کیا بنگلورمیں ایک مسجد کا نام پرائم منسٹر مودی کے نام پر رکھا گیاہے؟

01:29 PM Jun 24, 2019 | محمد نوید اشرفی

فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا  مسلمان سری لنکا میں  خود مسجدوں کو منہدم کر رہے ہیں؟  کیا بھیم آرمی کے سربراہ  چندرشیکھر راون کا اصل نام نسیم الدین خان ہے؟  کیا مغربی بنگال میں بی جے پی نے خوداپنے کارکن قتل  کروایا تھا؟

فیس بک اور ٹوئٹر پر فیک نیوز کی اشاعت کا طریقہ بے حد آسان ہے اور قانون کی مضبوط گرفت نہ ہونے کی وجہ سے ان جھوٹی خبروں کی اشاعت کرنے والے صارفین بے خوف اور آزاد ہوکر یہ کارنامے انجام دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کبھی کبھی کسی خصوصی موضوع پر کثرت سے  فیک نیوز عام کی جاتی ہے، ایک ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دوران ممتا بنرجی اور راہل گاندھی کے خلاف ماحول، نیو زی لینڈ میں کرائسٹ چرچ اٹیک کے بعد مسلمانوں کے خلاف ماحول اور اٹل بہاری واجپائی کی وفات کے بعد مودی کی حمایت میں فیک نیوز کی اشاعت کی  کچھ مثالیں ہم کو ملتی  ہیں۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے مسجدوں کے تعلق سے فیک نیوز کی اشاعت کی گئی۔

کچھ تصویروں کو عام کرتے ہوئے فیس بک اور ٹوئٹر پر یہ دعوے کئے   گئے کہ؛

سری لنکا میں مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے توڑ رہے ہیں مسجد اور اپنا رہے ہیں ہندو دھرم۔ مسلم بولتے ہیں کہ اب ہمیں اسلام کی گھنونی اور نفرت سے بھری اصلیت سمجھ میں آ گئی۔

ان تصویروں میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ لوگ سر پر ٹوپی پہنے ہوئے ہیں اور وہ ایک عمارت کو منہدم کر رہے ہیں جو دیکھنے میں مسجد معلوم ہوتی ہے۔ جب ان تصویروں کو گوگل سرچ انجن میں ریورس امیج سرچ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ   یہ تصویریں سری لنکا کی نیوز ویب سائٹ ‘ڈیلی مرر’ پر بھی موجود ہیں  اور غورطلب ہے کہ اس ویب سائٹ پر  29 مئی  2019 کو ایک خبر شائع  کی گئی تھی جس میں اس کی وجہ بتائی گئی تھی جس کی بنا پر مسجد کو مسلمانوں نے منہدم کیا تھا۔ آلٹ نیوز  نے انکشاف کیا کہ مسلمان جس مسجد کو منہدم کر رہے تھے وہ  کیکی روا نامی جگہ پر نیشنل توحید جماعت کی مسجد ہے۔ نیشنل توحید جماعت سری لنکا کی  ایک انتہا پسند جماعت ہےجس کو  2019 کے ایسٹر دھماکوں میں ملوث پایا گیا تھا۔

علاقے کی صدر مسجد کے ٹرسٹی  اکبر خان نے میڈیا کو مطلع کیا کہ مقامی مسلمانوں نے اس مسجد کو اس لئے منہدم کیا کیوں کہ اس مسجد کی تعمیر بیرون ملک سے حاصل کی گئی مالیاتی امداد سے کی گئی تھی۔  بقول اکبر خان  مقامی شہریوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ان کے علاقے میں مساجد پہلے سے ہی موجود ہیں اور وہ بیرون ملک سے حاصل کی گئی امداد سے اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر نہیں کریں گے۔

لہذا ، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں نے ہندو مذہب قبول کرنے کی وجہ سے مسجد کو منہدم نہیں کیا ہے بلکہ اس کی وجہ  ڈیلی مرر کے مطابق  کچھ اور ہے اور یہ کتنی صحیح ہے اس کی مزید تفتیش  درکار ہے۔

مسجد کے حوالے سے دوسری فیک نیوز یہ عام  کی گئی کہ   بنگلورمیں مسلمانوں نے ایک مسجد کا نام مودی مسجد رکھ دیا ہے۔ مسجد کی اندرونی تصویریں ٹوئٹر پر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ؛

بنگلور کے مسلمانوں نے  ایک مسجد کا نام پرائم منسٹر مودی کے نام پر رکھا ہے، نہ معلوم کتنے لوگ یہ دیکھ کر خود کشی کر لیں گے! ٹوئٹر پر مادھو نامی شخص نے  جو تصویریں شئیر کی تھیں ان میں مسجد کے اندر مودی کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے اور انگریزی میں لکھا گیا ہے ‘مودی مسجد’ ! اس شخص کو نریندر مودی اور سلمان خورشید  ٹوئٹر پر خود فالو کرتے ہیں۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ  اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلور کی مسجدہذٰا کا نام ‘مودی مسجد’ ہی ہے لیکن یہ نام پرائم منسٹر نریندر مودی کے نام پر نہیں رکھا گیا ہے۔ یہ مسجد تقریباً 175سال پرانی ہے اور مودی عبد الغفور نامی شخص کے نام پر اس کا نام مودی مسجد رکھا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں میں اس مسجد میں مرمت کا کام کیا گیا تھا اور اس کو بحال کیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ خبروں میں مرکز گفتگو بنی رہی۔  جہاں تک ٹوئٹ میں عام کی گئی تصویروں کا سوال ہے تو انگریزی میں مودی مسجد کی تختی  والی تصویر مسجد کی ہی ہے لیکن جس تصویر میں مودی کی تصویر موجود ہے، اس کے تعلق سے مزید انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات ضرور غورطلب ہے کہ مسجدوں میں انسانی تصاویر لگانے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے اس لئے یہ تصویر کسی دوسرے مقام کی معلوم ہوتی ہے۔

بنگال تنازعہ کے بعد فیک نیوز کی اشاعت مسلسل بنی ہوئی ہے اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کانگریس نے  ایک ٹوئٹ کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا  کہ  مغربی بنگال میں بی جے پی نے ہی اپنے کارکن کا قتل کروایا تھا  جس میں بجرنگ دل کے 11 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ کانگریس کے اس ٹوئٹ میں نیوز ہنٹ ویب سائٹ کی ایک خبر شئیر کی گئی تھی۔ مدھیہ پردیش کانگریس کے فیس بک پیج پر بھی اسی خبر کو شئیر کیا گیا تھا۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ خبر ایک سال پرانی ہے جس کا موجودہ بنگال تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ خبر  04 جون  2018 کو شائع کی گئی تھی۔ اسی خبر کو اے این آئی نے بھی شائع کیا تھا لیکن بعد میں اس خبر کو ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔  ویب سائٹ نیوز لاؤنڈری کے مطابق بجرنگ دل کے 11 کارکنوں کو رام نومی کے تہوار پر کسی تشدد کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا، بی جے پی کارکن کے قتل سے ان گرفتاریوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہندو فرسٹ نامی ٹوئٹر ہینڈل سے  ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ بھیم آرمی  کے لیڈر  چندر شیکھر راون کا اصلی نام  نسیم الدین خان ہے، اور یہ ہندوؤں کو توڑنے کی ایک چال ہے۔  ہندو فرسٹ کے علاوہ فیس بک پر بھی اس دعوے کو بہت لوگوں نے اس کو شئیر کیا جہاں اس کو ہزاروں شئیر حاصل ہوئے۔

اس دعوے کو چندر شیکھر آزاد نے خود اپنے ٹوئٹ سے رد کیا اور کہا کہ یہ  دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آرہی ہے۔ بوم لائیو کو انہوں نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور بی جے پی کے لوگ ان کو بدنام کرنے کے لئے یہ سب کرواتے ہیں۔

(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)