فیک نیوز: رپورٹر نے جب ان سے پوچھا کہ وہ مودی کے نام کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کام کرنے کا وقت ہے جب کہ مودی صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔
امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے ہیوسٹن شہر میں گزشتہ ہفتے
‘ہاؤڈی مودی’کے عنوان سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس جلسے کی
آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جلسے میں تقریباً پچاس ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔ پروگرام کو ٹیکساس انڈیا فورم نے منعقد کیا تھا اور والمارٹ، اویو اور ٹیلورین جیسی کمپنیوں نے اسپانسرشپ کے ذریعہ مالی امداد فراہم کی تھی۔ غور طلب ہے کہ پرائم منسٹر نریندر مودی کے علاوہ اس جلسے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی موجود تھے لیکن اس پروگرام کو منعقد کرنے میں امریکی صدر یا امریکی حکومت کا کوئی تعاون نہیں تھا۔
گزشتہ ہفتے اس پروگرام کے تعلق سے سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھا اور پڑھا گیاجن میں تنقیدی یا تعریفی مضامین کے علاوہ فیک نیوز کی اشاعت بھی شامل ہے۔ پرائم منسٹر نریندر مودی کا خطاب از خود فیک نیوز پر مبنی تھا جس میں دانستہ طور پر حقائق کو چھپایا گیا تھا۔ ہندوستان کی زوال پذیر معیشت، بے روزگاری،آرٹیکل 370 کو بے اثر کرنا،سیاسی بدعنوانیوں،اقلیتوں ، قبائلوں، دلتوں اور خواتین کے حقوق کی مسلسل پامالی کے بعد بھی نریندر مودی نے امریکی ہندوستانیوں سے ‘ہاؤڈی مودی’کے جواب میں کہا کہ ہندوستان میں ‘سب ٹھیک ہے’!ایک نظر اس
ویڈیو پر:
نریندر مودی کے علاوہ ان کے حامیوں نے بھی جھوٹ عام کیا اور انہوں نے یہ مظاہرہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر کیا۔ فیک نیوز کی اشاعت کا یہ سیلاب یہیں نہیں رکا بلکہ اپنے زور میں ہندوستان کے میڈیا اداروں کو بھی بہا لے گیا۔News18 اورCNBC-Awaaz نے اپنے چینل، ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پروفائل پر امریکی فوجیوں کاایک ویڈیو شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی فوجی اس ویڈیو میں نریندر مودی کے استقبال کے لئے ہندوستانی قومی ترانہ کی مشق کر رہے ہیں۔
CNBC-Awaaz نے بھی ہیش ٹیگ
HowdyModi# کا استعمال کرتے ہوئے یہی دعویٰ کیا، ‘امریکی فوج کی خاص تیاری، US Army Band نے ہندوستان کے قومی ترانہ کی بجائی دھن، آپ بھی سنئے!’ یہی ویڈیو عوام نے اسی طرح کے غلط دعووں کے ساتھ شئیر کیا:
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا اداروں کی ویب سائٹ پر اس ویڈیو کو غلط پس منظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔ دراصل اس ویڈیو کا تعلق ہاؤ ڈی مودی سے نہیں ہے۔ یہ ویڈیو مودی کے ہیوسٹن پروگرام سے کافی پہلے سوشل میڈیا پر موجود تھا اور اس کو خبر رساں اجنسی
اے این آئی کے علاوہ انڈیا ٹی وی کے صحافی
منیش پرشاد نے بھی ٹوئٹ کیا تھا۔19 ستمبر کو کیے گئے ان دونوں مستند ٹوئٹس کے مطابق یہ ویڈیو ہندوستانی اور امریکی فوجیوں کی سالانہ مشترکہ فوجی مشق YudhAbhyas2019 کی ویڈیو ہے ۔ لہٰذا، اس ویڈیو سے متعلق انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کیے گئے دعوے جھوٹے ہیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مودی، گجرات، فوج، وطنیت اور وکاس کے اسی جھوٹے غلبے میں ایک ویڈیو اور وائرل کر دیا گیا۔اس ویڈیو میں ایک نوجوان فوجی ڈرل میں شامل ہے جس کے تعلق سے یہ
دعویٰ کیا گیا کہ یہ نوجوان گجراتی ہے جس کا نام نیرو شاہ ہے، جس نے سخت امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد امریکی فوج جوائن کی ہے۔
اس کے علاوہ فیس بک پر کچھ صارفین نے اس شخص کی شناخت دوسرے مختلف ناموں سے کی۔ مثال کے طور پر
سید سلیم نامی صارف نے اپنے فیس بک وال پر اس شخص کا نام سید حمید الحسن بتایا !اور صرف نام کی تبدیلی کے ساتھ دعویٰ کم وبیش یکساں ہی تھا۔
الٹ نیوز نے اپنی تحقیق میں پایا کہ یہ دعوے حقیقت کے برعکس ہیں۔ ویڈیو کے مختلف فریمز کو زوم کر کے غور سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ نوجوان کے پیچھے دیوار پر ایک بینر لگا ہوا ہے جس پر انگریزی میں ؛نیشنل ہائی اسکول ڈرل چیمپئن شپ’ لکھا ہوا ہے۔ یہ چیمپئن شپ ہر سال امریکہ کے فلوریڈا میں منعقد ہوتی ہے۔ ڈرل میں شامل ہونے والے شخص کے سینے پر زوم کر کے دیکھا گیا تو اس کا نام واضح نہیں ہو سکا لیکن الٹ نیوز کو اتنا علم ضرور ہو گیا کہ اس کے نام کا پہلا حصہ انگریزی حرف A سے شروع ہوتا ہے اور دوسرے حصے کا خاتمہ حرف O پر ہوتا ہے۔
الٹ نیوز نے اس چیمپئن شپ کی ویب سائٹ پر ڈرل میں شامل ہونے والے امیدواروں کے نام کی تفتیش کی جہاں یہ معلوم ہوا کہ انگریزی حرف A سے شروع ہونے والا اور O پر ختم ہونے والا نام Alejandro Paulino کا ہے جو اس سال کی ڈرل چیمپئن شپ میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی جانکاری اپنے فیس بک پروفائل پر اس طرح دی:
لہذا، یہ پختہ طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ ڈرل چیمپئن شپ میں کامیابی حاصل کرنے والا نوجوان نیرو شاہ یا سید حمید الحسن نہیں ہے۔
عالمی سطح کے مسائل، خبروں اور لیڈروں سے جڑی تیسری فیک نیوز نو عمر لڑکی گریتا سے تعلق رکھتی ہے۔ گریتا سویڈن کی رہنے والی کارکن ہیں جو محض 16 برس کی ہیں اور ماحولیاتی تحفظ کے لئے آج دنیا بھر میں بلند آواز بنی ہوئی ہیں۔ گریتا کا موقف ہے کہ عالمی سطح پر تمام لیڈروں نے بے پناہ دولت اور سرمایا حاصل کرنے کی غرض سے ماحولیات کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے آنے والی نسلوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ عالمی لیڈروں کو اس کا ذمہ دار مانتی ہیں اور اپنے اس موقف کی ترجمانی انہوں نے23 ستمبر کواقوام متحدہ میں اپنے خطاب سے کی جس کا عنوان تھا :
How dare you یعنی آپ کی ہمت کیسے ہوئی؟
گزشتہ ہفتے جب گریتا کی عالمی شہرت مزید نمایا ں ہو گئی تو سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو عام ہوا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس ویڈیو میں گریتا مودی کے نام پیغام دے رہی ہیں۔ جب مودی کے حامیوں نے یہ دیکھا کہ بے خوف گریتا نے اس پیغام میں مودی کے لئے سخت الفاظ کا استعمال کیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو جعلی ہے جس کو وائس اوور کی مدد سے ایڈٹ کیا گیا ہے!
بوم لائیو نے ان دعووں کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو فروری کی ہے جس کی صداقت پر Brut India نے ہری جھنڈی دے دی ہے۔
گریتا 11 برس کی چھوٹی عمر سے بڑی ذمہ داری کو سمجھ رہی ہیں اور ماحولیات کو لے کر بہت فکر مند ہیں۔ اسی سال فروری ماہ میں گریتا سٹاک ہام میں تھیں جہاں انہوں نے عالمی لیڈروں سے مخاطب ہوتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کے لئے ہدایات کی تھیں۔ Brut India کے رپورٹر نے جب ان سے پوچھا کہ وہ مودی کے نام کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کام کرنے کا وقت ہے جب کہ مودی صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ Brut India کی اصل ویڈیو؛
پشپندر کلشرشٹھ نامی ٹوئٹر ہینڈل سے25 ستمبر کو ایک
ٹوئٹ کیا گیا جس میں امر اجالا اخبار میں شائع ہوئی ایک خبر کی تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا گیا تھا:
میڈیا کو چنمیا نند سے فرصت مل گئی ہو تو یہ خبر بھی بتانے کی تکلیف اٹھائے !ایک نہیں، دو نہیں، پوری 52لڑکیوں کا معاملہ ہے، 8 سے 18 برس کی عمر کی!
اس ٹوئٹ میں موجود اخبار کی کترن پر خبر کا عنوان تھا: ‘مدرسے میں جنسی استحصال، مولوی گرفتار، 52 طالبات کو رہا کیا گیا۔یہ خبر لکھنؤ کی تھی جس میں یٰسین گنج کے ایک مدرسے میں چل رہے جنسی استحصال کے ریکٹ سے پردہ اٹھایا گیا۔ پشپندر نے اس خبر کو فرقہ وارانہ انداز میں شئیر کیا تھا۔ ان کا ٹوئٹ دبے الفاظ میں اس بات کی حمایت کر رہا تھا کہ بی جے پی لیڈر سوامی چنمیا نند پر صرف ایک لڑکی کے جنسی استحصال کا الزام ہے، تو میڈیا نے بہت ہنگامہ کیا لیکن مدرسے میں ایک مولوی کی نگرانی میں پچاس سے زیادہ لڑکیوں کا استحصال کیا گیا، لیکن میڈیا خاموش ہے۔ اس طرح کے کلمات بے حد افسوس ناک ہیں کیوں کہ یہاں جرم کی سنجیدگی کو اعداد کے شمار سے تسلیم کیا جا رہا ہے، اور اس بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے مرد کی ذہنی گندگی کو اس بنا پر تسلیم کرنا کہ وہ حکومت کا حصہ ہےیا ہم-مذہب ہے ، انسانی قدروں کے خلاف ہے۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ پشپندر نے جس تصویر کو شئیر کیا تھا اس کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایڈٹ کیا گیا تھا۔
تقریباً دو سال پہلے دسمبر ماہ میں شائع ہوئی اصلی خبر میں لفظ ‘مولوی’ کی جگہ ‘مینجر’موجود تھا جس کو مولوی لفظ سے تبدیل کر دیا گیا تاکہ اس جرم کا چنمیا نند کے جرم کے ساتھ موازنہ کیا جا سکے اور فرقہ وارانہ خیالات کو فروغ دیا جا سکے۔ بوم نے معاملے کی مکمل تفتیش کی اور واضح کیا کہ مدرسے میں طالبات کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جا رہا تھا اور اس بات کی خبر اس وقت عام ہوئی لڑکی نے ایک پرچے پر تمام داستان لکھ کر عمارت کے باہر پھینک دی۔ فی الحال مدرسے کے مینجر کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور طالبات کو ذہنی بحالی کے لئے ویلفیئر ہومز میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس خبر کو
انڈین ایکسپریس نے بھی شائع کیا تھا۔ پشپندر نے فی الحال اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے۔
صوبہ اتر پردیش کو تین حصوں میں تقسیم کرنے والا پیغام ان دنوں وہاٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پر بہت وائرل ہو رہا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ اتر پردیش کو تین چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جائےگا جن کا نام اتر پردیش، بندیل کھنڈ اور پوروانچل ہوگا۔ الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اتر پردیش کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز 2011 میں وزیر اعلیٰ مایا وتی نے پیش کی تھی اور انہوں نے اس کے لئے صوبے کی اسمبلی سے ایک ریزولوشن بھی تسلیم کرا لیا تھا لیکن اس وقت مرکزی حکومت نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔
2011 کے بعد اس معاملے کو2013 اور 2017 میں بھی مایا وتی نے اٹھایا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
دی للن ٹاپ کی خبر کے مطابق، اتر پردیش حکومت کے میڈیا ایڈوائزر مرتنجے کمار نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حکومت کی ایسی کوئی تجویز نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے متعلق جو کچھ بھی ہے، سب افواہ ہے۔