دنیا میں جمہوریت پرنظر رکھنے والے ایک معتبر ادارےفریڈم ہاؤس کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی حقوق اورشہری آزادی میں تنزلی 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ چنے جانے کے بعد ہی شدید ہو گئی تھی اور عدلیہ کی آزادی بھی دباؤ میں آ گئی تھی۔ اس پر وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان کو ‘پند ونصیحت ’ کی ضرورت نہیں ہے۔
نئی دہلی:حکومت ہندنے جمعہ کو دنیا میں جمہوریت پرنظر رکھنے والےایک معتبر ادارے‘فریڈم ہاؤس’کی اس رپورٹ کو ‘گمراہ کن ، غلط اور نامناسب’قرار دیا، جس میں ہندوستان کے درجے کو گھٹاکر ‘جزوی طور پر آزاد’کر دیا گیا ہے۔ سرکار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام اچھی طرح سے قائم ہیں۔
ساتھ ہی ہندوستانی سرکار نے کہا کہ اس کو‘پند ونصیحت ’ کی ضرورت نہیں ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ملک میں تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے اور زور دیا کہ چرچہ، بحث اور اختلافات ہندوستانی جمہوریت کا حصہ ہیں، وہیں وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان میں ادارے مضبوط ہیں۔
وزارت خارجہ نے جمہوریت کی نگرانی کرنے والے ادارے کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو ‘پند ونصیحت ’ کی ضرورت نہیں ہے، خاص طور پر ان سے جو اپنی بنیادی چیزوں کو بھی درست نہیں کر سکتے۔امریکی حکومت کی سے مالی اعانت سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی بدھ کو جاری رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ہندوستان میں شہری آزادی لگاتارختم ہوئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب آمریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘واضح ہو کہ اس رپورٹ میں دنیا کے 195 ممالک اور 15 خطوں میں جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2020 تک ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
فریڈم ہاؤس کی اس رپورٹ میں مسلمان شہریوں کے خلاف ماب لنچنگ، صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور عدالتی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان جمہوری رویوں کا ترجمان بننے کےبجائے نریندر مودی اور اس کی پارٹی ملک کو مطلق العنانیت کی طرف دھکیل رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کے برابری کے حقوق اور سب کی شمولیت کے بنیادی اصولوں کو چھوڑ کر ہندو قوم پرستی کے مفادات کو آگے بڑھانے کو ترجیج دی گئی ہے ۔فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران حکومت نے غلط طریقے سے لاک ڈاؤن کا حکم جاری کیا جس سے لاکھوں غریبمزدور متاثر ہوئے اور بے سرو سامانی کے عالم میں پیدل سفر کر کے اپنے گاؤں پہنچے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست تحریک نے مسلمانوں پر کووڈ کی وبا پھیلانے کا الزام لگا کر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔واشنگٹن میں واقع ادارے فریڈم ہاؤس نے بدھ کو جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلمان شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک بدستور جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک بیان میں کہا، ‘فریڈم ہاؤس کی ‘ڈیموکریسی انڈر سیز’عنوان والی رپورٹ، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک آزاد ملک کے طور پر ہندوستان کا درجہ گھٹ کر ‘جزوی طور پر آزاد’رہ گیا ہے، پوری طرح گمراہ کن ، غلط اور نامناسب ہے۔’
ایک میڈیا بریفنگ کے دوران رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے کہا، ‘فریڈم ہاؤس کے سیاسی فیصلے اتنے ہی غلط اورمسخ شدہ ہیں، جتنے ان کے نقشے۔’رپورٹ کے مطابق، وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بھی نقشے کا مدعا اٹھایا اور ایک بات چیت کے دوران کہا، ‘مجھے اس گروپ کی فکر ہے جو ہندوستانی نقشے کو صحیح نہیں دکھاتے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر ہندوستانی نقشہ غلط ہے۔ انہیں پہلے ہمارا نقشہ صحیح دکھانا چاہیے۔’
شریواستو اور سیتارمن نے فریڈم ہاؤس کے ذریعے ہندوستان کا غلط نقشہ دکھائے جانے کے سیاق میں یہ بات کہی، جس میں یونین ٹریٹری جموں وکشمیر اور لداخ کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
BREAKING: India is not rated "Free" in Freedom in the World 2021. Political rights and civil liberties have eroded in India since Narendra Modi became prime minister in 2014, causing the country to drop from Free to Partly Free in 2020. #FreedomInTheWorld https://t.co/HuNzEAc6Nw pic.twitter.com/mae0CmGpi5
— Freedom House (@freedomhouse) March 3, 2021
انہوں نے کہا، مثال کے طور پر کووڈ 19 کی صورت حال پر، دنیا بھر میں ہماراردعمل ، ہماری اعلیٰ صحت کی شرح اورموت کی کم شرح کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔’انہوں نے کہا، ‘ہندوستان میں ادارے مضبوط ہیں اور یہاں جمہوری نظام بہتر طور پر قائم ہیں۔ ہمیں ان سے نصیحت کی ضرورت نہیں ہے جو بنیادی چیزیں بھی درست نہیں کر سکتے۔’
رپورٹ کے نتائج کی تفصیل سے تردید کرتے ہوئے وزارت نے کہا، ‘ہندوستانی سرکار اپنے تمام شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتی ہے، جیسا ملک کے آئین میں ہے اور بنا کسی امتیاز کے تمام قانون لاگو ہیں۔ بھڑ کانے والے شخص کی پہچان کو دھیان میں رکھے بنا، نظم ونسق کے معاملوں میں قانون کی پرعمل کیا جاتا ہے۔’
وزارت نے کہا،‘جنوری، 2019 میں شمال -مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں کے خاص طور پر ذکر کے مد نظر، قانون نافذ کرنے والی مشینری نےغیر جانبدارانہ اور منصفانہ طریقے سے کام کیا۔ حالات کو قابوکرنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے گئے تھے۔ تمام شکایتوں/کالز پر قانون نافذ کرنے والی مشینری نے قانون کے تحت ضروری کارروائی کی تھی۔’
سرکار نے رپورٹ میں لگائے گئے اس الزام کو بھی خارج کیا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے لاگو لاک ڈاؤن میں ‘شہروں میں لاکھوں مہاجر مزدوروں کو بنا کام و بنیادی وسائل کے چھوڑ دیا گیا’ اور ‘اس کی وجہ سے لاکھوں گھریلو مزدوروں کی خطرناک اورغیر منصوبہ بند نقل مکانی ہوئی۔’
سرکار نے کہا کہ کورونا وائرس انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مدت نے ‘سرکار کو ماسک، وینٹی لیٹر، پی پی ای کٹ وغیرہ کے پروڈکشن بڑھانے کا موقع دیااوراس طرح وباکے پھیلاؤ کو مؤثر طریقے سے روکا گیا۔ فی کس کی بنیاد پر ہندوستان میں کووڈ 19 کے ایکٹو معاملوں کی تعداد اور کووڈ 19 سے جڑی اموات کی شرح عالمی سطح پر سب سے کم شرح میں سے ایک رہی۔’
رپورٹ میں کیے گئے ماہرین تعلیم اور صحافیوں کو دھمکانے کے دعووں پر سرکار نے کہا، ‘چرچہ، بحث اور اختلاف ہندوستانی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ ہندوستانی سرکار صحافیوں سمیت ملک کےتمام شہریوں کے تحفظ کو سب سےزیادہ اہمیت دیتی ہے۔’
سرکار نے صحافیوں کے تحفظ پر ریاستوں اوریونین ٹریٹری کو خصوصی ایڈوائزری جاری کرکے ان سے میڈیااہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت قانون لاگو کرنے کی گزارش کی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں این جی او چل رہے ہیں لیکن خاص کر ہیومن رائٹس کی پامالی کی جانچ میں شامل این جی او کو لگاتار دھمکیوں، قانونی ہراسانی ، بہت زیادہ پولیس فورس اور کبھی کبھی جان لیوا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کو خارج کرتے ہوئے سرکار نے کہا کہ ہندوستانی آئین میں مختلف قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہیومن رائٹس ایکٹ 1993 شامل ہے۔
رپورٹ کے اس دعوے پر کہ حکام نےشہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کو روکنے کے لیے دسمبر 2019 اور مارچ 2020 کے بیچ اجلاس پر پابندی لگانے، انٹرنیٹ بند کرنے کے لیےزندہ گولا بارود کا استعمال کیا اورملک بھر میں شہریوں کے رجسٹریشن کاعمل شروع کرنے کی تجویز کی، اس پر سرکار نے کہا، ‘ذرائع ابلاغ/انٹرنیٹ خدمات کو عارضی طور پر ردکرناسخت حفاظتی تدابیر کے تحت نظم ونسق بنائے رکھنے کے مقصد کے ساتھ لیا جاتا ہے۔’
سب سے آخر میں سرکار نے اس دعوے کی تردید کی کہ ایف سی آراے ترمیم کی وجہ سے این جی او ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ملکیت ضبط ہو گئیں اور کہا کہ این جی او نے ایف سی آراے ایکٹ کے تحت صرف ایک بار اجازت حاصل کی تھی اور وہ بھی 20 سال پہلے 19 دسمبر 2000 کو۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)