گاندھی اسمرتی اور درشن سمیتی کے ہندی میں شائع ہونے والے ماہانہ رسالے ’انتم جن‘ کے ہندوتوا لیڈر وی ڈی ساورکر پر نکالے گئے خصوصی شمارے کو گاندھیائی فلسفے میں یقین رکھنے والوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ گاندھیائی فلسفہ کو بگاڑنےکی منصوبہ بند حکمت عملی ہے۔
نئی دہلی: مہاتما گاندھی کو وقف قومی یادگار اور میوزیم نے اپنے ماہانہ رسالے کا ایک خصوصی نمبر ہندوتوا رہنما ونایک دامودر ساورکر پرنکالا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، گاندھیائی فلسفے میں یقین رکھنے والوں اور اپوزیشن لیڈروں نے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وی ڈی ساورکر کو گاندھی اسمرتی اور درشن سمیتی کے ماہانہ رسالہ ’انتم جن‘ کے سرورق پر جگہ ملی ہے، جبکہ اسی شمارے میں مذہبی رواداری پر مہاتما گاندھی کا مضمون، ہندوتوا پر ساورکر کا مضمون اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا ساورکر پر مضمون شامل ہے۔
ساورکر کی کتاب ہندوتوا سے ایک اقتباس اسی عنوان کے ساتھ ایک مضمون کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ ‘دیش بھکت ساورکر’ اور ‘ویر ساورکر اور مہاتما گاندھی’ کے عنوان سے دیگر مصنفین کے مضامین بھی شمارے میں شامل کیے گئے ہیں۔ رسالےکے مدیر پروین دت شرما نے ‘گاندھی کا غصہ’ کے نام سے ایک مضمون لکھا ہے۔
گاندھی اسمرتی اور درشن سمیتی کے نائب صدر وجے گوئل نے جمعہ کو دی ہندو کو بتایا کہ یہ شمارہ ساورکر کو مختص ہے کیونکہ 28 مئی کو ان کا یوم پیدائش تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ویر ساورکر ایک عظیم انسان تھے۔ جیسے گاندھی تھے، جیسے پٹیل تھے۔ ہمیں ان کی قربانیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ برطانوی راج میں ساورکر نے جتنا وقت جیل میں گزارا کسی اورنے نہیں گزارا۔
ساورکر کی رحم کی درخواستوں سے متعلق دعووں کے بارے میں پوچھے جانے پر گوئل نے کہا، یہ معاملہ ان لوگوں کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے جنہوں نے کوئی قربانی نہیں دی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ رسالہ مجاہدین آزادی پر نمبر شائع کرتا رہے گا ور اگست کے مہینے کا شمارہ آزادی کے 75 سال پورے ہونے پر ‘آزادی کا امرت مہوتسو’ کے تھیم پر رہے گا۔
گاندھی اسمرتی اور درشن سمیتی، جس کی سربراہی وزیر اعظم نریندر مودی کرتے ہیں، گاندھی اسمرتی – نئی دہلی کے تیس جنوری مارگ پر واقع وہ گھر جہاں 1948 میں گاندھی کو قتل کیا گیا تھا اور جسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے کے ساتھ ہی گاندھی درشن، جو راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کی یادگار ہے، کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔
گاندھیائی فلسفہ میں یقین رکھنے والوں اور اپوزیشن کی تنقید
مہاتما گاندھی کے پڑپوتے اور گاندھی پر کئی کتابیں لکھنے والے تشار گاندھی نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز ہے۔
انہوں نے کہا، گاندھیائی اداروں کو کنٹرول کرنے والے اس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ یہ بار بار ہوتا رہے گا ۔ یہیں پر گاندھیائی نظریے پر سیاسی نظریے کے حاوی ہونے کا خطرہ ہے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ساورکر کا گاندھی سے موازنہ کرنا بھی ان کے فریسٹریشن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ساورکر پر ان کا ایمان کتنا سطحی اور کمزور ہے۔ یہ گاندھیائی نظریہ کو بگاڑنے اور ایک نیا بیانیہ – جو موجودہ حکومت کے لیے راحت طلب ہو، بنانے کی منصوبہ بند حکمت عملی ہے۔
رائٹر اور صحافی دھیریندر کے جھا، جنہوں نے حال ہی میں گاندھی کے قتل کی سازش پر ایک کتاب لکھی ہے،انہوں نے کہا کہ ،ساورکر پر گاندھی کے قتل کا الزام تھا، حالانکہ انہیں رہا کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔
جھا نے مزید کہا، لیکن اس وقت گاندھی کے قتل میں سازش کے زاویے کی صحیح طریقے سے جانچ نہیں کی گئی تھی۔ گاندھی کے قتل کی سازش کی تحقیقات کے لیے کپور کمیشن آف انکوائری بہت بعد میں 1966 میں تشکیل دی گئی تھی۔ کمیشن نے واضح طور پر کہا کہ ساورکر اور ان کے ماتحتوں کے ایک گروپ نے گاندھی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ قتل کے مقدمے کے دوران ساورکر کو جو شک کا فائدہ دیا گیا اسے ساورکر کے الزام سے بری ہونے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
لوک سبھا میں کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ مرکزی حکومت گاندھی اسمرتی سنستھا کو اسی طرح تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس طرح وہ دوسرے اداروں کے ساتھ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ساورکر کو ایک بڑی شخصیت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہے۔ لیکن تاریخ برطانوی سامراج کے تئیں ساورکر کے رویے کے بارے میں بتاتی ہے۔ موجودہ حکومت کو خوش کرنے کے لیے ملکی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔ یہ بہت شرمناک ہے۔