آر بی آئی کے مطابق؛ گزشتہ دس سالوں میں سات لاکھ کروڑ سے زیادہ کا بیڈ لون رائٹ آف ہوا یعنی نہ ادا کیے گئے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا گیا۔ جس کا 80 فیصدی حصہ جو تقریباً555603 کروڑ روپے ہے،گزشتہ پانچ سالوں میں رائٹ آف کیا گیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جہاں ایک طرف حکومت ٹیکس دینے والوں کے پیسوں سے بینکوں کو سرمایہ دستیاب کرا رہی ہے، وہیں دوسری طرف بینک بھاری مقدار میں لون نہ لوٹانے والوں کے قرض کو ٹھنڈے بستے میں ڈال رہے ہیں۔عالم یہ ہے کہ بینکوں نے مالی سال19-2018 کے دوران دسمبر 2018 تک میں ہی 156702 کروڑ روپے کے بیڈ لون کو رائٹ آف (بٹے کھاتے میں ڈالنا) کیا ہے۔
اس حساب سے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے 10 سالوں میں سات لاکھ کروڑ سے زیادہ کے بیڈ لون کو رائٹ آف کیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق؛ رائٹ آف کئے گئے کل لون کا تقریباً 80 فیصدی حصہ پچھلے پانچ سالوں میں (اپریل 2014 سے) رائٹ آف کیا گیا۔ اپریل 2014 سے لےکر اب تک کل 555603 کروڑ روپے کا لون رائٹ آف کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بیڈ لون یا این پی اے کی تعداد کم دکھانے کی جلدبازی میں بینکوں نے17-2016 میں 108374 کروڑ اور18-2017 میں 161328 کروڑ کا لون رائٹ آف کیا۔اس کے بعد مالی سال19-2018 کو پہلے چھے مہینے میں 82799 کروڑ اور اکتوبر-دسمبر 2018 کے بیچ میں 64000 کروڑ کا لون رائٹ آف کیا گیا۔
غور طلب ہے کہ بینک عام طور پر ان قرضوں کو رائٹ آف کرتے ہیں جن کی وصولی کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ بینکوں کا دعویٰ ہے کہ لون کو رائٹ آف کئے جانے کے بعد بھی قرض واپس کرنے پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، حالانکہ ذرائع نے بتایا کہ20-15 فیصدی سے زیادہ کے لون کی وصولی نہیں ہو پاتی ہے۔
سال در سال رائٹ آف کئے گئے لون کا اعداد و شمار بڑھتا ہی جا رہا ہے اور وصولی کی شرح کم ہو رہی ہے۔ آر بی آئی نے بینکوں کو جاری ایک سرکلر میں کہا تھا کہ وصولی کی تمام ممکنہ کوشش کرنے کے بعد ہی لون کو رائٹ آف کیا جانا چاہیے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بھاری مقدار میں لون رائٹ آف کرنے کے بعد بھی نہ تو بینک اور نہ ہی آر بی آئی یہ جانکاری دے رہی ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جن کے اتنے لون رائٹ آف کئے گئے ہیں۔بینک یونین لمبے وقت سے حکومت سے ڈیفالٹرس کے نام عام کرنے کی مانگ کر رہی ہے۔