کشمیر اور 370 سے لے کر تقسیم تک نہرو سے بی جے پی کی نفرت جھوٹ کی بنیاد پر ٹکی ہے

خصوصی تحریر: وزیر داخلہ امت شاہ نے اگست میں کی گئی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر نہرونہ ہوتے، تو پاک مقبوضہ کشمیر ہندوستان کے قبضے میں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو یہ صرف نہرو کی وجہ سے ہی ہے۔

خصوصی تحریر: وزیر داخلہ امت شاہ نے اگست میں کی گئی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر نہرونہ ہوتے، تو پاک مقبوضہ کشمیر ہندوستان کے قبضے میں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو یہ صرف نہرو کی وجہ سے ہی ہے۔

جواہرلال نہرو،فوٹو بہ شکریہ: IISG/Flickr (CC BY-SA 2.0

جواہرلال نہرو،فوٹو بہ شکریہ: IISG/Flickr (CC BY-SA 2.0

جواہرلال نہرو کے لئے سنگھ پریوار کی نفرت پوری طرح سے سمجھ میں آنے لائق ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت وہ گاندھی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے رہےاور آر ایس ایس  کی پروردہ نفرت کامقابلہ انہوں نے پورے حوصلے  کے ساتھ کیا۔جیسا کہ اتر پردیش کے چیف سکریٹری رہے راجیشور دیال نے اپنی آپ بیتی’اےلائف ان آورٹائم‘ میں لکھا ہے، مسلمانوں کو پوری طرح سے مٹا دینے کا آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گولولکر کا منصوبہ پکڑ لیا گیا۔ دیال کے مطابق، اگر ان کو گرفتارکر لیا جاتا، تو گاندھی جی کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔

بی جے پی اور آر ایس ایس آج بھی گاندھی کو لےکر اچھا محسوس نہیں  کرتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی نے پارلیامنٹ ہاؤس کے ہال میں وی ڈی ساورکر کی آدم قد تصویر لگوائی-اس ساورکر کی جن کو سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس جےایل کپور نے گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث  ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔

ساورکراور سنگھ پریوار کے لیے بائبل کا درجہ رکھنے والی کتاب ہندوتواکے مصنف ہیں۔پارلیامنٹ کے ہال میں گاندھی کی تصویر کے سامنے ان کےقتل کی سازش کرنے والے کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ 1989 میں نہرو کےتئیں بی جے پی کی نفرت کی حد کا تب مجھے اندازہ لگا، جب میں اپنے دوست جسونت سنگھ سے ملا۔

ہم میں سے کچھ دوستوں کو لگتا تھا کہ وہ اعتدال پسند ہیں۔ انہوں نے مجھ سےمورتی توڑنے والے کے لئے اردو لفظ پوچھا۔ اردو میں اس کے لئے لفظ ہے بت شکن۔ انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے مجھ سے پہلی بار کہا کہ ہمیں تین ‘مورتیوں'(بتوں)کولازمی طور پر مسمار کردینا چاہیے-منصوبہ اور غیروابستگی۔ انہوں نے تیسرے کا نام نہیں لیا۔ لیکن صاف طور پر یہ تیسری مورتی سیکولرزم تھی۔

انہوں نے ممبئی میں کاروباریوں کے جلسہ میں  اظہارافسوس  کرتے ہوئےکہا کہ ہندوستان میں تین-‘ جی’کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے-گائے، گنگا اورگیتا۔ انہوں نے اس سے پہلے کبھی بھی اس جھوٹ کا اظہار نہیں کیا تھا۔

 نہرو کے تئیں نفرت کو تاریخی مفروضوں  کے ذریعے بھڑکایا گیا ہے۔سچائی کبھی بھی سنگھ پریوار کی خوبی نہیں تھی۔ ایک مثال دےکر اپنی بات کہوں، تو اڈوانی نے بناکسی شرم کے جن سنگھ کی بی جے پی میں نیا اوتار گرہن کرنے کے معاملے میں اپنی کتاب مائی کنٹری مائی لائف (2008) میں دو متضاد باتیں کہی ہیں۔

صفحہ 38 پر وہ لکھتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں’جن سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی بن گیا۔ ‘لیکن صفحہ 311 میں وہ لکھتےہیں کہ ‘بھارتیہ جن سنگھ اور جنتا پارٹی، دونوں کے ساتھ ہمیں اپنے رشتے پر فخر ہے،لیکن اب ہم ایک نئی پارٹی ہیں، جس کی ایک نئی پہچان ہے۔ ‘یہ ایک بےشرم جھوٹ ہے۔ بی جے پی نے جلدہی اپنے آدرش  میں ایک نئی چیز-‘ گاندھیائی سوشل ازم’کو فروغ دیا۔ اٹل بہاری واجپائی نے سچ بیان کیا تھا، ‘ہم نے جن سنگھ چھوڑا ہی کب تھا؟’

اس نے آر ایس ایس کو ناراض کر دیا، جو جن سنگھ کو پھر سے زندہ کرنا چاہتاتھا۔ واجپائی اور اڈوانی کو یہ پتہ تھا کہ سنگھ کا نام اس ملک میں کیچڑ کی مانندتھا۔ اس کو 1984 کی دو سیٹوں سے 1989 میں 89 سیٹوں تک کی چھلانگ لگانے کے لئے ایودھیا کے تخریبی نعرے کی تلاش تھی، جس کو راجیو گاندھی نے کھلےدل سے 1986 میں فراہم  کر دیا۔

اگر یہ لوگ ایسے معاملوں میں جھوٹ بول سکتے ہیں، تو ان سے نہرو کے ریکارڈکے معاملے میں کچھ بہتر کی امید نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر آج کشمیر ہندوستان کاحصہ ہے، تو یہ تقریباً پوری طرح سے نہرو کی وجہ سے ہے۔ یہ ان کی ہی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے کشمیر کے سب سے بڑے رہنما شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ 1930 کی ہر دہائی میں ایک آپسی سمجھ پیدا کرلی تھی۔

انہوں نے تقسیم سے پہلے ہی مئی، 1947 میں وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو ایک تفصیلی خط لکھ‌کر جموں و کشمیر پر اپنی دعوےداری پیش کی تھی۔ جبکہ بی جے پی کیی پہلی صورت جن سنگھ کی دلچسپی صرف جموں اوراس کی نمائندہ رعایا کونسل میں ہی تھی۔

1 جنوری، 1952 کو نہرو نے ایک کڑوا سچ بیان کیا تھا، جو آج بھی بی جے پی کو پریشان کرتا ہے۔ حالیہ مہینے میں بی جے پی کے سلوک نے نہرو کو سچ ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا :

‘آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری سیکولر پالیسیاں، ہمارے آئین کی اس سےبڑی خوبی اور کیا ہو سکتی ہےکہ کشمیر کی عوام ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن آپ بس تصورکیجئے کہ کیا ہوا ہوتا اگر جن سنگھ یا کوئی دوسری فرقہ پرست پارٹی اقتدار میں ہوتی۔کشمیر کی عوام کہتی ہے کہ وہ فرقہ پرستی سے عاجز آ چکے ہیں۔ وہ ایسے ملک میں کیوں رہنا چاہیں‌گے، جہاں جن سنگھ اور آر ایس ایس مسلسل ان کو پریشان کرتےرہیں؟وہ کہیں اور چلے جائیں‌گے اور وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں‌گے۔'(ایس گوپال [مرتبہ]سلیکٹیڈ ورکس آف جواہرلال نہرو ؛ جلد17، ص:78)

پٹیل کو بھی رائےعامہ کے وعدے کی جانکاری تھی، جیسے ان کے کابینہ معاون شیاما پرساد مکھرجی کو تھی۔ ہم نریندر مودی اور ان کے دائیں ہاتھ امت شاہ جیسےلوگوں سے سچ کی امید نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ نہ صرف غیر تعلیم یافتہ  ہیں، بلکہ ان کوتعلیم دے پانا ناممکن ہے۔

 شاہ نے، جو اب مرکزی وزیر ہیں، نے 28 جون کو لوک سبھا میں اپنی تقریر میں جو کہا اس کو یاد کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ نہرو کے خلاف بی جے پی کے تمام اہم الزامات کو دوہراتا ہے۔کوئی بھی مرکزی وزیر مودی کی تعریف کے پل باندھے بغیر کسی بھی موضوع پراپنا منھ کھولنے میں اہل نہیں ہے۔ یہ سیاسی فحاشی کتنے وقت تک چلتی ہے، یہ دیکھنےوالی بات ہے۔

لوک سبھا میں وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

لوک سبھا میں وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

تقسیم

چلیے ہم پہلے الزام سے شروع کرتے ہیں۔ پوری کانگریس پارٹی، جس میں پٹیل بھی شامل تھے، اس کے حصےدار تھے۔ 2019 کی کانگریس 1947 یا 1944 کی کانگریس نہیں ہے۔ 1944 میں گاندھی نےجناح کو جو فارمولہ دیا تھا، اس میں’لگے ہوئے مسلم اکثریت اضلاع میں’رائےعامہ کے بعد تقسیم کا تصور کیا گیا تھا۔

 لیکن سب سے بڑے تقسیم کار جن سنگھ کے بانی مکھرجی تھے۔ وہ انگریزوں کےمعاون تھے، جو گورنر کو ہندوستان چھوڑو تحریک کو ناکام کرنے کا طریقہ بتایا کرتےتھے۔ اگر مسئلہ تقسیم کا نہیں ہوتا، تو جناح ان کے ساتھ تین گھنٹے تک بات نہیں کرسکتے تھے۔ ‘

1946 کی  کابینہ مشن منصوبہ ہندوستان کی یکجہتی کو بچائے رکھنے کا آخری موقع تھا۔ اس میں ایک متحد ہندوستان کا تصور کیا گیا تھا۔ جناح نے اس کو منظورکیا، مگر کانگریس اس کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ مکھرجی کو یہ بالکل راس نہیں آیا۔ وہ تقسیم چاہتے تھے۔ 11 مئی، 1947 کو انہوں نے پٹیل کو لکھا تھا :

‘میں امید کرتا ہوں کہ آخری گھڑی میں مسلم لیگ کے ذریعے کابینہ مشن منصوبہ کو منظور کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر صورت حال کے لحاظ سے جناح ایسا کرنے کےلئے مجبور ہو جاتے ہیں، تو برائے مہربانی بنگال کی تقسیم کے مسئلے کو ہٹنے مت دیجیے۔ اگر کابینہ مشن کا منصوبہ کے تحت جس ڈھیلے-ڈھالے مرکز کا تصور کیا گیا ہے،وہ قائم بھی ہو جاتا ہے، توبھی ہم بنگال میں بالکل بھی محفوظ نہیں رہیں‌گے۔ ہم موجودہ بنگال کو بانٹ کر دو ریاستوں کی تشکیل کی مانگ کرتے ہیں۔'(درگا داس [مرتبہ]Sardar Patel’s Correspondence، حصہ 4، ص:40) یعنی ملک کی تقسیم نہ ہونے کی صورت میں بھی بنگال کی تقسیم مذہبی بنیاد پرکی جانی چاہیے۔(فیڈریشن)کی فطرت پر اور/یا مشرقی بنگال، سندھ،پنجاب، نارتھ-ایسٹ فرنٹیر پریونس اور بلوچستان جیسے مؤثر ریاستوں پر اس کا کیا اثرہوتا، اس کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

یونین کابینہ  کے ممبروں کے ساتھ شیاما پرساد مکھرجی(فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیاکامنس)

یونین کابینہ  کے ممبروں کے ساتھ شیاما پرساد مکھرجی(فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیاکامنس)

ہندو سیاستدانوں  کا ایک طبقہ  ہمیشہ سے تقسیم کا طرفدار تھا۔ لاجپت رائے یہ بات 1924 میں ہی کہہ چکے تھے۔ مکھرجی ایک ایسےکابینہ  میں کیوں شامل ہوئے، جس کے رہنماؤں نے ہندوستان کی تقسیم کو منظور کیاتھا؟ ایسا انہوں نے اتنی ہی آسانی کے ساتھ کیا، جتنی آسانی کے ساتھ وہ بنگال میں فضل الحق کی وزارت کونسل میں شامل ہوئے تھے۔ وہ جموں اور کشمیر کی تقسیم بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر چاہتے تھے۔ وہ اندر سے تقسیم کے پیروکار تھے۔

 پھر بھی امت شاہ نے کہا، ‘بٹوارا کس نے کیا؟ ہم نے نہیں کیا؟ کس نےبٹوارے کو اپنی منظوری دی؟ آج بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک کو مذہب کے بنیاد پر نہیں بانٹا جانا چاہیے۔ یہ ایک تاریخی غلطی تھی۔ یہ ہمالیہ جیسی اونچی اور سمندر جیسی گہری ہے۔ لیکن ہم نے ویسی غلطی نہیں کی۔ غلطی آپ کے ذریعے کی گئی تھی، آپ کی پارٹی نے کی ہے اور آپ تاریخ سے بھاگ نہیں سکتے ہیں۔ ‘

کشمیر میں جنگ بندی/سیز فائر

امت شاہ نے کہا،’جنگ بندی کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم جواہرلال نہروتھے۔ اب وہ حصہ پاکستان ہے۔ آپ ہمیں تاریخ پڑھا رہے ہیں، الزام لگا رہے ہیں، پریس کانفرنس کر رہے ہیں، ہم اس کو یا اس کے اعتماد میں نہیں لیں‌گے۔ بنا ملک کے وزیرداخلہ اور نائب وزیر اعظم کو اعتماد میں لئے، جواہرلال نہرو نے فیصلہ لیا ہے ؛ اگر(اوروں کو)کو اعتماد میں بھی لیا جاتا، تو پاک مقبوضہ کشمیر آج ہندوستان کے قبضےمیں ہوتا۔ ‘

یہ پوری طرح سے جھوٹ ہے۔ پٹیل کے خط وکتابت کا حصہ ایک اس جھوٹ کو بے نقاب کر دیتا ہے کہ پٹیل کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اگر ایسا کیا جاتا، تو یہ پٹیل جیسے بڑے قد کے شخص کے لئے کابینہ  سے استعفیٰ دینے کی اہم وجہ ہوتی۔ اس معاملے میں سارے حقائق پیشہ ور فوجی مؤرخ ایس این پرساد نے انٹرویوز اوردستیاب دستاویزوں کی بنیاد پر پیش کئے تھے۔ وہ وزارت دفاع کے شعبہ تاریخ  کےڈائریکٹر تھے۔

 وزارت دفاع کے شعبہ تاریخ نے 1987 میں ہسٹری آف آپریشنس ان جموں  اینڈ کشمیر (1947-48) کی اشاعت کی تھی۔ یہاں تاریخ کے پورے تجزیے کو من وعن  پیش کیا جا رہا ہے:

‘دسمبر، 1948 میں دشمن پاکستانی انفینٹری کے دو ڈویژن اور نام نہاد آزاد کشمیر آرمی’کے ایک انفینٹری ڈویژن کے ساتھ جنگ کے مورچے پر لڑ رہا تھا۔ اس میں پاکستانی فوج کی 14 انفینٹری بریگیڈ یا 23 انفینٹری بٹالین اور ‘ آزاد کشمیر’کی 40 انفینٹری بٹالین کے علاوہ 19000 اسٹاؤٹس اور غیر مستقل فوجی تھے۔

 ان کے مقابلے ہندوستانی فوج کے پاس جموں اور کشمیر میں صرف دوانفینٹری ڈویژن، جس میں 12 انفینٹری بریگیڈشامل تھی ؛ رسمی فوج اور ہندوستانی ریاستی پولیس دستہ (انڈین اسٹیٹ فورسیز) کی کوئی50 انفینٹری بٹالین کے علاوہ جموں وکشمیر میلشیا کی 12 بٹالین (کچھ میں صرف دو کمپنیاں تھیں) اور مشرقی پنجاب میلشیا کی دو بٹالین ہی تھی۔

اگر تقابلی طاقت کے بارے میں اوپر کے اعداد و شمار کو قریب قریب صحیح ماناجائے، تو یہ صاف ہے کہ جموں و کشمیر میں دشمن کی تعداد دستہ کے معاملے میں ہندوستانی حفاظتی دستہ پر بھاری تھا، اور صرف بہادری اور مہارت اور معمولی سےفضائیہ کے بیش قیمتی تعاون کی بدولت ہی ہندوستانی فوج جنگ کے میدان میں اپنی برتری قائم رکھ پانے میں کامیاب ہو سکی۔

 لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی بھی بڑی جوابی کارروائی کےلئے جموں و کشمیر میں زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی درکار تھی…

 جموں و کشمیر میں اور ہندوستانی فوجی بھیجنے کو لےکر کشمکش کی حالت تھی۔پہاڑی علاقے میں انفینٹری کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا اور ہندوستانی فوج کی انفینٹری اکائیاں دیگر جگہوں پر ضرورت کے مطابق تعینات تھیں۔ 1948 کے آخر میں ہندوستانی فوج کے پاس 127 انفینٹری بٹالین تھی جن میں پیراشوٹ اور گورکھابٹالین اور ہندوستانی فوج کے لئے کام کر رہے ریاستی سکیورٹی فورسز شامل تھے۔

حالانکہ اس میں قلعوں کے تحفظ میں تعینات بٹالین اور کمپنیاں شامل نہیں تھیں۔ ان 127 بٹالین میں قریب 50 بٹالین پہلے ہی جموں و کشمیر میں تعینات تھی۔ 29 بٹالین مشرقی پنجاب میں تھیں اور ہندوستان وپاکستان سرحد کے بےحد اہم علاقوں کی حفاظت کر رہی تھیں۔

 19 بٹالین حیدر آباد کے علاقے میں تعینات تھیں، جہاں رضاکار ابھی بھی نظم ونسق کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے اورفوجی گورنر کو اس علاقے کو خاموش کرنے کے لئے مضبوط فوجی طاقت درکار تھی۔ اس طرح سے حکومت کے ہاتھ میں اندرونی تحفظ، ہزاروں کیلومیٹر لمبی سرحد کے تحفظ اور عام ریزرو کے طور پر رکھنے کے لئے صرف29 بٹالین ہی تھیں۔

 اپنے ریزرو کو پوری طرح سے خالی کرکے جموں و کشمیر کے لئے زیادہ سکیورٹی فورسز بھیجے جا سکتے تھے، لیکن ایسا کرنا بھی مسئلہ سے خالی نہیں تھا، کیونکہ جموں و کشمیر میں پوری فوج کی دیکھ ریکھ صرف ایک ریلوے ٹریک  اور واحد سڑک سے کی جانی تھی۔ یہ سڑک لمبی اور کمزور تھی اور اس پر کئی تنگ پل تھے، جن کا استعمال کافی احتیاط کے ساتھ ہی کیا جا سکتا تھا۔

 بنیادی سہولیات کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہندوستان جموں و کشمیر میں ایک سرحد سے زیادہ سکیورٹی فورسز تعینات نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن پاکستان کے سامنے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ ایسی کئی سڑکیں تھیں، جو پاکستان کے فوجی اڈوں کو جموں وکشمیر کی سرحد تک جوڑتی تھیں اور وہاں سے اصل مورچے تک سڑک پر تھوڑی سی ہی دوری طےکرکے پہنچا جا سکتا تھا۔

اس لئے پاکستان کے پاس ہندوستان کی کسی کارروائی کو روکنے کے لئے اپنےفوجیوں تک مدد پہنچانے کی راہ میں بنیادی سہولت سے متعلق کوئی دقت نہیں تھی۔ اس لیے جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج کو متعینہ اور شدید رکاوٹوں  کے درمیان کام کرنا تھا۔

 جموں و کشمیر کی سرحد کے اندر مقامی کارروائی کے ذریعے دشمن کو فیصلہ کن طریقے سے نہیں ہرایا جا سکتا تھا۔ فیصلہ کن جیت کے لئے پاکستان کو پنجاب کے وسیع میدان میں جنگ کے لیے  لانا ضروری تھا۔ آخری نتیجہ میں جموں و کشمیر کی لڑائی کو لاہوراور سیال کوٹ میں لڑا اور جیتا جانا تھا، جیسا کہ 1965 کے واقعات نے ثابت کیا۔

 اس لئے اگر پورے جموں و کشمیر کو دشمن سے آزاد کرانا تھا، تو پاکستان کےساتھ ایک پوری جنگ لڑا جانا ضروری تھا۔ اس بات کو لےکر شاید ہی کوئی شک ہو سکتا ہےکہ ایک پورے پیمانے کی جنگ میں پاکستان کو فیصلہ کن طریقے سے شکست دی جا سکتی تھی،حالانکہ ہندوستان اور پاکستان کی فوج، دونوں ہی اس وقت تقسیم سے زخمی تھیں اور خودکو نئے سرے سے منظم کر رہی تھیں۔ ‘ (ص: 373-375)

 ہندوستان نے وادی، جموں اور لداخ بچایا۔ 1948-49 میں یہ’پورے پیمانے کی جنگ ‘ کو جھیل پانے کی حالت میں نہیں تھا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں فریاد

 فوج کے حالات کو دیکھتے ہوئے جنگ بندی ضروری تھی۔ اگر ہندوستان نے پہل نہیں کی ہوتی تو وہاں پاکستان پہلے پہنچ گیا ہوتا ہندوستان کو مدعا علیہ بناتا۔ یہ مسئلہ سب سے پہلے 8 دسمبر، 1947 کو لاہور میں اٹھا جب ماؤنٹ بیٹن اور نہرو، لیاقت علی خان سے ملنے گئے۔ انہوں نے ایک مسودہ سمجھوتہ پر گفتگو کی۔ لیاقت علی خان معاملے کو یو این میں دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو اس کے لئے راضی کرنے کےلئے منانا شروع کیا۔

نئی دہلی میں اس بابت بات چیت21-22 دسمبر، 1947 کو شروع ہوئی۔ کافی لمبے عرصے تک نہرو پوری سختی کے ساتھ معاملے کو یو این کے حوالے کیے جانے کے خلاف تھے۔ 22 دسمبر تک وہ اس کے لئے راضی ہو گئے۔ اس مسودہ کی  گاندھی نے حمایت کی،جنہوں نے آزادی کے اختیار کو ہٹا دیا۔ (ایس گوپال ؛ نہرو ؛جلد2 ؛ ص:22)

بعد کی تنقیدوں کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ چیزیں بگڑ کیوں گئیں:

میں نے (ماؤنٹ بیٹن نے) ان کو (نہرو کو)سلامتی کونسل میں ہندوستان کے کیس کے اتنا بگڑنے کی وجہ کے بارے میں اپنی رائے سے واقف کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ پاکستانی وفد ہندوستانی وفد سے بیس ثابت ہوا۔

نہ صرف گوپال سوامی آئنگر وہاں بھیجے جانے کے حساب سے پوری طرح سے غلط آدمی تھے-وہ سماجی طور پر اچھی طرح سے گھل مل نہیں سکتے تھے اور ان کی آواز کرخت اور نہ سنائی دینے والی تھی ؛ اس کے علاوہ پردے کے پیچھے تیاری کرنے کے معاملے میں ہندوستان کے پاس محمد علی کی برابری کا کوئی نہیں تھا۔

 میں نے پنڈت نہرو سے کہا کہ وفد کے لئے میری پسند اس کے رہنما کے طور پرسر سیپی راماسوامی، ایچ ایم پٹیل اور ممکنہ طور پر جنرل بوچر ہوتے۔ میں نے یہ صلاح دی کہاگر اگر ایک جگہ  کے بعد ہندوستان مذاکرہ کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، تو موجودہ وفد کے بجائے اس وفد کو بھیجا جانا چاہیے۔ پنڈت نہرو نے کہا کہ وہ اس صلاح کےبارے میں سوچیں‌گے۔’
ہندوستان کے ذریعے بھیجے گئے ایک اور ممبر فخر سے بھرے ہوئے اور کسی سے نہ گھلنے-ملنے والے ایم سی سیتلواڑ تھے۔ یہ الزام امت شاہ کی تقریر میں نہیں آیا،لیکن بی جے پی کی باتوں  میں اس کا ذکر آتا ہے۔

 آرٹیکل 370

یہ آرٹیکل جموں و کشمیر ریاست اور یونین کے درمیان قرار کو ظاہر کرتا ہے۔اس پر مئی،1949 سے اکتوبر، 1949 تک گفتگو ہوئی۔ مرکز کی ٹیم میں نہرو اور پٹیل شامل تھے ؛ کشمیری ٹیم میں شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ تھے۔ اس کو ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے ذریعے 17 اکتوبر کومنظور کیا گیا۔

نہرو اس وقت امریکہ میں تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں پٹیل نے مرکز کی ٹیم کی قیادت کی اور انہوں نے ایم گوپال سوامی آئنگر کے ساتھ مل‌کر اس کی زبان میں تبدیلی کی، جیسا کہ 16 اکتوبر اور 3 نومبر 1949 کے پٹیل کے خط سے اجاگر ہوتا ہے۔

 امت شاہ نے کہا، ‘یہ معاہدہ (انضمام کا معاہدہ)صرف جموں و کشمیر کے ساتھ نہیں، بلکہ ملک کے 630 راجواڑوں کےساتھ کیا گیا۔ 630 راجواڑوں کےساتھ معاہدہ کیا گیا اور 370 ان میں سے کہیں بھی نہیں ہے۔ جواہرلال نہرو نے ایک جگہ بات چیت کی اور وہاں 370 آ گیا۔

 1947 میں تمام راجواڑوں کے ذریعے دستخطی انضمام کے معاہدہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 کے تحت موٹےطور پر ایک وفاقی نظام کو منظور کیا۔ آزادیِ ہند ایکٹ، 1947 کے تحت ہندوستان نے اس کو اپنے کام چلاؤ (پروویزنل) آئین کے طور پر منظور کیا تھا۔

 تمام راجواڑوں نے ہندوستان کے آئین کے حصہ بی کو منظور کیا۔ اکیلے کشمیرنے، جس کو الگ معاہدہ کے ذریعے ملایا گیا تھا، آرٹیکل 370 کے ساتھ آئین کو قبول کیا، جس کے لئے اس نے مرکز کے ساتھ پانچ مہینے تک مذاکرہ کیا تھا۔ لیکن اس کی قسمت میں پانچ سال بعد دھوکہ ملنا لکھا ہوا تھا۔

بند کے دوران سرینگر کا لال چوک (فوٹو : رائٹرس)

بند کے دوران سرینگر کا لال چوک (فوٹو : رائٹرس)

حاشیے پر لکھے لفظوں کا سہارااصل متن  کے غیرواضح ہونے کی صورت میں اس کی وضاحت کرنے کے لئے لیا جاتا ہے۔ حواشی اصل متن  کی جگہ نہیں  لے سکتے ہیں۔حاشیے پر لکھا گیا ‘عارضی اہتمام ‘ آرٹیکل 370 کی تقدیر کو متعین نہیں کر سکتا ہے۔ یہ نظام –پروویژن (3)میں کی گئی ہے، جو اس سے متعلق  فیصلہ لینے کا حق صرف اور صرف کشمیر کے دستور ساز اسمبلی کو دیتا ہے۔

 جنوری، 1957 میں اس کو رسمی طور پر تحلیل کیے جانے کے بعد آرٹیکل 370 مرکز کے لئے دستیاب نہیں رہا۔ نئی دہلی کے کسی نئے نواب کے ذریعے اس کوختم کر دینے کا کوئی اختیار تو اور بھی کم رہ گیا۔

 لیکن عارضی لفظ کا استعمال کیوں کیا گیا؟ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں آرٹیکل 370 کے تجویزکار ایم گوپال سوامی آئنگرنے یہ سمجھا کہ کیوں 17 اکتوبر، 1949 کو :

‘کشمیر کی پوزیشن ، جیسا کہ میں نے کہا ہے مخصوص ہیں اور خاص سلوک  کی مانگ کرتی ہیں۔ میں اجمالی طور پر  اس کو بتاؤں‌گا کہ یہ مخصوص حالات کیا ہیں۔ پہلی بات جموں وکشمیر ریاست کی سرحد کے اندر ایک جنگ چل رہی ہے۔

 اس سال کی شروعات میں ایک جنگ بندی پر اتفاق بنا تھا اور یہ جنگ بندی اب بھی جاری ہے۔ لیکن صوبے کے حالات ابھی بھی غیر معمولی اور خلاف معمول ہیں۔ گرد وغبار ابھی تک تھما نہیں ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ ریاست کی انتظامیہ ان غیرمعمولی حالات کے لئے تیار رہے جب تک کہ دوسری ریاستوں کی طرح وہاں عوامی زندگی عام نہیں ہو جاتی۔ ریاست کے کچھ حصے ابھی بھی باغیوں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں۔

ہم جموں و کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ میں ہیں اور ابھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ہم اس سے کب تک باہر آ پائیں‌گے۔یہ تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کشمیر کےمسئلہ کا اطمینان بخش حل نکل جائے۔

میں ایک بار پھر دوہرانا چاہوں‌گا کہ حکومت ہند نے کشمیر کی عوام کو کچھ معاملوں میں وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے خود سے وعدہ کیا ہے کہ ریاست کی عوام کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے‌گا کہ وہ یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اس کےباہر جانا چاہتے ہیں۔

ہم نے عوام کی اس خواہش کا رائےعامہ کے ذریعے پتہ لگانے کا بھی وعدہ کیاہے۔ لیکن اس کی شرط ہے کہ ریاست میں پر امن اور عام حالات پھر سے بحال ہو جائیں اور غیرجانبدارانہ  رائےعامہ کی گارنٹی لی جا سکے۔ ہم اس بات کے لئے بھی راضی ہوئے ہیں کہ دستور ساز اسمبلی کے ذریعے عوام کی خواہش ریاست کے آئین اور ریاست کے معاملےمیں مرکز کے دائرہ اختیار کو متعین کرے‌گی۔

موجودہ وقت میں پرجا سبھا کے نام سے پکارے جانے والے مجلس قانون ساز کا وجودختم ہو چکا ہے۔ جب تک ریاست میں مکمل  امن بحال نہیں ہو جاتا ہے، تب تک نہ ہی اس مجلس قانون ساز کو اور نہ ہی دستور ساز اسمبلی کو طلب کیا جا سکتا ہے۔

اس لئے ہمیں ریاست کی حکومت کے ساتھ ہی بات چیت کرنی ہے، جو، جیسا کہ کابینہ  میں جھلکتا ہے، ریاست کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی رائے کو ظاہر کرتی ہے۔ جب تک دستور ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جائے، تب تک ایک عبوری نظام ہی ممکن ہے، نہ کہ ویسا نظام، جس کو یکبارگی دوسرے صوبوں میں موجود نظام کے مساوی لایا جا سکتاہے۔

 جس نقطہ نظر کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ اگر آپ کو یاد ہے، تو یہ یہ نتیجہ نکالے بنا نہیں رہا جا سکتا ہے کہ موجودہ وقت میں ہم صرف ایک عبوری نظام کی ہی تشکیل کر سکتے تھے۔ آرٹیکل 306 اے (یہ مسودےمیں اس آرٹیکل کا نمبر شمارتھا، جس کو آخرکار آرٹیکل 370 بننا تھا۔ ) صرف ایک عبوری نظام کی تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 یہ تب تک ‘عبوری’یا’عارضی’بنا رہے‌گا، جب تک کہ رائےعامہ نہیں ہوجاتا یا ‘ کشمیر مسئلہ کا ایک اطمینان بخش حل نہیں نکل جاتا۔ ‘

23 جون، 1953 کے کشمیر میں شیاما پرساد مکھرجی کی موت

 1968 میں دین دیال اپادھیائے کی موت پر جن سنگھ جسٹس وائے وی چندرچوڑ کےسامنے جعلی دستاویز اور نانا دیش مکھ کے ذریعے جھوٹی زبانی گواہی دلوانے تک نیچےگر گیا۔ مکھرجی کی موت پر بھی یہ اسی سطح تک نیچے جا گرتا ہے۔

 بڑی سچائی یہ ہے کہ ان کے معاون بلراج مدھوک نے نہرو یا عبداللہ کے خلاف اپنی کتاب پوٹریٹ آف اے مارٹائر (196-197) میں ایسا کوئی الزام نہیں لگایا۔ ان کا علاج ڈاکٹرعلی محمد نے  کیا تھا، جو ایک مشہور فزیشین تھے۔ مدھوک کا الزام قتل کانہ ہوکر ‘علاج میں مجرمانہ لاپروائی’ (صفحہ: 242)کا ہے۔

 امت شاہ نے اشتعال میں بہتے ہوئے کہا، ‘آج اگر بنگال ہندوستان میں ہے، تووہ شیاما پرساد جی‌ کی خدمات  کی وجہ سے ہے، نہیں تو بنگال ہندوستان کا حصہ نہیں ہوتا۔ ‘

وہ لال چوک، سرینگر پر مرلی منوہر جوشی کی مہم کا ذکر کرتے ہیں ؛ لال کرشن اڈوانی کی موجودگی کا ذکر نہیں کرتے ہیں، اور نریندر مودی جی کے ذریعے اپنی جان جوکھم میں ڈالنے ‘-مکمل تحفظ کے باوجود-کو جوڑ دیتے ہیں۔ آخر میں شاہ یہ مانتے ہیں کہ’جموں و کشمیر کے لوگوں اور ہندوستان کے لوگوں کے درمیان ایک کھائی ہے۔ لیکن یہ اعتماد کیوں نہیں بن سکا؟ – کیونکہ شروع سے ہی یہ اعتماد قائم کرنے کی سمت میں کچھ نہیں کیا گیا۔’

8 اگست، 1953 کو شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور 11 سال تک انھیں قید رکھے جانے نے ایک ایسا زخم دیا، جو آج تک ہرا ہے۔ 5 اگست، 2019 کو بی جے پی کے ذریعے کی گئی کارروائی سے ہونے والا نقصان اس سے زیادہ ہوگااور زیادہ مستحکم ہوگا۔

 (اے جی نورانی وکیل اور مصنف ہیں۔ )