بھارتیہ کسان یونین کے صدربھوپیندر سنگھ مان نے کہا کہ کمیٹی میں انہیں لینے کے لیے وہ سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں لیکن کسانوں کے مفادات سےسمجھوتا نہ کرنے کے لیے وہ انہیں ملے کسی بھی عہدہ کو چھوڑنے کو تیار ہیں۔ مان نے یہ بھی کہا کہ وہ ہمیشہ پنجاب اور کسانوں کے ساتھ ہیں۔
نئی دہلی: بھارتیہ کسان یونین کے صدر بھوپیندر سنگھ مان زرعی قوانین پر سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی چار رکنی کمیٹی سے الگ ہو گئے ہیں۔مان نے جمعرات کو کہا کہ وہ کسانوں کے ساتھ ہیں اور کمیٹی سے الگ ہو گئے ہیں۔عدالت نے چار ممبروں کی کمیٹی بنائی تھی۔
مان نے کہا کہ کمیٹی میں انہیں ممبربنانے کے لیے وہ عدالت کے شکرگزار ہیں لیکن کسانوں کے مفادات سے سمجھوتہ نہیں کرنے کے لیے وہ انہیں پیش کسی بھی عہدے کو چھوڑ دیں گے۔
S. Bhupinder Singh Mann Ex MP and National President of BKU and Chairman of All India Kisan Coordination Committee has recused himself from the 4 member committee constituted by Hon'ble Supreme Court pic.twitter.com/pHZhKXcVdT
— Bhartiya Kisan Union (@BKU_KisanUnion) January 14, 2021
جمعرات کو جاری اپنے خط میں کہا، ‘خود ایک کسان اور کسان تنظیم کارہنما ہونے کے ناطے عوام اور کسان تنظیموں میں پیدا ہوئےخدشات کی وجہ سے میں اپنے عہدے کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، تاکہ پنجاب اورملک کے کسانوں کے مفاد کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ میں اس کمیٹی سے الگ ہو رہا ہوں اور میں ہمیشہ اپنے اور پنجاب کے کسانوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔’
بتادیں کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 12 جنوری کو دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دے رہے کسان تنظیموں کے بیچ جاری تعطل کو ختم کرنے کے ارادے سے ان قوانین کے عمل پر اگلے آرڈر تک روک لگا دی تھی۔
اس کے ساتھ ہی کورٹ نے کسانوں کے مسائل پرغورکرنے کے لیے چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کی تھی، جس میں بھوپیندر سنگھ مان سمیت شیتکاری سنگٹھن کے انل گھانوت، پرمود کمار جوشی اور اشوک گلاٹی شامل تھے۔
حالانکہ کمیٹی بننے کے بعد کسانوں نے کہا تھا کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورٹ کی کمیٹی کے ممبر سرکار کے حامی ہیں، جو ان قوانین کے حق میں ہیں۔ اسی کو لےکر اب مان پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اس سے پہلے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے تین زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کے مظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پرمرکز کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا تھا کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ ‘بہت مایوس’ہیں۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔
مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں اورسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔
سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔
دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔بہرحال، کسانوں نے مخالفت کی آگے کی پالیسی کے تحت 26 جنوری کویوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں ٹریکٹر پریڈ نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس کے خلاف دہلی پولیس کی طرف سے عدالت میں عرضی دائر کرکے کسانوں کو 26 جنوری کی مجوزہ ‘ٹریکٹر پریڈ’یا کسی بھی طرح کے مارچ پر روک لگانے کا آرڈر دینے کی مخالفت کی۔ اسے لےکر کورٹ نے کسان تنظیموں کو نوٹس جاری کیا ہے۔