائی مافیا سے خطرہ کو دیکھتے ہوئےملی تھی۔سرسوتی کہتے ہیں جس طریقے سے ان کے یہاں کے سنتوں کی موت ہو رہی ہےاس کی وجہ بھوک ہڑتال کرنا نہیں ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘بھوک ہڑتال کے دوران ہم اپنے سنتوں کو خاص چیزیں کھلاتے ہیں جس سے وہ ٹھیک رہتے ہیں اور بھوک ہڑتال بھی جاری رہتی ہے۔ حکومت گنگا کو رواں اور اس کو صاف کرنے کے بجائے ہم سنتوں کی توہین کر رہی ہے۔ ‘
سوامی شیوانند کہتے ہیں کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیںگے اور ان کے سنت گنگا کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ حکومت کے ذریعے صحیح قدم نہیں اٹھانے کی وجہ سے سادھوی پدماوتی نے گزشتہ مہینے 16 فروری سےپانی چھوڑ دیا تھا۔ماتری سدن کی مانگ ہے کہ گنگا میں غیر قانونی کھدائی بند ہونی چاہیے، تمام مجوزہ اور زیرتعمیر باندھ پر فوراً روک لگائی جائے اور گندی نالی کاپانی بنا صاف کئے یا صاف کرنے کے بعد بھی ندی میں نہ ڈالا جائے۔
واضح ہو کہ قومی گنگا بل پچھلے کئی سالوں سے زیر التوا ہے اور اس کو قانون سازمجلس میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس بل کے ڈرافٹ کے مطابق گنگا کی روانی روکنے اور آلودگی پھیلانے پر پانچ سال کی جیل اور 50 کروڑ روپے تک کاجرمانہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس بل کو گزشتہ سال قانون سازمجلس کے سرمائی اجلاس میں ہی پیش کیاجانا تھا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔انہی مانگوں کو لےکر دہلی کے جنتر منتر پر ماتری سدن نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ حکومت سنتوں سے بات کرے اور ان کی مانگوں پر غور کر کے ان کو منظور کرے تاکہ سنتوں کی جان بچائی جا سکے۔ اس پروگرام میں سماجی کارکن میدھاپاٹکر اور ریمن میگسیسے ایوارڈیافتہ سندیپ پانڈے موجود تھے۔
پاٹکر نے کہا، ‘یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ہندوتووادی حکومت کی حکومت میں گنگا کے تحفظ کے مدعے پر سادھو اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اورحکومت ہی نہیں سماج بھی اتنا حساس نہیں کہ ان کے ساتھ ہمدردی بھی دکھا سکے۔ ‘